اسلام نہیں مسلمان خطرے میں ہیں

Spread the love

__اسلام نہیں مسلمان خطرے میں ہیں

ٹپک اے شمع آنسو بن کے پروانے کی آنکھوں سے
سراپا درد ہوں حسرت بھری ہے داستاں میری

21/ رمضان، مطابق 10/ اگست، 610ء،بروز دوشنبہ کو غارحرا میں قرآن مقدس کی پہلی پانچ انقلابی آیتوں کے نزول کے ساتھ نبوت کا اعلان ہوا، اور آقائےکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی تبلیغ و اشاعت داعیانہ کردار کے ساتھ شروع کی۔ پھر اسلام تدریجاً دنیا میں ایک ہزار سال تک تیزی کے ساتھ پھیلتا رہا اور مسلمانوں کی آبادی دنیا میں بڑھتی گئ اور یہ جلد ہی بیس فیصدی سے زیادہ ہوگئی، ایک وسیع ترین خطۂ ارض پر اسلامی حکومت قائم ہوگئی۔سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والے مذہب کا نام اسلام ہوگیا۔سب سے زیادہ مہذب اور اعلی اخلاق و کردار کے ساتھ سماجی، معاشی، ثقافتی اور علم و ہنر کا بے تاج بادشاہ جس قوم کو کہا گیا وہ مسلمان تھے۔ لیکن گیارہویں صدی ہجری کے بعد سے اسلام کا پھیلاؤ تو بدستور جاری رہا، وہ اپنی حقانیت کے جلوے بکھیرتا ہی رہا۔گوگل کے مطابق1.97 بلین کی تعداد کے ساتھ آج دنیا میں مسلمانوں کی شرح پچیس فیصد ہے اور شاید حقیقت میں یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہو۔پر ان سب کے باوجود یہ دور مسلمانوں کی زبوں حالی اور زوال کا دور مانا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں ہم خط افلاس سے بہت نیچے پہنچ گئے ہیں۔ تعلیم میں ہم دوسری قوموں کے مقابلے میں کافی پیچھے ہیں۔ ہماری یہ حالت آج کیوں ہے؟ آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ چونکہ اسلام قبول کرنے والے زیادہ تر لوگ یہودی، عیسائی اور ہندو تھے۔ اور یہ تینوں بڑے مذاہب جو آپس میں ایک دوسرے کے سخت دشمن تھے، بہت تیزی سے اپنی گھٹتی آبادی کو دیکھ کر اسلام کے خلاف متحد ہو گئے اور اسلام کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ایک مشترکہ پلان تیار کیا جسکے یہ تین خاص نکات تھے۔

1- مسلمانوں میں فرقہ پرستی پیدا کر کے اسے ہزاروں ٹکڑوں میں بانٹ دیا جائے۔
2- ان کے حسن اخلاق اور انسانیت نواز چہرے کو بگاڑ کر سفاک اور بربر قوم کا لیبل ان پر چسپاں کردیا جائے۔
3- سماجی، معاشی اور فلاحی علوم و فنون سے انہیں دور کر کے جہالت اور غربت کی نچلی سطح میں ڈھکیل دیا جائے۔

ان تینوں بڑے مذاہب کے لوگوں نے بڑی چالاکی سے اپنے تیز طرار اور ذہین لوگوں کو اسلامی شکل و صورت میں مسلمانوں کے درمیان بھیجا اور انہیں مبلغ، خطیب و امام و رہبر اور رہنما بنوایا (پڑھیے ہمفرے کے اعترافات) اور بعض مقامات میں شہرت یافتہ نامور مسلمانوں کو ہی خرید لیا اور پھر وہ عیار لوگ اپنے اہداف کے حصول کی ابتدا دینی تعلیم اور دنیاوی تعلیم کی تقسیم سے کی، اور یہ باور کرایا کہ یہ دنیا اور دنیاوی تعلیم انسان کو جہنم کی جانب لے جاتی ہے۔ ہم مسلمانوں کو صرف کلام (عقائد) اور فقہ پڑھنا چاہیے (اور وہ بھی سطحی اور معروضی طریقے سے، نہ کہ تحقیق و ریسرچ اور نئے نئے آفاق و جہت کی جستجو اور تلاش و جستجو کے نظریے سے) اور انہیں علوم کی ترویج واشاعت میں اپنی ساری توانائی اور سرمایہ صرف کرنی چاہیے کہ جنت جانے کی صرف یہی ایک صورت ہے۔ دوسری طرف چوں کہ اسلام میں فرائض وواجبات اور حلال و حرام کے مسائل واضح اور مستحکم ہیں، اور ان امور میں تقریباً جمہور مسلمین متفق ہیں، ان میں وجہ افتراق پیدا کرنا بہت مشکل ہے، اس لیے ان گندم نما جو فروشوں نے عقائد،مستحبات، بدعات حسنہ و بدعات سیٔہ، افضل، اولی، خلاف اولی، مکروہ تنزیہی، مکروہ تحریمی جیسے امور و مسائل پر مناظرہ ومباحثہ، مذاکرہ اور پھر اس کے بعد مارپیٹ، جنگ و جدال اور پھر انہیں غیر ضروری مسائل میں موضوع روایات کو پیش کرکے میرے شیخ نے یہ کہا، تیرے شیخ نے وہ کہا، میرا پیر، تیرا پیر، میرا استاد، تیرا استاد الغرض شخصیات کے نام پر فرقے اور مسلک و مشرب کی الگ الگ خانہ سازی شروع کی اور یہ متحدہ قوم مسلم ہزاروں ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ حتیٰ کے ہر فرقہ دوسرے فرقے کے خون کا پیاسا ہو گیا۔ دوسری جانب ترک دنیا کی ترغیب نے ہمیں جہالت و غربت کے اس نچلے سطح تک پہنچا دیا جہاں ہمارے حریف ہمیں پہنچانا چاہتے تھے۔ بہت پہلے ڈاکٹر اقبال نے قوم مسلم کو آگاہ کیا تھا کہ:

رلاتا ہے تیرا نظارہ اے ہندوستاں مجھ کو۔
کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں۔
سُن اے غافل صدا میری، یہ ایسی چیز ہے جس کو۔
وظیفہ جان کر پڑھتے ہیں طائر بوستانوں میں۔
وطن کی فکر کر ناداں! مصیبت آنے والی ہے۔
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں۔
ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہو رہا ہے، ہونے والا ہے۔
دھَرا کیا ہے بھلا عہدِ کُہن کی داستانوں میں۔
یہ خاموشی کہاں تک؟ لذّتِ فریاد پیدا کر۔
زمیں پر تُو ہو اور تیری صدا ہو آسمانوں میں۔
نہ سمجھو گے تو مِٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو!
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔

__ہمیں برباد کرنے کے لیے دنیا کی تین بڑی طاقتیں متحد ہوکر اپنے مقصد میں کافی حد تک کامیاب ہو چکی ہیں۔ ہم اس سے زیادہ برباد نہیں ہو سکتے۔ اب تو ہم بقول اقبال ایک قیدی ہیں۔

قیدی ہوں اور قفس کو چمن جانتا ہوں میں۔
غربت کے غم کدے کو وطن جانتا ہوں میں۔

نشاۃ ثانیہ کے لیے ہمیں از سر نو اپنی شیرازہ بندی کرنی ہوگی۔یہ تین سو سالہ طرز کہن چھوڑنا ہوگا، جس نے ہمیں پارہ پارہ کر دیاہے اور پھر سے چودہ سو سالہ پرانی صبح و شام کے ساتھ جینے کا سلیقہ قرآن و سنت سے سیکھنا ہوگا۔

کچھ بتا اس سیدھی سادی زندگی کا ماجرا
داغ جس پر غازۂ رنگ تکلف کا نہ تھا
ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو

__فرقہ پرستی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے اس لیے ہمیں اختلافات کے ساتھ اتحاد کا سلیقہ سیکھنا ہوگا۔ کہ ہمیں اپنے اختلافات اور تحفظات کے ساتھ ایک اللہ، ایک رسول، ایک قرآن اور ایک کلمۂ طیبہ کے نام پر اچھی دنیا، اچھی آخرت کے لیے متحد ہونا پڑے گا۔ اور ایسا کیوں نہیں ہوسکتا جبکہ اللہ تعالی نے قرآن مقدس میں واضح طور پر حکم دیا ہے کہ اے ایمان والو! مشرکین کے ان باطل معبودوں کو گالیاں نہ دو.جنہیں وہ اللہ تعالی کو چھوڑ کر پوجتے ہیں۔ (کہ رد عمل میں) وہ بھی انجانے میں تمہارے اللہ تعالی کو گالیاں دیں گے.(سورۂ انعام آیت نمبر ١٠٨)
اختلاف کے بعد جنگ و جدال، توہین و تنقیص اور تنقید بیجا شروع ہوتی ہے۔ ہم میں سے ہر شخص کو توہین، تنقیص اور تنقید بیجا سے پرہیز کرنی چاہیے۔ اگر ہم ایسا کر سکے تو ہمارے اکابرین کو اہم اور بڑے مقاصد کے لیے اتحاد کرنا آسان ہو جائے گا۔اور یہ سب کچھ آسان ہو جائے گا جب ہم پھر سے قرآن مقدس کی پہلی آیت إقرأ پر عمل کرتے ہوئے مسلمانوں کے ہر بچہ اور بچی کو صلاح و فلاح کے تمام علوم و فنون سے آراستہ کرنے کا عہد کریں گے۔ ضرورت کے مطابق جدید ادارے قائم کریں گے۔ ایسا کرنے کے لیے تحریک چلائیں گے۔ تعلیمی بیداری لائیں گے۔ ان شاءاللہ ہم ہی بلند و بالا ہوں گے۔ باوقار ہوں گے۔ اور پھر دنیا میں ہماری ہی حکومت ہوگی۔

نہ ہو مایوس اے اقبال اپنی کشت ویراں سے۔
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

__مسلمان ایک جاں باز قوم ہے، اس نے اگر قرآن و سنت کو مضبوطی سے تھام لیا تو امامت، حکومت اس کی مقدر ہے۔ ہمیں اپنے پرانے اسباق کو یاد کرنا ہے۔

سبق پڑھ پھر صداقت کاشجاعت کاعدالت کا۔
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا۔

محمد شہادت حسین فیضی
9431538584

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *