اسلام اور ذاتی رجحانات
اسلام اور ذاتی رجحانات
لغوی اعتبار سے ہر ذہنی ترجیح کو ذاتی رجحان کہہ سکتے ہیں لیکن ذاتی رجحان سے مراد وہ رجحان ہے جو شریعت کے رجحان کے مخالف ہو ۔ مثال کے طور پر ایک شخص یوں کہے کہ “دس محرم الحرام والے دن نکاح کے جائز ہونے کو میرا دل اور طبیعت نہیں مانتے” ۔
ایسا ذاتی رجحان اسلام میں ممنوع ہے ۔ اب سوال ہوتا ہے کہ آخر کون سا رجحان معتبر ہے کیونکہ رجحان کے بننے میں بھی ذہن کا کردار ہے ۔ ؟
اس کا جواب تعریف کے مفہوم مخالف سے واضح ہے اگرچہ مفہوم منطوق کے اعتبار سے مخفی ہے ۔ اور تعریف کا مفہوم مخالف یہ ہے جو رجحان اسلام کا اپنا رجحان ہے اسی کا اعتبار ہے ۔ اس رجحان میں ذہن کا کردار فقط یہ تلاش کرنا ہے کہ اسلامی رجحان اس مسئلے میں کیا ہے ؟ مستقل حیثیت سے ذہنی رجحان نہیں پایا جا رہا ۔
فتنوں کے اس دور میں بچپن میں جیسا ذہن بنا دیا گیا اسی ذہن کو بنیاد مانتے ہوئے لوگ قرآن و حدیث پڑھنے اور سمجھنے لگ گئے ہیں ۔ اور شاید اسی کا نام تفسیر بالرائے ہے ۔
اللہ نے عقل دین اسلام کو سمجھنے کیلئے دی ہے نہ کہ ابتداء اسی عقل کی بنیاد پر دین کو تولنے کی اجازت دی ہے ۔ اللہ پاک اسلاف کا دامن تھام کر رکھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
کچھ وقت پہلے ایک کتاب مطالعہ میں آئی تھی جس میں صاحب کتاب کے اپنے موقف کے پس منظر میں ذاتی رجحانات صاف دکھائی دیئے تھے ۔
مصنف کے والد محترم بیمار ہوئے ۔شاید گردوں کا مسئلہ بنا یا کوئی اور ۔انھوں نے علماء سے مسئلہ دریافت کیا ۔ علماء نے منع فرمایا ۔ علاج نہ ہونے کے سبب مصنف کے والد محترم کی وفات ہوگئی ۔ وفات کا رنج بیٹے کو بہت زیادہ ہوا ۔ ایک کتاب لکھی جس میں دکھ کے اثرات نمایاں تھے یہاں تک کہ انسانی اعضاء کی ڈونیشن کو اسی صدمہ میں جائز کر دیا ۔
اپنی تحقیق سے جائز قرار دینے پہ اعتراض نہیں ۔ اعتراض اس بات پہ ہے کہ اس مسئلہ کا اصلی محرک قرآن یا حدیث یا فقہ و علوم اسلامیہ کیوں نہیں بنے ؟ اپنا ذاتی دکھ کیوں بنا ؟
اب یہ بعض علما کے نزدیک جائز ہے اور بعض کے نزدیک ناجائز ۔ لیکن مصنف نے بہت ہی غیر ذمہ دارانہ اور جذباتی انداز میں غیر مجوزین کو کھری کھری سنادیں اور ان کو قیامت کے دن اپنے فتویٰ سے پچھتانے کی پیشنگوئی کر دی ۔
اگر مصنف نے اپنے موقف کو ثابت کرنا ہی تھا تو دلائل سے کرتے لیکن انھوں نے جذبات سے کام لیا (اگرچہ کتاب میں دلائل بھی ذکر کئے) ان کی کتاب میں ان کے ذاتی رجحان کی واضح جھلک موجود ہے ۔ ایسا رویہ دین کے لیے نقصان دہ ہے ۔ کیا اس مصنف کے والد ہی اس تکلیف سے گزرے ؟ ۔
کیا باقی غیر مجوزین کے فتووں پر عمل کرنے والے سکھ میں ہیں ؟
دین میں فقط اللہ و رسول عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے دیئے گئے رجحانات ہی حق ہیں ۔ میرے اور آپ کے جذبات کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ۔ میری اس تحریر کا مقصد بنیادی اعتبار سے اپنی ذاتی ترجیح کو ہی دلیل بنانا ہے ۔
اگر اصلی محرک قرآن و سنت و اسلاف کے اقوال ہوں اور ضمنا زمانہ کے اعتبار بات کر لی جائے تو کوئی حرج نہیں ۔
ذاتی طور پر میں خود یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ مصنف کے دل میں حقیقی محرک کیا تھا فقط اس طرز عمل کا نقصان ظاہر کرنے اور دل میں ذاتی رجحان ہونے کی صورت میں اس کی قباحت ظاہر کرنے کی نیت سے یہ تحریر لکھنے کا ارادہ تھا ۔ اللہ پاک سمجھ عطا فرمائے۔
یاسر رمضان مدنی
خود کشی اسلام کی نظر میں مع اسباب و تدارک