مدارس اسلامیہ کی تاریخ اور ہندوستانی مسلمانوں پر اس کے اثرات
مدارس اسلامیہ کی تاریخ اور ہندوستانیمسلمانوں پر اس کے اثرات (آخری قسط) قسط اول پڑھنے کے لیے کلک کریں
امان اللہ شفیق تیمی مدھوبنی بہار
1857ء کے بعد جب مدارس اسلامیہ کی نشأۃ ثانیہ کا آغاز ہوا تو ملک کے مسلمانوں کی زندگی میں گویا ایک عظیم انقلاب رونماہوگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے طول وعرض میں ہزاروں مدارس ومکاتب کا جال بچھنے لگا اوریہ مبارک و میمون سلسلہ تاہنوز پورے آب وتاب کے ساتھ جاری ہے۔
ان مدارس اسلامیہ نے پوری ہمت و جواں مردی اور انتہائی اخلاص و جانثاری کے ساتھ اپنی خدمات جلیلہ کا آ غاز کیا اور ہندوستانی مسلمان کے اذہان و قلوب کو عقیدہ توحید اور فرمان مصطفی کے سرچشمہ مصفی سے سیراب کرنے لگے ،مسلمانوں کے ایمان ویقین کی حفاظت ،ملی تہذیب وثقافت اور دینی امتیازات کی محافظت میں پوری طرح سرگرم عمل رہ کرمذہب اسلام اور اس کے تشخص کو اصلی اور حقیقی صورت میں باقی رکھا۔
مدارس اسلامیہ سے ٹوٹی ہوئی چٹائیوں پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کر نے والے بوریہ نشینوں کی ایسی معزز اور باوقار کھیپ تیار ہوئی جنہوں نے ملک عزیز میں دشمنان اسلام کی نندیں حرام کر کے رکھ دیں،علم وعرفاں ،افکار وبصیرت اور شعور وآگہی کی فولادی قوت سے لیس، آہنی ارادوں اور چٹانی حوصلوں سے سرشار درویشوں کی اس مقدس جماعت نے سرزمین ہند سے الحاد وارتداد اور کفر و شرک کی تیز وتند آندھی کو نہ صرف ختم کیا بلکہ معترضین اسلام اور معاندین قوم وملت کو دندان شکن جواب دینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔
مولانا محمد حسین بٹالوی،مولانا عبد الحق غزنوی،مولانا بشیر احمد شہسوانی اور شیخ الاسلام ابو الوفا مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہھم اللہ جیسی عظیم علمی شخصیات ان ہی مدارس اسلامیہ اور مراکز کتاب وسنت کی تیارکردہ جماعت ہیں جنہون نے دین حنیف کی آبیاری اوراسلامی تعلیمات کی ترویج و اشاعت میں تاریخ ساز کارنامہ انجام دیکر پوری ملت اسلامیہ کے لیے بے نظیر مثالیں قائم کیں۔
ہندوستانی مسلمانوں پر مدارس اسلامیہ کے اثرات کو مختصرا دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔
پہلی قسم مسلمانوں میں پھیلی دینی بے راہروی ،اخلاقی ،سماجی اور تعلیمی انحطاط وپسماندگی کو دور کرنے میں مدارس اسلامیہ کے کردار سے تعلق رکھتی ہے جبکہ دوسری قسم مذہب اسلام پر معاندین اسلام کیطرف سے ہونے والے یلغار اور اعتراضات کے جواب میں مدراس اسلامیہ کے فارغین ،منسوبین اور متعلقین کی خدمات سے متعلق ہے ،مذکورہ بالا دونوں پہلؤں پر درجہ ذیل سطور میں نکات کی شکل میں روشنی ڈالنے کی کوشش کرتاہوں ۔
1۔ پہلی قسم :۔چوں کہ مدارس اسلامیہ قوم و ملت کیلئے شہہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے اسلئے ان مدارسوں نے اپنے قیام کے اول دن سے ہی طلباء کی ایسی جماعت تیار کرنا شروع کیا
جو اسلامی معاشرہ کی تعمیرو تر قی میں انتہائی اہم کردار اداکر سکیں اور معاشرہ میں پھیلی دینی بے راہروی،اخلاقی پستی ،اختلاف وانتشار ،بغض وعناد،دجل وفریب ،جعل سازی ،غیبت وچغل خوری ، حسدوجلن اور باہمی منافرت جیسی دیگر تمام برائیوں کی بھڑکتی آگ کو ٹھنڈی کر سکیں اور معاشرہ کو اعلی اخلاق و کردار،دینی حمیت ،امن وامان ،اتحاد واتفاق ،آپسی ہم آہنگی اور باہمی میل جول کی عظیم نعمت سے ہم کنار کرسکیں
اور شاید اسی عظیم مقصد کے پیش نظر مدارس اسلامیہ سے فراغت کرنے والے علماء کرام اور ائمہ عظام آج بھی مسلم سماج و معاشرہ میں مسند امامت و خطابت اور درس تدریس پر جلوہ افروز ہو کر قوم وملت کی اصلاح اور دین حنیف کی تعلیمات کی ترویج واشاعت میں انتہائی اہم اور قابل رشک خدمات انجام دے رہے ہیں۔
مسلمانوں کی آبادی کا بیشتر حصہ غربت وافلاس اور معاشی تنگی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے ،مدارس اسلامیہ ہی وہ دنیا کا واحد علمی قلعہ ہے جو ان غریب ونادار طلباء کو روشن مستقل فراہم کرنے کی غرض سے اپنے آغوش میں لے لیتاہے
اور انہیں اپنی سائہ عاطفت میں رکھ کر منظم طریقہ سے تعلیم وتربیت کی فولادی قوت سے آراستہ کرکے ملک وقوم کی تعمیروترقی کیلئے وقف کردیتاہے اور اس طرح سے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی اور ناخواندگی و جہالت کی شرح کو کم کرنے میں انتہائی اہم اور لائق تحسین خدمات انجام دے رہاہے
دوسری قسم :- مذہب اسلام کو ملک عزیز میں طرح طرح کے فتنوں سے بھی نبرد آزماہوناپڑا اور مدارس اسلامیہ کے فارغین علماء کرام نے نہ صرف ان فتنوں کی سرکوبی کیلئے کتابیں تصنیف کیں بلکہ مکلمل طور پر ان فتنوں کے خلاف سرگرم عمل رہے ،ذیل کے سطور میں چند مشہور اور بڑے فتنوں کیطرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتاہوں۔
1۔فتنہ قادیان۔اس فتنہ کا آغاز ہندوستان کے ایک قصبہ “قادیان ” سے ہوا اور اس فتنہ کا بانی انگریز کا ایک خود ساختہ ایجنٹ مزرا غلام احمد قادیانی تھا، انہوں نے1891ءمیں نبوت کا جھوٹا دعوی کردیا،یہ فتنہ سادہ لوح مسلمانوں کیلئے کوئی معمولی فتنہ نہیں تھا
اور اس میں بھی اس شو رش کو انگریزوں کی مکمل حمایت اور پشت پناہی حاصل تھی لیکن مدارس اسلامیہ کے تعلیم یافتہ علماء کرام کب خاموش بیٹھنے والے تھے انہوں اس فتنہ کو فورا بے نقاب کیا اور اسکی بیخ کنی کیلئے ہمہ تن مصروف ہوگئے ۔
نوائے وقت لاہور کے کالم نگار جناب میاں محمد توقیر حفیظ نے لکھا ہے ” جب 1891میں مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا جھوٹا دعوی کیا تو سب سے پہلے مولانا محمد حسین بٹالوی نے اسکے کفر کو بے نقاب کیا اور سید نذیر حسین محدث دہلوی سمیت دوسو علماء کے دستخطوں سے متفقہ طور پر مرزا غلام قادیانی کےدائرہ اسلام سے خارج ہونے کا فتوی جاری کیا ۔
مرزا قادیانی سے سب سے پہلا مباہلہ جون 1893ء میں عیدگاہ اہل حدیث امرتسر میں مولانا عبد الحق غزنوی نے کیا ۔حیات مسیح پر پہلا تحریری مناظرہ مولانا بشیر احمد شہسوانی نے دہلی میں 1894ءکیا جہاں مرزا ملعون فرار اختیار کر گیا اسکے بعد سب سے پہلا کتابچہ مولانا اسماعیل علی گڑھی نے تحریر کیا سب سےپہلے کتاب کم عمری میں علامہ قاضی سلیمان منصورپوری نے لکھی جوکہ بعد میں شہرہ آفاق مصنف کے طور پر مشہور ہوئے
سب سےپہلے قادیان پہنچ کر مرزا غلام احمد قادیانی اور مرزائیت کی دھجیاں اڑانے والی عظیم شخصیت شیخ الاسلام مولاناثناء اللہ امرتسری کی تھی جن کو تمام مکاتب فکر فاتح قادیان کے لقب سے یاد کرتے ہیں یہی وہ مولانا ثناء اللہ امرتسری ہیں جن کے ساتھ مباہلہ کی دعا میں قادیانی ہلاک ہوکر واصل جہنم ہوا”(ردقادیانیت میں علماء کا کردار ،نوائے وقت لاہور 7ستمبر 2022
