کثیر کتابیں لکھنے والے علمائے کرام

Spread the love

کثیر کتابیں لکھنے والے علمائے کرام

ازقلم: احـمـدرضـا مـغـل

فقیہ ملّت حضرت مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللّٰہ علیہ اپنی کتاب ” فضائل علم و علماء ” میں تصنیف کی فضیلت کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

: ان مما یلحق المؤمن من عملہ و حسناتہ بعد موته علما علمه و نشرہ وولدا صالحا ترکه او مصحفا ورثه او مسجدا بناہ او بیتا لابن السبیل او نھرا اجراہ او صدقة اخرجه من ماله فی صحته و حیاته تلحقه من بعد موته رواہ ابن ماجه و البیہقی

جو اعمال و نیکیاں مؤمن کو بعدموت بھی پہنچتی رہتی ہیں ان میں سے وہ علم ہے جسے سیکھا گیا اور پھیلایا گیا ، اور نیک اولاد جو چھوڑ گیا ،یا قرآن شریف جس کا وارث بنا گیا،یا مسجد یا مسافر خانہ جو بنا گیا ،یا نہر جو جاری کرگیا یا خیرات جسے اپنے مال سے اپنی تندرستی و زندگی میں نکال گیا، کہ یہ چیزیں اسے مرنے کے بعد بھی پہنچتی رہتی ہیں۔

(ابن ماجہ،بیہقی فی شعب الایمان)

فائدہ : ان تمام چیزوں کا اور اسی طرح دینی کتابیں وراثت میں چھوڑنے، ان کو وقف کرنے اور مدرسہ و خانقاہیں بنوانے کا ثواب بھی مؤمن کو قبر میں ملتا رہے گا جب تک کہ وہ دنیا میں باقی رہیں گی۔

ان میں تعلیم دینے کا ثواب زیادہ دنوں تک ملتا رہے گا بشرطیکہ شاگردوں کو قابل بنائے اور ان سے درس و تدریس کا سلسلہ چل پڑے اور سب سے زیادہ ثواب بہترین دینی کتابوں کی تصنیفات کا ملے گا کہ وہ پوری دنیا میں پھیل جاتی ہیں اور قیامت تک باقی رہیں گی جن سے مسلمان اپنے ایمان و عمل سنوارتے رہیں گے۔

( فضائلِ علم و عُلماء ص 88 )

٭ حضرت امام عبد الرحمن الجوزی رحمۃ الله علیہ نے ابو الوفاء بن عقیل رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے ” الفنون ” نامی ایک کتاب لکھی جو آٹھ سو (800) جلدوں میں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں لکھی جانے والی کتابوں میں یہ سب سے بڑی کتاب ہے۔

( المنتظم ج 9 ص 96 )

٭ خود امام ابن الجوزی رحمۃ الله علیہ نے دینی علوم و فنون میں سے تقریبا ہر فن پر کوئی نہ کوئی تصنیف چھوڑی ہے ۔

مشہور ہے کہ ان کےآخری غسل کے واسطے پانی گرم کرنے کے لئے قلم کا وہ تراشہ کافی ہوگیا جو صرف احادیث لکھتے ہوئے قلم کے تراشنے میں جمع ہوگیا تھا۔

( قیمۃ الزمن ص 21 )

٭ امام جوزی رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے مدرسہ نظامیہ کے پورے کتب خانے کا مطالعہ کیا جس میں چھ ہزار (6000) کتابیں تھیں اسی طرح بغداد کے مشہور کتب خانے کتب خانہ الحنفیہ، کتب خانہ حمیدی ،کتب خانہ عبد الوھاب، کتب خانہ ابو محمد وغیرھا جتنے کتب خانے میری دسترس میں تھے، سب کا مطالعہ کرڈالا۔ ایک دفعہ برسر منبر فرمایا میں نے اپنے ہاتھ سے دو ہزار ( 2000 ) جلدیں تحریر کی ہیں۔

( قیمۃ الزمن ص 21 )

٭حافظ الحدیث حضرت امام جلال الدین سیوطی رحمۃ الله علیہ نے چھ سو ( 600 ) سے زائد کتب تصنیف فرمائیں۔ جن میں تفسیر دُرِّ منثور، البدور السافرة اور شرح الصدور مشہور ہیں۔

٭ استاذ المحدثین حضرت یحییٰ بن مَعِیْن رحمۃ الله علیہ کا بیان ہے کہ انہوں نے اپنے ہاتھ سے دس لاکھ (1000000) احادیث مبارکہ تحریر کیں۔

(سیر اعلام النبلاء ج 11 ص 85)

٭ عظیم صوفی بزرگ حضرت امام محمد بن محمد غزالی رحمۃ الله علیہ نے اٹھتر (78) اصلاحی ، علمی اور تحقیقی کتابیں لکھیں جن میں صرف ”یاقوت التاویل “ چالیس (40) جلدوں میں ہے ۔

( علم اور علماء اہمیت ص 20 )

٭ معروف محدث حضرت امام ابن شاہین رحمۃ الله علیہ نے صرف روشنائی اتنی استعمال کی کہ اس کی قیمت سات سو درھم بنتی تھی ۔

(علم اور علماء کی اہمیت ص 21)

٭ فقہ حنفی کے امام حضرت امام محمد رحمۃ الله علیہ کی تالیفات ایک ہزار (1000) کے قریب ہیں۔

( علم اور علماء کی اہمیت ص 21 )

٭ حضرت ابن جریر طبری رحمۃ الله علیہ نے اپنی زندگی میں تین لاکھ اٹھاون ہزار (358000) اوراق لکھے جس میں تین ہزار (3000) اوراق تو آپ کی کتاب ” تفسیر طبری ” کی ہیں جو تیس (30) جلدوں پر ہے مزید آپ کی ایک کتاب ” تاریخ الامم و الملوك ” ہے جو اکیس (21 ) جلدوں پر ہے۔

( تاریخ بغداد ج 2 ص 163 )

٭ حضرت علامہ باقلانی رحمۃ الله علیہ نے صرف معتزلہ کے رد میں ستر ہزار (70000) اوراق لکھے ۔

( علم اور علماء اہمیت ص 20 )

٭ مشہور محدث حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ الله علیہ نے

”فتح الباری “چودہ (14) جلدوں میں

”تہذیب التہذیب “ چار ( 4 )جلدوں میں

” الاصابہ فی تمییز الصحابہ ” نو (9) جلدوں میں

” لسان المیزان ” آٹھ( 8 ) جلدوں میں

” تغلیق التغلیق ” پانچ ( 5 )جلدوں میں اور دیگر کتب ورسائل کی تعداد ڈیڑھ سو ( 150 ) سے زائد ہیں ۔

( علم اور علماء اہمیت ص 20 )

٭ حافظ الحدیث حضرت امام عساکر رحمۃ الله علیہ نے ” تاریخ دمشق ” اَسِّی ( 80 ) جلدوں میں لکھی۔ ٭ حضرت امام شمس الدین ذھبی

رحمۃ الله علیہ نے ” تاریخ اسلام ” پچاس (50) جلدوں اور ” سیر اعلام النبلاء ” تئیس (23) جلدوں ” تذکرۃ الحفاظ ” چار ( 4 ) جلدوں میں لکھیں۔

٭ حافظ الحدیث امام سید محمد مرتضیٰ بلگرامی زبیدی رحمۃ اللہ علیہ نے 100 سے زائد کتب لکھیں ،جن میں مشہور و معروف تاج العروس ( 40 مجلد ) اور اتحاف سعادۃ المتقین شرحِ احیاء علوم الدین ہے۔

( حدائق الحنفیۃ ص 477 )

٭ معروف محدث فرات بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا وصال ہوا تو ان کے گھر سے اٹھارہ ( 18 ) صندوق کتب سے بھرے ہوئے دستیاب ہوئے ان کتب میں اکثر ان کی خود نوشتہ تھیں۔(فضائل علم و علماء ص 196)

٭ قطب شام حضرت امام عبد الغنی نابلسی رحمة اللّٰہ علیہ نے ڈھائی سو( 250 )سے زائد کتب تحریر کیں ۔ ( اصلاح اعمال مترجم ، مقدمہ ، ج 1 ص 70 )

٭ مفتی الثقلین ،امام اصول و فروع شمس الدین ابنِ کمال پاشا رومی رحمۃ اللہ علیہ 300 سے زائد کتب لکھیں جن میں مشہور کتاب ” مجموعہ رسائل ابن کمال پاشا ” ہے ۔

( ماہ نامہ فیضان مدینہ ، اپنے بزرگوں کو یاد رکھئیے ، عرس ذیقعدہ )

٭ محدث شہیر حافظ ابو نعیم اصفہانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے 50 کتب تحریر کیں جن میں مشہور معروف حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء ہے۔

( حلیۃ الاولیاء مقدمہ ج 1 ص 15 )

٭ سلطان اولیاء حضرت شیخ عبد القادر الجیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی کتب کی تعداد 72 ہے حالانکہ آپ مدرس بھی تھے اور تبلیغ بھی فرماتے تھے ۔

٭ امام اہلسنت امام احمدرضا خان رحمۃ الله علیہ نے مختلف عنوانات پر کم و بیش ایک ہزار (1000) کتابیں لکھی ہیں ۔ ( تذکرہ امام احمد رضا ص 16 )

٭ یوں تو اعلیٰ حضرت رحمۃ الله علیہ نے 1286ھ سے 1340ھ تک لاکھوں فتوے دیئے ہوں گے لیکن افسوس کہ !

! سب نقل نہ کئے جاسکے جو نقل کرلیے گئے تھے وہ “ العطایا النبویہ فی الفتوی الرضویہ “ کے نام سے موسوم ہیں۔ فتاوی رضویہ کی 30 ( تیس ) جلدیں ہیں جن کے کل صفحات 21656 ( اکیس ہزار چھ سو چھپن )، اس میں کل سوالات و جوابات 6847 ( چھ ہزار آٹھ سو سینتالیس ) جبکہ 206 رسائل بھی اس میں موجود ہیں ۔

( تذکرہ امام احمد رضا ص 16 )

٭ حضرت علامہ مولانا مفتی فیض احمد اویسی رحمۃ الله علیہ کی کتب ورسائل کی تعداد کم و بیش تین ہزار (3000) سے زائد ہے۔آپ کی کتب کی فہرست پر ایک مستقل رسالہ بنام ” علم کے موتی ” موجود ہے۔

٭ قطب شام ڈاکٹر عبد العزیز الخطیب دامت برکاتہم العالیہ کی سات 7 موسوعات حدیث ،فقہ ، تصوف ، عقائد ، خطبات ، تاریخ السلامیہ ، دروس کے موضوعات پر ہیں۔

موسوعة الحدیث الشریف ( 4 مجلد )

موسوعة الفقة الشافعی ( 20 مجلد )

موسوعة التصوف ( 9 مجلد )

موسوعة العقائد ( 5 مجلد )

موسوعة خطب المنبریه ( 12 مجلد )

موسوعة الشخصیات الاسلامیه ( 7 مجلد )

موسوعة الدورس البدریه ( 5 مجلد )

یوں یہ باسٹھ ( 62 ) جلدیں ہوگئیں۔

ان کے علاوہ آپ کی کتب و رسائل کی تعداد پچپن ( 55 ) سے زائد ہے۔

٭ پیر و مرشد امیراہل سنت حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری اطال اللہ عمرہ کی کتب و رسائل کی تعداد تقریبا ڈیڑھ سو (150) ہے۔

یہ تو وہ کتب ہیں جن کا تذکرہ کہیں نہ کہیں ملتا ہے ۔ یہاں بغداد کا المناک سانحہ بھلایا نہیں جاسکتا کہ تاتاریوں نے جب بغداد میں عظیم طوفان برپا کیا ، علماء کا قتل عام کیا اور بغداد کی

لائبریریاں جلاکر ان کی راکھ دریائے دجلہ کے سپرد کردی تو تین دن تک اس راکھ سے اس دریا کا پانی سیاہ ہوکر بہتا رہا۔ اسی فتنے میں کئی ہزار یا لاکھوں کتب جن کی تعداد کا علم آج تک نہ ہوسکا ، ضائع کردی گئیں۔

مقصد تحریر اور سابقہ سطور سے حاصل ہونے والا نتیجہ :

ان تمام سطور کو پڑھنے سے یہ بات بلکل سمجھی جا سکتی ہے کہ ہمارے اسلاف کا تحریر سے کتنا لگاؤ تھا جبکہ آج کل حالیہ دور میں دیکھا یہ گیا ہے کہ نام نہاد خطیبوں اور نعت خوانوں کی وجہ سے ہمارے طلباء کے ازھان خط و کتابت سے ہٹ گئے ہیں اور انہوں نے اپنا مقصد صرف تقریر و خطابت کو بنانا شروع کر دیا اور وہ بھی اپنی محنت اور عربی کتب کی مدد سے نہیں بلکہ محض کسی جوشیلے مقرر کی تقریر سن کر اور اردو میں بیانات پر لکھی جانے والی کتب سے پڑھ کر بنا تحقیق کے آگے بیان کر دینا ہی مقصد سمجھ بیٹھے اور اسی پر اپنی صلاحیوں کو محدود کرتے نظر آتے ہیں لہذا ایسے طلباء سے عرض ہے اپنے مقاصد میں تحریر و کتابت کو بھی شامل کریں اور اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلیں۔ ان خطیبوں اور مقررین کے پیچھے چل کر اپنی صلاحیتوں کو محدود مت کیجیے اور اگر بیان و تقریر کرنی پڑے تو اپنی تقریر خود عربی کتب سے تیار کیجیے یا کسی صحیح العقیدہ سنی محققین علماء کرام کی کتب سے تیار کیجیے۔ ساتھ ساتھ تحریر لکھنے کی طرف بھی قدم بڑھائیے ،چاہے کسی ایک کتاب پر یا کسی موضوع پر۔اس سے آپ کی صلاحیتوں میں کئی گنا اضافہ ہوگا۔

شرف ملت حضرت علامہ مولانا عبد الحکیم شرف قادری رحمۃ الله علیہ اپنی کتاب ” تذکرہ اکابر اہلسنت ” میں لکھتے ہیں کہ محدث اعظم پاکستان حضرت مولانا سردار احمد قادری رحمۃ الله علیہ طلبہ سے مخاطب ہو کر فرمایا کرتے تھے :” مولانا ! درسی کتب پر حواشی لکھنے کی طرف توجہ ضرور دیجیے کچھ نہیں تو ہر روز ایک دو سطریں لکھ لیا کریں ان شاءاللہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ مکمل کتاب بن جائے گی ۔“ ( تذکرہ اکابرِ اہل سنت ص 78 )

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *