عورت ایک روپ بہن بھی ہے
عورت ایک روپ بہن بھی ہے
بہن کی شادی کو چھے سال ہو گئے ہیں ۔
میں کبھی اس کے گھر نہیں گیا ، عید اور شب برات پر کبھی ابو یا امی ہو آتے ہیں ۔
میری بیوی ایک دن مجھے کہنے لگی:
آپ کی بہن جب بھی ہمارے ہاں آتی ہے اس کے بچے گھر کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں ، خرچ ڈبل ہو جاتا ہے ۔
اور ایک تمھاری ماں ہے جو ہم سے چھپ چھپا کر کبھی اس کو صابن کی پیٹی دیتی ہے ، کبھی کپڑے ، کبھی صرف کے ڈبے تھما دیتی ہے ، اور کبھی تو چاولوں کا تھیلا بھر دیتی ہے ۔
اپنی ماں سے بولو یہ ہمارا گھر ہے کوئی خیرات سینٹر نہیں !
مجھے بہت غصہ آیا ، میں مشکل سے گھر کا خرچ پورا کر رہا ہوں اور ماں سب کچھ بہن کو دے دیتی ہے ۔
بہن ایک دن گھر آئی ہوئی تھی ، اس کے بیٹے نے ٹی وی کا ریموٹ توڑ دیا ۔
میں ماں سے غصے میں کَہ رہا تھا:
ماں ! بہن کو بولو یہاں عید پہ آیا کرے بس ۔
اور یہ جو آپ اسے صابن ، صرف وغیرہ دیتی رہتی ہیں نا یہ بند کریں سب ۔
ماں چپ رہی ، لیکن بہن نے ساری باتیں سن لی ۔
میری بہن کچھ نہ بولی ، چار بج رہے تھے اپنے بچوں کو تیار کیا اور کہنے لگی
بھائی ! مجھے بس سٹاپ تک چھوڑ آؤ ۔
میں نے جھوٹے منہ کہا:
رہ لیتی کچھ دن ۔
لیکن وہ مسکرائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں بھائی بچوں کی چھٹیاں ختم ہونے والی ہیں ۔
پھر جب ہم دونوں بھائیوں میں زمین کا بٹوارا ہو رہا تھا تو
میں نے صاف انکار کیا کہ بھائی میں اپنی زمیں سے بہن کو حصہ نہیں دوں گا ، بہن سامنے بیٹھی سنتی رہی لیکن اس نے کچھ نہ کہا ۔
ماں نے کہا: بیٹی کا بھی حق بنتا ہے ، اسے اس کے باپ کی میراث سے حصہ دو لیکن میں نے کہا کچھ بھی ہو جائے میں بہن کو حصہ نہیں دوں گا ۔
میری بیوی بھی بہن کو برا بھلا کہنے لگی ۔
وہ بیچاری چپ چاپ سب تماشادیکھتی رہی ۔
بٹوارے کے بعد بڑابھائی مجھ سے علاحدہ ہوگیا اور میں اپنے بال بچوں کے ساتھ اکیلا رہ گیا ۔
کچھ وقت کے بعد میرا بڑق بیٹا ٹی بی کا شکار ہوگیا ۔
میں نے اس کا علاج کیا لیکن افاقہ نہ ہوا ۔
میرے پاس پیسے ختم ہوگئے ، مزید علاج کی گنجائش نہ رہی ۔
میں بہت پریشان تھا ، مقروض بھی ہوچکا تھا ، بھوک سر پہ تھی لیکن پلے کچھ نہیں تھا ۔
ایک دن میں پریشان حال کمرے میں بیٹھا اپنے حالات پر رو رہا تھا کہ میری وہی بہن گھر آگئی ۔
میں نے غصے سے کہا یہ بھی اب آگئی ، اور غم تھوڑے تھے !
بہن نے آکر میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہنے لگی:
بڑی بہن ہوں تمھاری ، میری گود میں کھیلتے رہے ہو ، اب دیکھو مجھ سے بھی بڑے لگتے ہو ۔
پھر میرے قریب ہوئی ، اپنے پرس سے سونے کے کنگن ( جو میری ماں نے اسے دیے تھے ) نکال کر میرے ہاتھ میں رکھے اور آہستہ سے بولی:
بچے سکول گئے تھے میں نے سوچا دوڑتے دوڑتے بھائی سے مل آؤں ۔
پاگل تو کیوں پریشان ہوتا ہے ، یہ رکھ لے اور انھیں بیچ کر اپنے گھر کا خرچہ چلا ، بیٹے کا علاج کروا ؛
شکل تو دیکھ ذرا اپنی کیا بنا رکھی ہے تم نے ۔
میں خاموش تھا بہن کی طرف دیکھے جا رہا تھا ، اور وہ آہستہ سے بولے جارہی تھی ۔
اچھا کسی کو نہ بتانا کنگنوں کے بارے میں تم ۔
پھر میرے ماتھے پہ بوسہ دیا اور ایک ہزار روپیہ مجھے دیا ، جو سو پچاس کے نوٹ تھے ، اور شاید اس کی جمع پونجی یہی تھی ۔
بولی بچوں کو گوشت لا کر کھلا اور پریشان نہ ہوا کر ۔
جب وہ واپس جانے لگی تو میری نظراس کے پیروں پر پڑی ، ان میں ٹوٹا ہوا جوتا تھا جو بڑا پرانا تھا ۔
سر پہ اس نے پرانا سا دوپٹہ اوڑھا ہوا تھا ، وہ جب بھی آتی تھی وہی دوپٹہ اوڑھ کر آتی تھی ۔۔۔۔۔ شاید اس کے پاس کہیں آنے جانے کے لیے یہی ایک تھا ۔
بہن کی اس محبت پر میں مر گیا تھا ۔
ہم بھائی کتنے مطلب پرست ہوتے ہیں ، جو بیویوں یا دوسرے لوگوں کی باتوں میں آکر بہنوں کو بیگانہ سمجھنے لگ جاتے ہیں ، یہ نہیں سوچتے کہ بہنیں کبھی بیگانی نہیں ہوتیں ۔
بہنیں بھائیوں کا ذرا سا دکھ بھی برداشت نہیں کر سکتیں ، ان کے مرنے مرتی ہیں ۔
ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ بہنیں ہمارے گھر سے ، ہمارا کچھ نہیں لے کر جاتیں ، اپنا حصہ ہی لے کر جاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر ان کا حصہ ہم روک لیں تو وہ ” ٹی بی ” جیسے مہلک مرضوں میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔
میں ہاتھ میں کنگن پکڑے زور زور سے رو رہا تھا اور سوچ رہا تھا:
بہن اپنے گھر میں نجانے کتنے دکھ سَہ رہی ہوتی ہے ، لیکن اِس کے باوجود بھائی کو نہیں بھولتی ، سچ ہی کہا کسی نے:
بہن ، ماں کا دوسرا روپ ہوتی ہے ۔