)
2۔فتنہ شدھی تحریک ۔اس فتنہ کا آغاز 1920ء میں آریہ سماج کے عظیم رہنما متعصب انتہا پسند سوامی دیانند سرسوتی اور اسکے شاگرد شردھانند کی طرف سے کیا گیا ،اس تحریک کا مقصد ہندوؤں میں خوداعتمادی پیداکرنا،انہیں مذہب اسلام اور مسیحیت کو قبول کرنے سے منع کرنا،مسلمانوں کے خلاف زہریلی فضا قائم کرنا اور مسلمانوں کو جبرا ہندو بنانا وغیرہ تھا
اور اسکی دلیل یہ تھی کہ پہلے یہاں کے تمام مسلمان اور عیسائی ہندو تھے اور مسلم حکم رانوں کے زیر اثر یہ لوگ مسلمان ہوگئے اور اسی وجہ سے شدھی عمل (process of purification) کے ذریعہ انہیں دوبارہ ہندو بننا ضروری ہے ۔اس تحریک کے زمانہ میں اس آدمی کو انگریزی حکومت کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی اور چونکہ مسلمان انگریزوں کے خلاف آزادی ہند کیلئے جہاد میں سرگرم عمل تھے
انہوں نے مسلمانوں کو تکلیف پہونچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی،انہوں نے اسلام ،قرآن اور محمد ؐ کی ذات اقدس پر نہ صرف اعتراضات کئے بلکہ “ستیارتھ پرکاش ” نامی کتاب بھی تصنیف کرڈالی لیکن مدارس اسلامیہ سے تعلیم پانے والے علماء کرام نے نہ صرف اس فتنہ کا پوری ہمت و جواں مردی کے ساتھ مقابلہ کیا
بلکہ شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری ؒ نے تو اسکی کتاب “ستیارتھ پرکا ش ” کا انتہائی علمی اور مدلل انداز میں جائزہ لیا اور اس کی تردید میں “حق پرکاش بجواب ستیارتھ پرکاش ” نامی کتاب لکھ ڈالی اور انہوں نے اس کتاب کے ذریعہ مصنف دیانند سرسوتی کی جہالت کو پوری دنیا کے سامنے اجاگر کیا اور اس طرح سے یہ تحریک مسلمانوں کے ساتھ ساتھ پوری دنیاوالوں کے سامنے بے نقاب ہوگیا اور اسکے اثرات زائل ہوتے رہے۔
اس کے علاوہ دور جدید میں بھی مذہب اسلام کے سامنے مختلف قسم کے فتنوں کا بازار گرم ہے اور آج بھی ان فتنوں کی سرکوبی کے لیے مدارس اسلامیہ کے فارغین علماے کرام ہی پیش پیش ہیں اور ان فتنوں کی بیخ کنی دیگر علوم کے ماہرین کے بس کی بات بھی نہیں ہے۔آج بھی مسلمانوں کے ایمان و عقائد پر مادیت، اشراقیت ،الحاد اور ارتداد کا حملہ زوروں پر ہے
اسی طرح فتنہ شکلیلیہ،فتنہ انکار حدیث ،فتنہ اہل القرآن اور انجنیئر محمد علی مرزا کا فتنہ بھی سادہ لوح مسلم نوجوانوں کو اپنا نشانہ بنا رہا ہے اور ان تمام فتنوں کو قلع قمع کرنے میں علماء کرام اور ائمہ عظام ہی انتہائی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
مدارس اسلامیہ کی تاریخ اور ہندوستانی مسلمانوں پر اس کے اثرات انتہائی وسیع موضوع ہے لیکن راقم الحروف نے یہاں صرف اور صرف اس موضوع کا اجمالی جائزہ اس امید سے لیا ہے تاکہ قوم وملت کے مال داروں،بااثر شخصیات اور تعلیم یافتہ طبقہ کی توجہ مدارس اسلامیہ کی بگڑتی صورت حال کیطرف مبذول کرایا جاسکے اور مخیرین حضرات کو سخاوت و فیاضی کا مظاہرہ کرنے کے لیے برانگیختہ کیا جا سکے اور اس طرح مدارس اسلامیہ کی عظمت رفتہ کی بحالی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے ۔
Pingback: پروفیسر وسیم رضا کی شخصیت اردو زبان وادب کے طلبا کے لیے مشعل راہ ⋆