حافظ ملت کا عزم و ایقان ہمارے لیے درس عرفان
حافظ ملت کا عزم و ایقان ہمارے لیے درس عرفان
مزمل حسین علیمی آسامی
”جس نے پیدا کیے کتنے لعل و گوہر
حافظ دین و ملت پہ لاکھوں سلام“
اس فانی دنیا میں بعض افراد قوم و ملّت کے لیے قدرت کا انمول تحفہ ہوتے ہیں۔ یہ خوش قسمت افراد ہوتے ہیں، جن کی نظر و فکر بہت بلند ہوتی ہے۔ ایسے افراد زمانے کے لیے کسی آکسیجن سے کم نہیں ان کے کارناموں سے زمانہ ہمیشہ مستفید ہوتا ہے۔ اس دنیا میں بعض انسان قلوبِ انسان میں سدا زندہ رہتے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں قوم و ملّت اور اپنے ملک کے لیے بہترین خدمات سرانجام دے کر دارفانی سے داربقا کے مسافر بنے ہیں۔ انہی میں ایک فرد فرید نازِ اہلِ سنن حافظ ملت علیہ الرحمہ کی ذاتِ گرامی ہے۔
انسان جب شعور آشنا ہوجاتا ہے تو یہ خیال اسے ہمیشہ دامن گیر رہتا ہے، کہ مجھے ایک روز ضرور مرنا ہے، مجھے اس دنیا سے رخصت ہونا ہے۔ باشعور انسان سوچتا ہے کہ یہ زندگی خالق کی امانت ہے کیوں نہ زندگی کو اسی کی رضا و خوشنودی کے لیے صرف کیا جائے۔ پھر وہ کچھ ایسا کر گزرتا ہے، جس سے وہ دوسروں سے ممتاز ہوجاتا ہے۔ کامیابی کے لیے محنت و لگن کے ساتھ ذوق و شوق نہایت ضروری ہے۔ جو شخص کام دل چسپی سے کرتا ہے تو وہ کام اسے مشکل نہیں لگتا۔ حافظ ملت کی زندگی کو اگر آپ مطالعہ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ ان کی زندگی رضاۓ الہی کے لیے وقف تھی۔ وہ عزم وہمت عظیم کی چٹان تھے۔ دشواریوں سے مقابلہ کرنا اور آسانیوں کی راہ بنانا ان کا خاصہ تھا۔
انسان کی شناخت اس کے کام سے ہوتی ہے۔ انسان کو دوسروں سے ممتاز اس کا کام کرتا ہے۔ کام انسان کو خوشی دیتا ہے اور کام ہی کامیابی کا باعث بنتا ہے۔ جب انسان کسی کام کی شروعات کرتا ہے، تب سب سے پہلے وہ سوچتا ہے، پھر کوشش کرتا ہے اور قدرت اس کی کوشش کو دیکھ رہا ہوتا ہے، تو قدرت ”کن“ کہتا ہے اور ہوجاتا ہے۔ حافظ ملت کی فکر و نظر آفاقی تھی اور ان کی تمام تر کوششیں رضائے الٰہی کے لیے تھی۔ جامعہ اشرفیہ حافظ ملت کی انتھک کوششوں کا ثمرہ ہے، جسے انہوں نے اپنے خون و جگر سے سینچا ہیں، جس کا آج علمی دنیا میں ممتاز و نمایاں مقام ہے۔ عالمِ اسلام خصوصاً برصغیر میں ”جامعہ اشرفیہ“ اہل سنت و جماعت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔ جہاں سے ہر سال مصباحی علمائے کرام کی فوج تیار ہوتی ہیں اور یہ فوج قوم و ملّت کی فلاح و بہبود کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتی نظر آتی ہیں۔
*لمحہ فکریہ*
ہم سب کی زندگی عادات واطوار کے تانے بانے سے مل کر تیار ہوتی ہیں، جن کو سنوارنا خوش گوار زندگی کے لیے ضروری ہے۔ بعض طلبہ پڑھنے میں بہت اچھے ہوتے ہیں لیکن ان کی عادتیں ٹھیک نہیں ہوتی۔ بعض اساتذہ بہترین عادات کے مالک ہوتے ہیں لیکن طلبہ کے ساتھ ان کا برتاؤ اچھا نہیں ہوتا ہے۔ خود سے سوال کیجیے کہ ہم اللہ کی طرف سے آئے ہیں اور اسی کی جانب لوٹنا بھی ہے۔ کیا ہماری عادتیں رضائے الٰہی کے مطابق ہیں؟ ہم سب کی زندگی ویسی نہیں ہونی چاہیے جیسے ہم چاہتے ہیں، بلکہ زندگی ویسی ہو جیسا رب چاہتا ہے۔ زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے بہترین عادتوں اور عاجزی و انکساری کو اپنانا ضروری ہے۔ اور یہ ساری اچھی خصلتیں بزرگانِ دین کی زندگی کے مطالعے سے حاصل ہوتی ہیں۔ پھر جاکر انسان بہترین عادتوں کا مالک بن پاتا ہے۔
انسان کی خواہشیں لامحدود ہیں اور سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ سدا باحیات رہے۔ اگر آپ سدا زندہ رہنا چاہتے ہیں! تو آپ حافظ ملت کو پڑھیں اور اپنی زندگی کو رضاے الہی کے لیے وقف کر دے۔ یقین مانیں آپ قلوب انسان میں سدا زندہ و تابندہ رہیں گے۔
یاد رہے! سال، مہینے، ہفتے اور دن گزار جائیں گے اور ہماری زندگی بھی گزار جائے گی۔ انسان اپنے کام سے پہچانا جاتا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں کامیاب انسان اپنے کام سے ہی پہچانا گیا ہے۔ رب تعالیٰ ہمیں استقامت،ہمت اور جذبہ عطا فرماے۔ بزرگان دین و حافظ ملت کے نقش قدم پر چلنے کی توفیقِ رفیق بخشے آمین