علم تجوید نہایت ضروری ہے
علم تجوید نہایت ضروری ہے
قرآن مجید ہدیٰ للناس اور ہدیٰ للمتقین کی امتیازی شان و شوکت کے ساتھ نازل ہونے والی تمام آسمانی کتب و صحائف میں سے افضل ترین کتاب ہے جو تئس۲٣ برس میں حسب ضرورت نبی معظم شفیع محتشم (صلی للہ علیہ و سلم) پر نازل ہوئی۔
قرآن کریم وہ عظیم المرتبت کتاب ہے کہ جس کے محض الفاظ کی تلاوت بلا فہم بھی باعث اجر و ثواب،رضا الٰہی، قرب خدا وندی، اور عین عبادت ہے اس کی ہیئت و جلال عظمت و بزرگی کا اندازہ اس آیت مبارکہ سے لگا سکتے ہیں کہ :
خود باری تعالٰی نے ارشاد فرمایا “لَوْأَنْزَلْنَاھٰذَا القُرْآنَ عَلىٰ جَبَلِِ لَّرَأئْتَه خَاشِعًامُتَصَدِّعًامَنْ خَشْيَةِاللّٰهِ” (اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتارتے تو ضرور تو اسے دیکھتا جھکا ہوا پاش پاش ہوتا اللہ کے خوف سے)۔
تمام کتابوں میں سب سے زیادہ چھپنے اور شائع ہونے والی،پڑھی اور سنی جانے والی کتاب کوئی اور نہیں بلکہ قرآن مقدس ہی ہے قرآن مقدس تمام علوم و فنون کا جامع ہے بس افہام و تفہیم کے لیے عقل سلیم اور عقائد صحیحہ کی ضرورت ہے۔
اللہ نے اس کلام بلیغ کو عربی زبان میں نازل فرمایا چناں چہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ”إنَّا أَنْزَلْنَاه قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا“(بیشک ہم نے اس کتاب کو قرآن کی شکل میں بزبان عربی اتارا)۔
جب قرآن مجید عربی زبان میں نازل کیا گیا تو ضروری ہے کہ اسے عربی لب و لہجے میں ہی پڑھا جائے جیسا کہ حضرت حذیفہ بن یمانن رضی اللہ عنہ نبی معظم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ” إقرءوا القران بلحون العرب و اصواتھا“(قرآن کو عرب کے لہجوں اور آوازوں سے پڑھو)۔
اور حق بھی یہی ہے ورنہ جانب مخالف سے فساد معنی اور خلاف مقصود لازم آتا ہے مثلاً ”قُلْ ھُوْ اللّٰه اَحَد“ اس آیت مبارکہ کا ترجمہ ہے فرماؤ وہ اللہ ایک ہے اب اگر لفظ ”قل“ کے قاف کو باریک ادا کر کے ”کل“ پڑھیں تو (معاذاللہ) اس کا ترجمہ ہوگا کھاؤ اللہ ایک ہے ۔
اور یہی حال لفظ ”قلب اور کلب“کا ہے اول کا معنی دل اور دوسرے کا معنی کتّا ہے معلوم ہوا کہ قرآن مقدس کے معانی و مفاہیم کو سمجھنے اور حصول مقاصد کے لیے اس کو اسی طرح پڑھنا ضروری ہے جس طرح وہ نازل ہوا اور رضاء الٰہی بھی یہی ہے
چناں چہ فرمایا جاتا ہے ”إنَّ اللّٰهَ يُحِبَُ أَنْ يقرَأَ القُرآنَ كما أُنزِلَ“(بے شک اللہ تعالی اس بات کو پسند فرماتا ہے کہ قرآن مجید کو اسی طرح پڑھا جائے جس طرح وہ نازل کیا گیا) ۔
اور یہ بات ظاہر و باہر ہے کہ یہ علم تجوید سے ہی ممکن ہے لہذا علم تجوید کا حاصل کرنا ہر تالئ قرآن کے لیے نہایت ضروری ہے
لیکن آج ہمارا خصوصاً سنی مدارس کا حال یہ ہے کہ اس فن کے لیے کوئی خاص اہتمام و انصرام ہی نہیں ہے چند مدارس ہیں جہاں باقاعدہ و باظابطہ طور پر اس فن کی آبیاری ہوتی ہے لیکن صد حیف کہ جہاں سیکڑوں کی تعداد میں شعبہ درس نظامی و حفظ کے پڑھنے والے موجود ہوتے ہیں۔
وہاں شعبہ قرأت کی ایک بہت ہی مختصر جماعت ہوتی ہے ہم اپنے اجلاس و محافل میں لاکھوں روپے خرچ کرکے دور و دراز سے کئی خطبا، نقبا،اورشعرا کو مدعو کرتے ہیں لیکن ایک اچھے قاری کو نہیں بلاتے اکثر ہماری محافل کی ابتدا ایسے قاری کی قرأت سے ہوتی ہے جو بے چارے قاری کے قاف سے بھی ناآشنا ہوتے ہیں۔
قرآن سننے والے آج بھی موجود ہیں شرط ہے کہ سلیقے سے پڑھا جائے واقعی جب کوئی قاری صاحب قرأت اور تحسین سے متعلق جمیع حقوق کی ادائگی کے ساتھ قرآن مقدس کی تلاوت کرتا ہے تو سننے والے کے جسم کا ہرہر عضو اس کے ایک ایک کلمے اور ایک ایک حرف سے محظوظ ہو کر وحدانیت خدا کی گواہی دینے لگتا ہے
قرآن مقدس کی تلاوت دل کی تاریک وادیوں کو (نور کی موجوں میں نکھار کر) روشن اور منو کر دیتی ہے اس کے بے شمار فیوض و برکات ہیں جو کسی پر مخفی نہیں ہیں
قارئین سے مؤدبانہ التماس ہے کہ بے شمار نعمتوں اور برکتوں کو اپنے دامن میں سمیٹنے والے اس فن سے بے رُخی نہ کریں بلکہ اعلی سطح پر اس فن کی آبیاری کی کوشش کریں اللہ تعالی ہمیں اس فن سے بےلوث محبت اور وارفتگی کی توفیق عطا فرمائے اور اس کے دائمی فیوض برکات سے مالامال فرمائے۔
رفیع احمد
جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف