اور حیا نیلام ہوگئی

Spread the love

اور حیا نیلام ہوگئی

انسان کی عادت و فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ ہر نئی چیز اسے اچھی لگتی ہے اور نئے نئے کام کرنے کا شوقین ہوتا ہے۔ اور اس میں دلچسپی کا بھی مظاہرہ کرتا ہے۔ اور مذہب کی پابندیں کے ساتھ بندھنا بھی نہیں چاہتا۔

اس لیے کہ مذہب اس کو آوارگی و عیاشی کے لئے چھٹا نہیں چھوڑتا، جس کا وہ بہت دلدادہ ہوتا ہے۔ بعض نئے کام ایسے ہوتے ہیں جسے شیطان بڑے ہی بنا سنوار کر پیش کرتا ہے۔ تاکہ ہر اچھے برے کو اپنا شکار بنا سکے۔ موجودہ دور میں ایسے ہی نصرانیوں کا ایک بڑا مشہور تیوہار ویلین ٹائن ڈے کے نام سے جانا جاتا ہے۔

جس نے معاشرے کے اندر نہ جانے کتنے گنا برائیوں میں اضافہ کر دیا۔ اسے بتانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ کیوں کہ یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس کا اثر صرف مسلم معاشرے ہی پر نہیں بلکہ دیگر مذاہب پر بھی اچھا خاصا پڑا ہے۔ اس کا تاریخی پس منظر کچھ اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ ایک پادری جس کا نام ویلین ٹائن تھا، تیسری صدی عیسوی میں رومی بادشاہ کلیڈس ثانی کے زیر حکومت تھا۔ ایک بار بادشاہ کی کسی نافرمانی کی وجہ سے پادری کو جیل میں ڈال دیا گیا۔

پادری اور جیلر کی لڑکی کے مابین عشق ہو گیا۔ حتی کہ جیلر کی لڑکی نے اپنا مذہب چھوڑ کر عیسائی مذہب قبول کر لیا۔ اب لڑکی روز صبح ایک سرخ گلاب کا پھول لے کر جیل میں پادری سے ملنے آتی تھی۔ جب ان باتوں کے بارے میں بادشاہ کو معلوم ہوا، تو اس نے پادری کو پھانسی کی سزا سنا دی۔

جب پادری کو اس بات کا علم ہوا کہ بادشاہ نے اس کو پھانسی کی سزا سنا دی ہے، تو اس نے اپنے آخری لمحات کو اپنی معشوقہ کے ساتھ گذارنے کا ارادہ کیا۔ اور اس نے ایک کارڈ اپنی معشوقہ کے نام بھیجا جس پر یہ تحریر تھا “مخلص ویلین ٹائن کی طرف سے “۔

بالآخر چودہ فروری کو اس کو پھانسی دے دی گئی۔ اس کے بعد سے ہر چودہ فروری کو محبت کا دن پادری کے نام سے منایا جاتا ہے۔ اس واقعے کے بعد بے حیائی اور عریانیت کا وہ ننگا ناچ ہوا، جو دنیا کی نگاہوں سے ڈھکا چھپا نہیں۔ پھر یہ تہوار کی شکل میں اس پس منظر سے نکل کر عوامی رخ اختیار کر جاتا ہے۔

آج اگر معاشرے کا جائزہ لیا جائے تو کالج کے لڑکے اور لڑکیاں اس منحوس تیوہار کا بڑی بے صابری سے انتظار کرتے ہیں۔ اور یہ صرف چودہ فروری ہی کو نہیں منایا جاتا ہے بلکہ اس نے اپنی نحوست کے لپیٹے میں ہفتے کے تمام دنوں کو ملوث کر لیا اور جس میں مختلف دنوں میں الگ الگ نام سے منایا جاتا ہے۔

کسی کو روز ڈے کسی دن کو پرپوز ڈے، وغیرہ کہا جاتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: مسلمان مردوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے ستھرا ہے۔

اور مسلمان عورتوں کوحکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں۔ ہم مغرب سے تعلق رکھنے والی ہر چیز کے مخالف نہیں، بلکہ ان چیزوں کے مخالف ہیں جن کا تعلق کسی خاص روایت سے ہو۔ آج اگر ہم ویلین ٹائن ڈے منائیں، تو اس کا صاف مطلب یہ ہے، کہ ہم کہیں نہ کہیں اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ مرد و زن میں بلا تکلف کھلم کھلا تعلقات قائم ہوں۔

اور ہمیں اپنی بیٹیوں کی عزت و عفت سے کوئی سروکار نہیں۔ کیونکہ ہمارے معاشرے کے لوگ مغربی فلمیں،عریاں تصاویر دیکھ دیکھ کر جوان ہوئے ہیں۔ اور وہ جب ویلین ٹائن ڈے منائیں گے تو ان کا طریقہ اس سے بھی دس گنا زیادہ ہوگا۔ جس سے کنبے کا کنبہ درہم برہم ہو جائے گا۔

اور چودہ سو سال پہلے نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک میں ایسا پاکیزہ معاشرہ تھا جس میں زنا تو بہت دور کی بات تھی۔ اس کے اسباب تک رسائی روا نہیں تھی۔

آج تو قانون کے پاسبانوں نے بہت سے ممالک میں مرد و زن کے ناجائز جنسی تعلقات کو یہ کہہ کر قانون کا درجہ دے دیا ہے جو جس کے ساتھ راضی ہو وہ آپس میں تعلق قائم کر سکتا ہے۔ اب دیکھیے۔ جو قانون اس زناکاری اور عریانیت کا محافظ ہو وہ کسی زانی کو کیا سزا دے سکتا ہے۔ اس معاشرے میں زنا کرنے والوں پر کوڑے برسائے جاتے، اور سخت سزا دی جاتی تھی۔ جہاں عفت و پاک دامنی کے بغیر جینا ممکن نہیں تھا۔

اور نبی کریم ﷺ نے تو بے حیائی کو روکنے کے لیے حیا کو ایمان کا حصہ قرار دیا۔ یعنی جو بے حیا ہے، وہ کامل مومن ہی نہیں۔ اور بے حیا لوگوں کی سخت زجر و توبیخ کی اور فرمایا ” جس کو حیا نہیں وہ جو چاہے کرے” معاشرے کا امن و سکون حیا اور پردے کی بنا پر ہے ایسی ہی بے حیائی سے نہ جانے کتنے گھر تباہ ہو جاتے ہیں۔

نہ جانے کتنے جوڑے برباد ہو جاتے ہیں خدارا! ان برائیوں سے باز آجائیں۔ پہلے اپنے گھروں میں اصلاح کریں۔ کیوں کہ آپ کا ایک کی اصلاح کرنا پورے معاشرے بلکہ پورے ملک کی اصلاح کرنا ہے۔ کیوں کہ گھر سے ہی معاشرہ اور معاشرے سے ہی ملک بنتا ہے۔ ہمیں چاہیے

کہ ہم تعلیمات نبوی کے مطابق اپنی زندگی گزاریں اور ان تعلیمات کو عام کریں تاکہ معاشرے سے برائیوں کا خاتمہ ہو سکے۔ کیوں کہ برائیوں کا خاتمہ ہر شخص کی ذمہ داری ہے۔

محمد جنید رضا

اسلامک اسکالر، بریلی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *