مولانا نور العین سلفی کا مقالہ تاریخ دعوت وعزیمت کا نمونہ
مولانا نور العین سلفی کا مقالہ تاریخ دعوت وعزیمت کا نمونہ
امان اللہ شفیق تیمی مدھوبنی بہار
علامہ عبد العزیز رحیم آبادی کی شخصیت علماء کرام ،اہل فکر و نظر اور داعیان اسلام کے لیے محتاج تعارف نہیں ہے آپ کی ہما گیر اور ہما جہت شخصیت شعور و آگہی، علم و عرفاں،فکر و فن اور صحافت و خطابت کی ایسی دلکش انجمن ہے جس کا ہر گوشہ مبلغان دین اور داعیان اسلام کو دعوت فکر دیتا ہے۔
ملک ہندوستان میں سلفی افکارونظریات،خالص کتاب سنت کی ترویج اور عمل بالکتاب والسنہ کی تحریک کو مضبوطی فراہم کرنے ،پوری جمعیت کی شیرازہ بندی کرنے جمعیت اہل حدیث ہند کے قیام میں کلیدی کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ زمینی سطح پر قرآن و حدیث کے احکام و فرامین کو نافذ کر نے میں آپ علیہ الرحمہ کا کر دار انتہائی سرفروشانہ اور لائق تقلید رہا ہے ۔
مدرسہ احمدیہ سلفیہ دربھنگہ جیسا شعور و آگہی اور علم و عرفان کا عظیم دانشگاہ آپ کے خوابوں کی حسین تعبیر ہے جو ایک صدی سے پورے ملک میں عموما اور صوبہ بہار میں خصوصا کتاب و سنت کی روشنی بکھیر رہا ہے۔
مورخہ 18 نومبر کو جمعیت ابنائے دار العلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ کے زیر اہتمام ایک روزہ دعوتی وتربیتی کانفرنس و سیمینار کا انعقاد انتہائی تزک و احتشام کے ساتھ کیا گیا تھا اور قوم وملت کے عظیم دانش وران ،مفکران اسلام اور مبلغان دین کو “مولانا عبد العزیز رحیم آبادی حیات وخدمات “کے موضوع پر اپنا قیمتی علمی تحقیقی مقالہ پیش کر نے کے لیے مدعو کیاگیا تھا۔
ملک کی مائہ ناز علمی ہستیاں سیمینا ر میں شریک ہوئیں اور انہوں نے اپنا گرانقدر علمی مقالہ پیش کرتے ہوئے مولانا عبد العزیز رحیم آبادی کے افکاروخیات اور دعوت وتبلیغ کیلئے مولانا موصوف ممدوح کی منصوبہ بندی پر کھل اظہار خیال کیا۔
اس عظیم الشان دعوتی وتربتی کانفرنس وسیمینار میں ضلع مدھوبنی کی عظیم دانشگاہ مدرسہ اسلامیہ راگھونگر بھوارہ مھوبنی کے موقر استاذ ،متدین عالم دین اور مشہور علمی شخصیت مولانا نور العین سلفی نے بھی شرکت فرمائی ۔
آپ کے مقالہ کا عنوان “خالص کتاب وسنت کی دعوت،صالح عقیدہ کی ترویج واشاعت ،اور مولاناعبد العزیز رحیم آبادی “تھاآپ نے اپنے مقالہ کا آغاز علامہ اقبال کے مشہور شعر “ہزاروں سانرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدور پیدا” سے کیا ہے ۔
آپ کا مقالہ راقم الحروف کو فیسبک لائو سے سننے اور بعد میں پڑھنے کو دستیاب ہوا اور میں نے دعوت وعزیمت پر مشتمل اس مقالہ کے پیغام کو عام کرنے کی ضرورت محسوس کی ،آپ کا مقالہ بنیادی طور چار حصوں پر مشتمل ہے اور پورا مقالہ مولانا عبد العزیز رحیم آبادی کی شخصیت اور اسکے عظیم کارناموں کا آئینہ دار ہے۔
پہلے حصہ میں آپ نے انتہائی اختصار کے ساتھ مولانا موصوف ممدوح کی پیدائش،نشو نما اور تعلیم و تربیت کاذکرکیا ہے
نیز علامہ علیہ الرحمہ کی دعوتی فکر،عملی سرگرمیاں اور عام لوگوں کے قلوب واذہان میں خالص کتاب وسنت کی دعوت کو راسخ کرنے کی فکر کو انتہائی شائستگی کے ساتھ اجاگر کیا ہے ،اس کے علاوہ آپ نے مولانا عبد العزیز رحیم آبادی کے اعلی اخلاق و کردار اورصبر و شکر کے ساتھ زندگی گزارنےکی کہانی کاذکر کرتے ہوئے مولانا علیہ الرحمہ کی سخاوت و فیاضی کا تذکرہ بھی کیا ہے۔
مولانا عبد العزیز رحیم آبادی نے مسجدوں کی تعمیرو ترقی اور اسکی محافظت میں جو کردار اداکیا ہے اسکی نظیر نہیں ملتی ،آپ نے ایک مسجد کی حصولیابی کیلئے مقدمات میں اپنے جیب خاص سے 80 ہزار روپیہ کا گرانقدر رقم اس زمانہ میں صرف کردیا جس وقت پیسہ کی بڑی اہمیت ہواکرتی تھی۔ مقالہ کے دوسرے حصہ کا تعلق مولانا عبد العزیز رحیم آبادی کی دلچسپی اور رغبت سے ہے ۔
مولانا عبد العزیز رحیم آبادی کائنات کی خلقت کاراز تلاش کرتے،حیات بعد الممات کو لوگوں کے درمیان نکھار کر پیش کرتے اور لوگوں کے دلوں میں خالص توحید اور سیرت محمدی کا شمع فروزاں کرنے میں مصروف عمل رہتے،سماجی اور معاشرتی طور پر لوگوں سے بہت زیادہ مربوط رہتے ،معتقدوں کی شادی ،بیاہ،تجہیز و تکفین اور دیگر تقریبات میں شامل ہوتے اور غیر شرعی اعمال،بدعات وخرافات اور مشرکانہ عمل پر کاری ضرب لگاتے،چوسر اور شطرنچ کی سنگین بیماری میں ملوث لوگوں کی انتہائی حکمت عملی کے ساتھ اصلاح فرماتے اور جلد ہی انکے فکر کی اصلاح کرنے میں کامیاب ہوجاتے۔
اسی طرح مقالہ کا تیسرا حصہ مولانا عبد العزیزی رحیم آبادی کی علمی گہرائی ،فکری بلندی اور کتاب وسنت کے معاملہ میں لوگوں کی گمرہی ،کج فہمی اور کج روی کا علمی جائزہ اور فکری مواخذہ سے تعلق رکھتا ہے ۔
مقالہ کے اس حصہ میں مولانا نور العین سلفی صاحب نے علامہ علیہ الرحمہ کی شہرہ آفاق علمی اور تحقیقی تصنیف “حسن البیان فیما فی سیرۃ النعمان “اور مناظرہ مرشدآباد کا ذکر انتہائی اختصار مگر جامع طریقہ سے کیا ہے ۔حسن البیان فیما فی سیرۃ النعمان مولانا رحیم آبادی کا وہ شاہکار علمی کارنامہ ہے جس نے تحقیق وتد قیق کے بحر بیکراں عظیم علمی شخصیت اور مائہ ناز ہستی علامہ شبلی رحمہ اللہ کو بھی اپنی علمی غلطی کی اصلاح کرنے پر مجبور کردیا
اورانہوں نے امام ابو حنیفہ کی سوانح سیرۃ النعمان کے قابل اعتر اض حصوں کو ہٹاکر اشاعت کرائی۔
حسن البیان فیما فی سیرۃ النعمان بنیادی طور پر حدیث و اصول حدیث اورسیرت محدثین سے متعلق عمدہ مباحث ،علم حدیث اور ائمہ حدیث پر مولانا شبلی کے اعتراضات کے جوابات پر مبنی انتہائی گرانقدر تصنیف ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
اسی طرح مقالہ کہ اس حصہ میں مولانا نو ر العین سلفی صاحب نے مناظرہ مرشد آباد کا بھی ذکر چھیڑا ہے اور اس مناظرہ میں مولانا آروی اور حافظ عبد اللہ غازیپوری جیسے جید علماء کرام کی جانب سے مناظرہ کے لیے مولانا رحیم آبادی کا انتخاب کئے جانے،مناظرہ میں مولانا کا بے نظیر حاضر جوابی اور قرآن و سنت کی دلائل سے مخالفین کو مبہوت کرنے اور ایک ہفتہ کے بعد علما اہل حدیث کی فتح و نصرت اور کام یابی و کامرانی کا انتہائی خوب صورتی کےساتھ احاطہ کیا ہے ۔
مقالہ کے آخری حصہ کا تعلق مولانا عبد العزیز رحیم آبادی رحمہ اللہ کی جوہر خطابت اور اسلوب بیان سے تعلق رکھتا ہے ۔علامہ علیہ الرحمہ کو اللہ تعالی نے بے پناہ خوبیوں کے ساتھ قوت گویائی اور سحربیانی کی بھی عظیم نعمت سے سرفراز کیاتھا
