واہ واہی کی بھوک

Spread the love
واہ  واہی کی بھوک 

واہ واہی کی بھوک

بے شک کان اور آنکھ اوردل ان سب سے سوال ہونا ہے۔(پارہ ۱۵ سورہ بنی اسرائیل آیت ۳۶ )اس آیت کے تحت علامہ محمد بن احمد انصاری قرطبی تفسیرقرطبی میں لکھتے ہیں کہ ان میں سے ہرایک سے اس کے استعمال کے بارے میں سوال ہوگا ،دل سے پوچھاجائے گا کہ اس کے ذریعے کیا سوچا گیا اور پھر کیا اعتقاد رکھا گیا جبکہ آنکھ اور کان سے پوچھا جائے گا تمہارے ذریعے کیا دیکھا اور کیا سنا گیا۔تفسیر روح المعانی میںاسی آیت کے تحت علامہ محمود آلوسی بغدادی لکھتے ہیں کہ یہ آیت اس بات پر دلیل ہے کہ آدمی کے دل کے افعال پر بھی اس کی پکڑہوگی۔تفسیر خزائن العرفان میں اسی آیت کے تحت ہے کہ تم نے اس سے کیاکام لیا تکبر وخودنمائی یعنی تکبرو خودنمائی سے کچھ فائدہ نہیں۔
معاشرے میں انسان سَستی شہرت کے لئے لیل و نہار کوشاں ہیں حضرت انسان نام و نمود کے حصول کی خاطر اپنی ہی بے عزتی کروارہے ہیں سَستی شہرت پسندی دنیاوی تعلیم یا فتہ انسان میں بھی نظر آرہی ہے اورغیرتعلیم یافتہ میں بھی یہ کسی نہ کسی صور ت میں تعریف کے بھوکے نظرآرہے ہیں غرض دینی ہو یا دنیاوی ہر محافل میں شہرت واہ واہی اپنی تعریف کروانا مقصد زندگی ہوتا نظر آرہاہے یہ اہل سیاست میں عام ہے اِن کی فطرت واہ واہی کی عادی ہوچکی ہے نہ انہیں تقویٰ معلوم نہ پرہیزگاری معلوم نہ اللہ ورسول کی رضا والے کا م معلوم ۔دوسری طرف اس ناچیزکو دینی محافل میں باربار حاضری کی سعادتیں حاصل ہورہی ہیں لیکن بڑی تکلیف ہوتی ہے اُس بنام عالم پر یا خطیب پر یا پیر صاحب پر جودنیاپسندہیں یہ حضرات جب اپنی تعریف کے لئے چنندہ شخص کو جلسہ گاہ میں کھڑا کرتے ہیں کہ بولو میری سادگی بولو بولو میری عاجزی بولو جلوت و خلوت بولو تقوی وطہارت پر روشنی دالو میری دینی خدمات بولو اہل محفل کے روبرویہ چاپلوس صاحب کھڑے ہوتے ہی تعریف پہ تعریف القابات پہ القابات کما لات پہ کمالات پیش کررہے ہیں واہ واہ واہ واہ کی صدائیں بھی گونج رہی ہیں نہ وہ سب القابات کے لائق ہوتے ہیں دنیاوی تعریف کے دلدادہ حضرات جھوم رہے ہوتے ہیں اور دل ہی دل میں پھولے نہیں سماتے واہ کیا جملہ کہا واہ کیا تعریف کے پل باندے اُس لفاظ کو بڑی دادو تحسین مل رہی ہے نہ وہ صاحب روک تے ہیں نہ کوئی اور روکتا ہے یہ اللہ ورسول کے نام کی محفل سجی ہے اللہ و رسول کی تعریف کر حقیقی تعریف کے لائق اللہ و رسول ہیں اللہ پاک سورہ فاتحہ کی پہلی آیت میں فرماتا ہے ۔تمام تعریفیں اللہ کے لئے جو مالک سارے جہان والوں کا ۔ہمارا المیہ یہ ہوچکاہے کہ واہ واہی اور جھوٹی تعریف سے ہمارادل مطمئن ہوتا ہے اور نفس واہ واہی کا عادی بن چکا ہے اگرحق گو کوئی حقیقت شناس آگے والے صاحب کی حقیقت سے پردہ اٹھادے تو حق بات کو تسلیم کرنے کے بجائے الٹاناراض ہوجاتے ہیں کہ اس نے میری توہین کردی ہر کوئی عالم یا خطیب یا پیر صاحب ایسے نہیں ہوتے وہ تو جو بھی کرتے ہیں واہ واہی کے لئے نہیں کرتے بلکہ اللہ و رسول کو راضی کرنے کے لئے کرتے ہیں ان کے سامنے کوئی تعریف کردے تو فوراََ منع کر دیتے ہیں ان کا نفس پاک و صاف رہتاہے لالچ سے دھوکہ دہی سے و دنیاوی محبت سے صاف و شفاف رہتاہے مخلص عالم خطیب پیرصاحب کی نظر اللہ کی رحمت پر ٹکی رہتی ہے میرے کام سے اللہ راضی ہوجائے اللہ راضی ہوئے دنیا والے تعریف کریں یا نہ کریں اللہ و رسول کی رضاحاصل ہوجائے یہی مقصد زندگی ہے کامیابی و کامرانی ہے مفتی سلمان ازہری کے والد حضرت محمدبن حسن مصباحی رحمہ اللہ تھے اُنہوں نے خاموشی سے دینِ متین کی خدمت کی دارالعلوم کی بنیاد بھی رکھی بہت کام کئے آخری عمر میں مفتی سلمان ازہری نے والد محترم سے پوچھایہ لوگ آپ کی خدمات کو فراموش کرگئے آپ کو یہ جانتے نہیںتو والد صاحب نے مسکراکر جواب دیاکہ سب کچھ یہاں مل جائے تو آخرت کا کیا ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی خدمات آخرت کے لئے محفوظ رکھے ہیں اللہ کریم ہمیں بھی ان کے صدقے آخرت کا کثیرحصہ عطافرمائے آمین
فلا تزکوا انفسکم
اللہ پاک نے پارہ ۲۷ سورہ النجم آیت ۳۲ میں فرمایا ۔توآپ اپنی جانوں کو ستھرا نہ بتائو وہ خوب جانتا ہے جو پرہیز گار ہیں۔ترجمہ کنزالایمان ۔شان ِ نزول یہ آیت ان لوگوں کے حق میں نازل ہوئی جو نیکیاں کرتے تھے اور اپنے عملوں کی تعریف کرتے تھے اور کہتے تھے ہماری نمازیں ہمارے روزے ہمارے حج ۔تفسیر۔تفاخر اپنی نیکیوں کی تعریف نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حالات کا خود جاننے والا ہے وہ ان کی ابتدا ء ہستی سے آخر ایام کے جملہ احوال جانتاہے مسئلہ اس آیت میں ریا و خود نمائی اور خود سرائی کی ممانعت فرمائی گئی لیکن اگر نعمت الٰہی کے اعتراف اور طاعت و عبادت پر مسرت اور اس کے ادائے شکر کے لئے نیکیوں کا ذکر کیاجائے تو جائزہے(تفسیر خزائن العرفان)
تفسیر رو ح البیان۔تو اپنے نفوس کی صفائی بیان نہ کرو۔تم اپنی صفائی و ستھرائی و نفوس کا گناہوں کا پاکیزہ ہونے کا دم نہ مارو یا اس کا دم نہ مارو جو عمل میں ستھرائی اور خیر وبھلائی میں زیادتی نصیب ہوئی بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کی مغفرت پر شکر کرو یعنی اپنی بے گناہی اور اپنی زیادہ خیرو بھلائی اور اپنے بہت زیادہ اور اوصاف بیان نہ کرو حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو ہر نفس کا علم ہے کہ وہ کیا کرتا ہے اور وہ کیا کرے گا اللہ تعالیٰ خود تمہارے احوال و اعمال کو خوب جانتا ہے تو پھر تزکیہ(نفس کی صفائی کے اظہار کا کیامعنیٰ؟)فارسی شعرکا ترجمہ ۔اگر تو کامل جوہر ہے تو خاموش رہ صدف کی طرف سر بغل میں دبا(۲) اگر تیرے پاس خاص مشک نہیں تو کسی کو نہ کہ اگر ہے تو وہ خود خوشبو سے ظاہر ہوگی۔حدیث شریف ۔اگر کوئی اور اس کی مدح اور صفائی کرے تو اس کے لئے حدیث شریف میں وارد ہے حضور رحمت دوعالم مصطفی جان رحمت ﷺ نے فرمایا کہ مدح کرنے والوں ( یعنی ایسی مدح کرناجو ممدوح میں نہیں ) کے منہ پر مٹی پھینکو(فائدہ )مٹی پھینکنے کا حقیقی معنیٰ ہے یا مجاز ہے کہ انہیں ایسی مدح سے رو ک دو تا کہ ممدوح مغرور نہ ہوجائے تو پھر تکبر میں مبتلا ہوجائے (تفسیر رو ح البیان پارہ ۲۷ ،۲۸ص ۲۲۰)فلاتزکواانفسکم ھو اعلم بمن اتقی ،اس لئے اگر تمہیں کسی اچھے کام کی توفیق مل جائے تونہ اس پر فخر کرو اور نہ اپنے آپ کو پاک قرار دو ہمیشہ اپنی ابتداپرنظر رکھو اور اپنی انتہاپربھی کیونکہ تمہارا انجام اللہ تعالیٰ ہی جانتاہے کہ حقیقی متقی کون ہے جس کا خاتمہ تقویٰ پرہوگا توجب تمہیں اپنا انجام ہی معلوم نہیں تو اپنے پاک ہونے کا دعویٰ کیسے کرسکتے ہو؟
مدح کی اقسام
حضرت ابو اللیث رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ مدح کی تین قسمیں ہیں
(۱) منہ پر مدح کرنا اس سے تو روکا گیا ہے (۲) غائبانہ ۔مدح کرنا اور جس کی تعریف کی جائے اور خیال کرے کہ اسے معلوم ہوجائے اس سے بھی روکا گیاہے (۳)مدح کرنا لیکن یہ پرواہ نہ ہو کہ اسے معلوم ہو یا نہ ہو تو یہ جائز ہے مثنوی شریف میں ہے ۔
خلق مادر صورت خود کرد حق ۔ وصف مااز وصف اوگردسبق
مسئلہ ۔موت کے بعد (جائز) مدح میں کوئی حرج نہیں جب حد سے متجاوز نہ ہو جیسے اہل بیت کرام رضی اللہ عنھم کی مدح میں روافض تجاوز کرتے ہیں (تفسیر رو ح البیان پارہ ۲۷ ،۲۸ص ۲۲۰)
اپنی ستھرائی بیان کرنا
اپنی ستھرائی بیان کرنا اپنے آپ کو متقی پرہیز گار گرداننا اپنی واہ واہی کرنایاکروانا یا اپنی ہی تعریف کرنااور اپنے آپ کو بے گناہ اور مقبول ِ بارگاہ بناکرپیش کرنا یہ از روئے قرآن غلط ہے اس لئے کہ اللہ پاک نے پارہ ۶ سورہ النساء آیت نمبر ۴۹میں فرمایا ترجمہ کنزالایمان۔کیا تم نے انہیں نہ دیکھا جو خود اپنی ستھرائی بیان کرتے ہیںبلکہ اللہ پاک جسے چاہے ستھرا کرے ۔یہ آیت یہود و نصاریٰ کے حق میں نازل ہوئی جو اپنے آپ کو اللہ کا بیٹا اور اس کا پیارا بتاتے تھے اور کہتے تھے کہ یہود و نصاریٰ کے سوا کوئی جنت میںداخل نہ ہوگا اس آیت میں بتایاگیا کہ انسان کا دین داری اور صلاح و تقویٰ اور قرب و مقبولیت کا مدعی ہونا اور اپنے منھ سے اپنی تعریف کرنا کام نہیں آتا (تفسیر خزائن العرفان)اگرچہ اس میں یہ امور پائے جائیں تب بھی اظہار نامناسب ہے مسئلہ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان خود بینی سے بچے ۔یُزکی من یشاء ۔اپنے پسندیدہ بندوں کی صفائی کا اظہار فرماتا ہے جو کہ اس تزکیہ کی اہلیت رکھتے ہیںکیونکہ اللہ تعالیٰ ہر آدمی کا ظاہر وباطنی حال اور اس کی نیکی اور بُرائی جانتا ہے (تفسیر رو ح البیان پارہ ۵ سورہ النساء آیت نمبر ۴۹ص ۹۹)ابو منصور رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ خود ستائی تو یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو متقی وصالح سمجھ کر اپنی مدح وثناء کے طور لوگوں کو سنائے
سبق۔ سالک مومن پر واجب ہے کہ وہ خود ستائی سے کنارہ کشی کرے
حدیث شریف ۔حضور ﷺ باوجود اونچے مراتب کے مالک ہونے کے فرماتے ہیں ،میں اولاد آدم کا سردار ہوں لیکن میں یہ فخر یہ طور نہیں کہتا ،جیساکہ عموماََ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ خواہ مخواہ اپنی
تعریف وتوصیف میں لگے رہتے ہیں (بلکہ میںتو بطور تحدث نعمت کے کہتا ہوں) (تفسیر رو ح البیان پارہ ۵ سورہ النساء آیت نمبر ۴۹ص ۹۹) اللہ پاک بغض و حسد کینہ تکبر غور ریاکاری دکھاواسے ہماری حفاظت فرمائے آمین
تحریر۔محمدتوحیدرضاعلیمی بنگلور
امام مسجد رسولُ اللہ ﷺ خطیب مسجد رحیمیہ میسور روڈ بنگلور مہتمم دارالعلوم حضرت نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ و نوری فائونڈیشن بنگلور رابطہ۔9886402786
tauheedtauheedraza@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *