یکساں سول کوڈ سے قومی یک جہتی کا حصول ہوسکتا
کیا یکساں سول کوڈ سے قومی یک جہتی کا حصول ہوسکتا ہے؟
حافظ افتخاراحمدقادری
بھارت کے مسلمان اس وقت کئی مسائل سے دوچار ہیں انہیں مسائل میں سے اتراکھنڈ میں یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کا اعلان بھی ہے جو نوعیت کے اعتبار سے سنگین اور حساس ہے۔ ایسا نہیں کہ بھارت میں پہلی مرتبہ شریعت میں مداخلت کی کوشش کی جارہی ہو بلکہ اس سے قبل بھی مداخلت کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی جبکہ بھارت کا سیکولر دستور ہر شہری کو مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے لیکن 2014ء کے بعد سے صورتحال مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہے۔ بابری مسجد فیصلہ اور طلاق ثلاثہ کے خلاف قانون سازی کے ذریعہ برسر اقتدار حکومت نے ملت اسلامیہ ہند کی نبض پر ہاتھ رکھ کر یہ اندازہ کر لیا کہ اس میں کسی قدر جان ہے۔
حال ہی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی اتراکھنڈ حکومت نے ریاست میں یونیفارم سول کوڈ نافذ کر کے مسلم پرسنل لاء کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ملک میں یونیفارم سول کوڈ نافذ کرکے اتراکھنڈ نے بی جے پی اقتدار والی دیگر ریاستوں کو راہ دکھا دی ہے۔ابھی بھلے ہی مرکزی حکومت پورے ملک کے لئے قانون سازی نہ کرے کیونکہ فی الحال اس کی راہیں دشوار کن ہیں لیکن اتراکھنڈ کی طرح دیگر بھاجپائی ریاستیں یکے بعد دیگرے اس سمت پیشرفت کر سکتی ہیں۔ اتراکھنڈ میں یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کے کیا نتائج برامد ہوں گے؟ یہ بعد کی بات ہے یہاں مسئلہ شرعی و عائلی قوانین کا ہے۔
یکساں سول کوڈ کے تعلق سے دوسرے مذاہب کا کیا موقف ہے یہ وہ جانیں لیکن جہاں تک مذہب اسلام کا تعلق ہے وہ اس نظریے کو کہ مذہب زندگی کے مسائل و معاملات میں کوئی سروکار نہیں رکھتا بالکہ رد کرتا ہے اور اسے خدا کا فرمودہ نہیں بلکہ انسانی ذہن کا خود ساختہ نظریہ قرار دیتا ہے اس لئے کہ قرآن مجید نے جس طرح ذکر و فکر اور حمد و تسبیح اور نماز و روزہ اور حج و زکوٰۃ کے سلسلے میں ہدایات دی ہیں اسی طرح زندگی کے اجتماعی اور انفرادی جملہ مسائل و معاملات کے بارے میں بھی احکام و ہدایات اس کے اندر موجود ہیں اور ان احکام و ہدایات کی پابندی کو بھی اسی طرح لازمی قرار دیا گیا ہے
جس طرح نماز،روزہ،حج،زکوٰۃ وغیرہ کی پابندی کو۔رہی بات عائلی اور معاشرتی معاملات مثلاً نکاح و طلاق اور خلع وراثت و وصیت ہبہ اور حق شفعہ وغیرہ کی تو ان کے بارے میں قرآن مجید میں تاکیدیں آئی ہیں۔ نہ صرف یہ کہ اس کے متعلق قرآن مجید میں تاکیدیں آئی ہیں بلکہ یہ بھی موجود ہے کہ ان کی پابندی ہر مسلمان پر واجب ہے۔
یکساں سول کوڈ کی تجوایز وکیلوں کے نزدیک نہ صرف یہ کہ فکری اور اصولی اعتبار سے ہی ایک ناگزیر تجویز ہے بلکہ وہ یکساں سول کوڈ کی تجویز کی وکالت کرتے وقت کہتے ہیں کہ اس کے ذریعے قومی یک جہتی اور سیکولرزم کا حصول ہوگا جو کہ ملک کی ترقی اور اس کے باشندوں کی فلاح وبہبود اور خوش حالی کے حصول کے لیے ضروری ہے۔
یکساں سول کوڈ کے بغیر قومی یک جہتی اس لئے حاصل نہیں ہوسکتی کہ ہر مذہب اور ہر فرقے کے علاحدہ پرسنل لاز انہیں ہمیشہ یہ احساس دلاتے رہیں گے کہ وہ ایک دوسرے سے جدا گانہ مختلف سماجی گروہیں ہیں جنہیں جغرافیائی اتفاق نے متحد کر رکھا ہے اور یہ احساس انہیں کبھی بھی متحد ہوکر نہیں رہنے دے گا۔
یہاں پر یہ سوال ہر ذی شعور کے ذہن میں گردش کرتا ہوگا کہ کیا یکساں سول کوڈ سے قومی یک جہتی کا حصول ہوسکتا ہے؟اس کو سمجھنے کے لیے ان ممالک کے اجتماعی حالات کا جائزہ لینا ضروری ہے جہاں تمام شہریوں کے لئے یکساں قانون نافذ ہے۔بارہا تجزیہ میں یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ وہاں بھی آئے دن مختلف مسائل پر فسادات ہوتے ہی رہتے ہیں۔اب اس کے بعد اس سلسلے میں شک کی گنجائش نہیں رہنی چاہیے کہ یکساں سول کوڈ قومی یک جہتی اور اتحاد کے لئے ضروری نہیں ہے۔
یکساں سول کوڈ کی وکالت کرنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کے ذریعے عورتوں کے استحصال کو روکنے اور ان کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنے کا کام عمل میں آئے گا۔ اس معاملے میں خاص طور سے مذہب اسلام کے قانون وراثت کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مذہب اسلام کے عین فطرت انسانی کے مطابق ہونے والی بات کو مدلل انداز سے کہا جائے اور یہ بتایا جائے کہ مذہب اسلام میں حقوق کا تعلق فرائض اور ذمہ داریوں سے ہے جس کو جنتی ذمہ داری ہے اتنا ہی اس کا حق بھی تسلیم کیا گیا ہے۔
اب جبکہ یومِ جمہوریہ کے دن اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈ کو نافذ کر دیا گیا
لیکن تعلیم و تجارت اور ملازمت جیسی یکساں شہری سہولتیں اب بھی جوں کی توں برقرار ہیں۔طلباء آج بھی نوکری کے خاطر دھرنا دینے پر مجبور ہیں۔ان کے اوپر لاٹھیاں برسائی جاتی ہیں۔مظلوم و متاثرین کی امداد اور طلباء کے مستقبل کے بارے میں یکساں عمل کیوں نہیں کیا جاتا؟
یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی بات کرنے والے نام نہاد رہنما پہلے ذات پات،رسم و رواج اور تہذیب وتمدن کے ہزاروں اختلافات اور ہزاروں مختلف الخیال عقائد پر مشتمل ہندو،سکھ، جین اور بدھ وغیرہ کا یکساں سول کوڈ بنائیں اور اس کو نافذ کریں اس کے بعد ملکی سطح پر یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی بات کریں۔ یکساں سول کوڈ کی بابت یہ رائے مناسب ہے کہ یکساں سول کوڈ کی بات کرنے سے قبل اس بات پر بحث ناگزیر ہے کہ کس فرقہ کا عمل پرسنل لاء ایسا ہے کہ جس پر چل کر ملک کا ہر شہری امن و امان کی زندگی بسر کر سکتا ہے۔
آج یکساں سول کوڈ کو مسلم اقلیت سے جوڑ کر دکھایا جا رہا ہے کہ صرف وہی اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم اقلیتی طبقے کے ایسے افراد جو اس یکساں سول کوڈ کے منظر اور پسِ منظر اور اس کے آئینی تقاضوں سے نابلد ہیں وہ جذباتی بیان بازی کا طوفان کھڑا کئے ہوئے ہیں ۔
حالاں کہ اس کا فائدہ کسے ہونے والا ہے وہ جگ ظاہر ہے کیونکہ یکساں سول کوڈ کی مخالفت میں سکھ،عیسائی اور بالخصوص آدیواسی پہلے سے ہی کمر باندھے ہوئے ہیں۔سچائی یہ ہے کہ موجودہ حکمراں جماعت اکثریتی طبقے کے روز مرہ کے مسائل اور ملک کے نوجوانوں کے بیروزگاری کے مسائل سے کما حقہ واقف ہے اور اس کا نتیجہ کیا ہوگا اس سے بھی وہ آگاہ ہے۔اسی لئے وہ یکساں سول کوڈ جیسے حساس مسئلہ کا راگ الاپ رہی ہے۔ اب تک اسی طرح کے حساس موضوع کو چھیڑ کر اکثریتی طبقے کو احساس برتریت کے مکر وفریب کے جال میں پھنسایا جاتا رہا ہے اور اس کا خاطر خواہ فائدہ ملتا رہا ہے۔
اس تاریخی حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ملک میں اب ایک طاقت ایسی ہے جس کا ذرائع ابلاغ پر قبضہ ہے اور وہ اس طرح کے حساس مسئلے کو پیچیدہ در پیچیدہ بناکر اور اکثریت طبقے کے ذہن میں یہ غلط فہمی پیدا کرنے میں کامیاب ہے کہ ملک کے مسلم طبقے نے اکثریت طبقے پر ماضی میں ظلم وستم ڈھائے ہیں چنانچہ آج کہیں اورنگ زیب کے نام پر تو کہیں ٹیپو سلطان اور بابر کے نام پر اس طبقے کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ موجودہ حکمراں جماعت اکثریتی طبقے کے ذہن و دل میں احساس برتریت کا بیج بوچکی ہے اور اب وہ اسی طرح کے مسائل کو کھاد پانی کے طور پر استعمال کرکے اس بیج کو تناوری بخشنا چاہتی ہے تاکہ اس تناور درخت کی چھاؤں اس کے لئے آرام طلبی کا سامان پیدا کر سکے مگر یہ چال ملک کی سالمیت کے لیے بہت خطرناک ہے۔اس لئے اس مسئلہ پر مسلم اقلیتی طبقے کو بھی جذباتی ہائے توبہ سے پرہیز کرتے ہوئے ملک کی دیگر اقلیتوں کے ساتھ مل کر غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے۔
اس وقت یکساں سول کوڈ کو یہ کہتے ہوئے نظر انداز کرنا غلطی ہوگی کہ ابھی تو یہ صرف ایک چھوٹی سے ریاست میں نافذ ہوا ہے۔ یاد رہے کہ طوفان بلا خیز آنے سے قبل باندھ باندھنا اور اپنی ناؤ پتوار درست کر لینا ہی دانشمندی اور وقت کا تقاضہ ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ساتھ ساتھ تمام ملی و سیاسی جماعتوں، تنظیموں، دانشوران ملت اور قانونی ماہرین اس مسئلہ کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے ٹھوس و مؤثر اقدامات پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔
سابقہ کمزوریوں اور خامیوں کا جائزہ لے کر ایسا لائحہ عمل ترتیب دیں کہ اربابِ اقتدار سے آہنی بات اور مطالبات تسلیم کروائے جاسکیں۔ اس معاملہ میں تھوڑی سی بھی کوتاہی، تساہلی اور لاپرواہی کی گنجائش نہیں ہے۔صرف مخالفت، مذمت اور رسمی بیان بازی، اجلاس اور تقاریر سے بھاجپا اور سنگھ پریوار اپنے مذموم عزائم سے باز نہیں آئیں گے۔