احادیث صحیحہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک کا ذکر
احادیث صحیحہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک کا ذکر
کیا فرماتے ہیں علماے و مفتیان کرام مندرجہ ذیل سوالات کے متعلق کہ: 1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے سر مبارک کے بال مبارک منڈواے تھے یا نہیں ؟ 2 کیا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے مابین بالوں کو تقسیم فرمایا تھا یا نہیں ؟ 3۔ حضرت خالد بن ولید اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھما والے واقعات کن کتابوں میں ہیں ؟ مستند حوالہ جات کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں! آپ کی عین نوازش ہوگی۔ سائل : الطاف حسین اشرفی جموں و کشمیر
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب
احادیث صحیحہ سے یہ بات ثابت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بال مبارک منڈواکر صحابہ کرام کے مابین بطورِ تبرک تقسیم فرمائے، نیز ” بخاری شریف”کی روایت ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا کے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے موۓ مبارک تھے اور وہ بطور تبرک پانی میں ڈبو کر بیماروں کی شفایابی کے لیے لوگوں کو پانی عطا فرماتی تھیں، اسی طرح ” عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری” میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ مرقوم ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ اپنی ٹوپی میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک رکھا کرتے تھے جس کی برکت سے جنگوں میں آپ کو فتح و نصرت حاصل ہوتی۔امام بخاری اپنی صحیح میں روایت کرتے ہیں: عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَنَسٍ:«أن رسول الله ﷺ لَمَّا حَلَقَ رَأْسَهُ، كَانَ أَبُو طَلْحَةَ أَوَّلَ من أخذ من شعره». ابن سیرین صحابی رسول حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ : رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے جب اپنے سرِمبارک کا حلق کرایا، تو حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ آپ کے موئے مبارک لینے والوں میں اول تھے۔(“صحيح البخاري” ج 1، ص 75، حدیث نمبر(169) طبع: دار ابن كثير، دار اليمامة)صحابی رسول حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
«لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ وَالْحَلَّاقُ يَحْلِقُهُ، وَأَطَافَ بِهِ أَصْحَابُهُ، فَمَا يُرِيدُونَ أَنْ تَقَعَ شَعَرَةٌ إِلَّا فِي يَدِ رَجُلٍ» میں نے حضور اقدس ﷺ کو دیکھا کہ حجام حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی حجامت بنا رہا تھا اور صحابہ کرام آپ ﷺ کے اردگرد ( پروانہ وار ) موجود تھے صحابہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ آپ کا کوئی بال مبارک زمین پر آۓ بلکہ صحابہ کرام اس کوشش میں تھے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے موۓ مبارک کسی نہ کسی صحابی کے ہاتھ میں آکر گرے۔ (“صحيح مسلم” ج، 7 ص 89، حدیث نمبر: (2325) طبع: دار الطباعة العامرة) مسلم شریف میں حضرت انس سے مروی ہے کہ « أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ أَتَى مِنًى، فَأَتَى الْجَمْرَةَ فَرَمَاهَا، ثُمَّ أَتَى مَنْزِلَهُ بِمِنًى وَنَحَرَ، ثُمَّ قَالَ: لِلْحَلَّاقِ خُذْ، وَأَشَارَ إِلَى جَانِبِهِ الْأَيْمَنِ، ثُمَّ الْأَيْسَرِ، ثُمَّ جَعَلَ يُعْطِيهِ النَّاسَ ».فرماتے ہیں : کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ تشریف لا ئے پھر جمرہ عقبہ کے پاس آئے اور اسے کنکریاں ماریں پھر منیٰ میں اپنی قیام گاہ پر تشریف لائے اور قر با نی کی ، پھر بال مونڈنے والے سے فر ما یا : پکڑو( استرا ) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر مبارک کی دائیں طرف اشاراہ کیا پھر بائیں طرف پھر اپنے مقدس بال مبارک صحابہ کرام کے درمیان تقسیم فرما دیے ۔(“صحيح مسلم” ج، 4 ص 82، حدیث نمبر: (1305) طبع: دار الطباعة العامرة)
امام زرقانی علیہ الرحمہ تقسیمِ موۓ مبارک کی وجہ بیان فرماتے ہوۓ رقم طراز ہیں: «وَاِنّما قسَّم شعرَہ في اصحابہ لِیکونَ برکةً باقیةً بینَھم وتذکرةً لھم، وکأنَّہ أشارَ بذلک الٰی اقترابِ الأجل.» رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے اپنے موئے مبارک اپنے اصحاب میں اس لیے تقسیم فرمائے، تاکہ وہ ان میں بطور برکت اور یادگار رہیں اور اسی سے گویا آپ صلى الله علیہ وسلم نے قربِ وصال کی طرف اشارہ فرمادیا۔(شرح العلامة الزرقاني علی المواھب اللدنیة، ص194، ج:8، طبع: دارالمعرفة، بیروت)
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی میں بال مبارک کا ذکر کرتے ہوئے علامہ بدر الدين عینی (ت ٨٥٥ هـ) فرماتے ہیں: قد ذَکَرَ غیرُ واحدٍ أن خالدَ بنَ الولیدِ رضی اللہ عنہ کانَ في قلنسوتہ شعراتٌ من شعرہ صلی اللہ علیہ وسلم فلذلک کان لا یقدم علٰی وجہ الّا فتح لہ. کئی آئمہ کرام نے ذکر فرمایا ہے کہ حضرت خالد بن الولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی میں رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کے موئے مبارک میں سے کچھ موئے مبارک تھے، اسی وجہ سے حضرت خالد رضی اللہ عنہ جس جانب پیش قدمی فرماتے تھے، اُنھیں کامیابی حاصل ہوتی تھی۔(عمدة القاري شرح صحيح البخاري ج 3، ص 37، حدیث نمبر 170، طبع: دار الفكر بيروت )
موۓ مبارک سے نظر بد اور بیماری کا علاج ،صحیح بخاری میں ہے: حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ قَالَ:أرسلني أهلي إلى أم سلمة بِقَدَحٍ مِنْ مَاءٍ – وَقَبَضَ إِسْرَائِيلُ ثَلَاثَ أَصَابِعَ – من فضة، فِيهِ شَعَرٌ مِنْ شَعَرِ النَّبِيِّ ﷺ، وَكَانَ إِذَا أَصَابَ الْإِنْسَانَ عَيْنٌ أَوْ شَيْءٌ بَعَثَ إِلَيْهَا مِخْضَبَهُ، فَاطَّلَعْتُ فِي الجلجل، فرأيت شعرات حمرًا.ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، وہ فرماتے ہیں ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے عثمان بن عبداللہ بن وہب نے بیان کیا کہ میرے گھر والوں نے ام سلمہ رضی اللہ عنھاکے پاس پانی کا ایک پیالہ لے کر بھیجا اسرائیل نے تین انگلیاں بند کرلیں یعنی وہ اتنی چھوٹی پیالی تھی اس پیالی میں بالوں کا ایک گچھا تھا جس میں نبی کریم ﷺ کے بالوں میں سے کچھ بال تھے۔ عثمان فرماتے ہیں جب کسی شخص کو نظر لگ جاتی یا اور کوئی بیماری ہوتی تو وہ اپنا پانی کا برتن جناب سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنھا کے پاس بھیج دیتا۔ (وہ اس میں نبی کریم ﷺ کے بال ڈبو دیتیں) فرماتے ہیں کہ میں نے نلکی کو دیکھا (جس میں موئے مبارک رکھے ہوئے تھے) تو سرخ سرخ بال مبارک دکھائی دیئے۔(“صحیح بخاری” ج 5، ص 2210، حدیث نمبر۔ 5557 طبع: دار ابن كثير، دار اليمامة)
اللہ پاک ہمیں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے موۓ مبارک کی برکتوں سے مالا مال فرمائے واللہ اعلم باالصواب
کتبہ: سلیم رضا مدنی تخصص فی الحدیث دعوتِ اسلامی ھند۔