آپ کی تقریر اور وعظ ونصیحت انتہائی موثر ،دلپذیر اور ساحرانہ ہواکرتی تھی اور اپنوں کے ساتھ ساتھ غیروں پر اثر انداز ہوتی ،اوریہی وجہ ہیکہ بہت سارے غیر مسلموں نے بھی آپ کی دعوت کو قبول فرمائی اور مشرف بہ اسلام ہوگئے۔1916 کےسالانا آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس بنار س میں احناف کا متفقہ اس بات کا اعتراف کرنا کہ “یہ شخص اس امت کا امام غزالی ہے” اور ابو الوفا مولانا ثناء اللہ امرتسری کا آپ علیہ الرحمہ کی اسلوب خطابت کے تعلق سے یہ شعر کہنا”اثر لبھانے کا پیارے تیرے بیان میں ہے کسی کی آنکھ میں جادو تیری زبان میں ہے “آپ کی جوہر خطابت کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے ۔
صاحب مقالہ نے مولانارحیم آبادی کی سحربیانی کا انتہائی اختصار کے ساتھ تذکرہ کیا ہے۔خلاصہ کلام یہ کہ مولانا نور العین سلفی صاحب کا یہ مقالہ مولانا عبد العزیز رحیم آبادی کی زندگی کے روشن پہلوؤں کو انتہائی اختصار مگر جامعیت کے ساتھ احاطہ کرنے کی کام یاب کوشش کی ہے۔
مجھے امید ہے کہ آپ کا یہ مقالہ مولانا رحیم آبادی کی شخصیت کے تعلق سے نئی نسل کے نوجوانوں میں دعوت و تبلیغ کی اسپرٹ پیدا کریگا ،اور علوم نبویہ میں گہرائی و گیرائی پیداکرنے ،کتاب وسنت کے علم کی حصولیابی کے بعد دعوت وتبلیغ کے میدان میں کودنے کیلئے انکے فکر کو مہمیز لگائے گا۔
اللہ تعالی آپ کی جملہ خدمات کو درجہ قبولیت بخشےاور نیک اعمال کے ساتھ لمبی زندگی عطا کرے آمین لیکن سبسے زیادہ شکر وسپاس کے مستحق ہیں جمعیت ابنائے دارالعلوم احمدیہ سلفیہ ،اس کے ذمہ داران اور کارکنان جنہوں نے اپنے محسن و مربی اور اس دانش گاہ کے معمار مولانا عبد العزیز رحیم آبادی کی حیات و خدمات کے موضوع پر شاید پہلی بار اتنا عظیم الشان کانفرنس اور سیمینار کا انعقاد کیا ہے اور علامہ علیہ الرحمہ کے دعوتی اسپرٹ کو نئی نسل میں منتقل کرنے کی انتہائی کامیاب اور شاندار کو شش کی ہے۔
مدرسہ احمدیہ سلفیہ دربھنگہ ہماری جماعت کی شہ رگ ہے ،اسکی تعمیر وترقی ،انتظام وانصرام اور اسے تعلیمی اعتبار سے بام عروج پر لے جانا پوری ملت کے کاندھے پر ان نفوس قدسیہ کی امانت ہے جس کی ادائیگی سے غفلت اور اس میں خیانت پوری ملت کیلئے نقصاندہ ثابت ہوگی۔الحمد للہ ادارہ کے تمام ذمہ داران اور اساتذہ کی کاوشیں حقیقی معنوں میں بہت زیادہ قابل تعریف اور لائق تحسین ہے۔
یہ لوگ ہمیشہ مذاکرہ علمیہ کا انعقاد انتہائی تزک و احتشام کے ساتھ کرتے ہیں اور اس مذاکرہ کیلئے ملک کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے انتہائی حساس اور سلگتے موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں اور پوری امت کو بیدار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس وقت جہاں بیشتر مدارس و جامعات پر اضمحلال طاری ہے ایسے پرآشوب دور میں مدرسہ احمدیہ سلفیہ دربھنگہ کی یہ تاریخی اقدام یقینا ناقابل تسخیر تاریخ کا حصہ بنے گی اور آنے والی نسلوں میں دعوتی فکر،سلفیت کا جوش اور کتاب وسنت کی ترویج و اشاعت کے تئیں ان کی حمیت کو مہمیز لگاتی رہےگی۔
اللہ اس چمنستان علم و عرفاں کی محافظت فر مائے اور پوری ملت اسلامیہ کے لیے خیر کا باعث بنائے آمین۔
Mob 9546884882
amanullahtaimi12th@gmail.com