مسلم لڑکیوں کا گھر سے فرار کے اسباب و علل اور اس کا حل

Spread the love

از قلم : محمد ناظم القادری جامعی مسلم لڑکیوں کا گھر سے فرار کے اسباب و علل اور اس کا حل

مسلم لڑکیوں کا گھر سے فرار کے اسباب و علل اور اس کا حل

فی الوقت امت مسلمہ جس دور انحطاط سے گزر رہی ہے اس کی مثال کہیں نہیں ملتی ہر میدان میں اہل اسلام کو شکست اور مات کھانی پڑتی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ مسلمان تو ہیں

لیکن اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا نہیں یعنی ہرطرح کی برائیاں ہمارے مسلم معاشرے میں پنپ رہی ہیں انہی برائیوں میں ایک برائی جو شباب کی حدیں پار کرچکی ہے

وہ مسلم لڑکیوں کا اپنے گھروں سے فرار ہونا ہے ہم آئےدن اخبار وشوشل میڈیا پر لڑکیوں کے گھر سے غیر محرم لڑکوں کے ساتھ فرار کے واقعات پڑھتے اور سنتےرہتے ہیں

ہماری دنیا میں یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے قدیم زمانے ہی سے لڑکیاں فرار ہورہی ہیں۔ اپنے والدین کے کی مرضی کے خلاف رشتۂ ازدواج سے منسلک ہورہی ہیں ، اور اسے محبت کا نام دیتی ہیں

حالاں کہ رشتۂ ازدواج ایک ایسا بندھن ہے جس میں رسی, نہ زنجیر ہے فقط ایک گرہ ہے!۔

اگر اسے شرعی اعتبار سے بجالایا جائے تو تکمیل ایمان کا باعث ہے. رضاءالہی کا سبب ہے. لیکن افسوس صد افسوس!۔

اس پاکیزہ رشتہ میں غیر شرعی طور منسلک ہونے کے سبب اپنی دنیا وآخرت تباہ کرلیتی ہیں۔ والد,والدہ,بھائی اور دیگر اقارب ورشتے دار کی سچی محبت کو ٹھکرا کر ایک اجنبی کی دام تزویر میں آکرسماج ومعاشرہ کی پرواہ کئے بغیر اپنے گھروں سے فرار ہوجاتی ہیں

کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ اس قبیح فعل کے وجوہات کیا کیا ہیں؟۔

آئیے ملاحظہ کیجیے!۔

دینی تعلیم کا فقدان

مسلم لڑکیوں کا اپنی مرضی سے شادی کرنے کی ایک بڑی وجہ  دینی تعلیم کا فقدان  ہے. بالخصوص علاقۂ سیماچل میں ایک معیاری مدرسہ نہیں ہے

حالاں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا “طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم ومسلمۃ”یعنی علم حاصل کرنا ہرمسلمان مردوعورت پر فرض ہے

آج کے اس پرفتن دور میں دینی تعلیم کی جتنی ضرورت مردوں کو ہے,اس سے کہیں زیادہ ضرورت عورتوں کو ہے.اگرعورت کا ظاہر باطن دینی تعلیمات سے منور ہوتو اس چراغ سے کئی چراغ روشن ہوسکتے ہیں۔ وہ دیندار بیوی ثابت ہوسکتی ہے۔

وہ ہردل عزیز بہو بن سکتی ہے. نیک اور شفیق ماں بن سکتی ہے وہ اپنے بچوں کے معلم اول ہوسکتی ہے وہ خاندانی نظام کو مربوط رکھ سکتی ہے وہ شوہر کے مرجھائےہوئے اور افسردہ چہرے پر گل افشانی کرسکتی ہے۔

الغرض دینی تعلیم یافتہ عورت وہ سب کچھ آسانی سے کرسکتی ہے جس کا اسلام متقاضی ہے اور ایک بیٹی رحمت اسی وقت بن سکتی ہے جب کہ اس کا قلب و ذہن اسلامی تعلیمات کی روشنی سے منور ہو

وہ فاطمی گفتار وکردار کا پیکر ہو اور دینی تعلیم سے عاری بیٹی رحمت نہیں,زحمت بن جاتی ہے. دینی تعلیم سے فقدان ہی کی وجہ سے مسلم لڑکیاں بلا اجازت ولی شادی کے بندھن میں بندھ جاتی ہیں اس پر طرہ یہ کہ کچھ نادان لڑکیاں ارتداد کے گڑھے میں گر کر جہنم کا لقمہ بن جاتیں ہیں۔

ضرورت اور وقت دونوں اس امر کا متقاضی ہے کہ تعلیم نسواں کے حوا لے سے بیداری پیدا کی جائے

اور اس کی جانب سخت توجہ درکار ہے.اس کے ساتھ اس امر کا اہتمام بھی لازم و ضروری ہے کہ تعلیم نسواں کے تئیں محفوظ مقامات اور تعلیم گاہیں میسر ہوں مخلوط نظام تعلیم لڑکیوں کے فرار کی ایک اہم وجہ مخلوط نظام تعلیم بھی ہے

کیوں کہ مخلوط نظام تعلیم دین اسلام کے دیئے گئے اصول و قوانین کو نظرانداز کرکے بلکہ اسلامی اور مسلمانوں سے اسلامی تشخص کو ختم کرنے کے مقصد سے ترتیب دیا گیا ہے

لہذاجہاں کہیں بھی یہ نظام تعلیم نافذ کیا گیاہے وہاں اس کے سنگین ومہلک اثرات ونتائج.مذہب بیزاری,اسلامی تہذیب و ثقافت سے دستبرداری ہی کی شکل میں نمودار ہوئے ہیں

اور یہی وہ جاں ستاں اسباب ہیں جن کی وجہ سے اسلامی تعلیمات میں مخلوط نظام تعلیم کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے

وہ اجنبی عورت اور اجنبی مرد کو مخلوط معاشرت سے منع کرتا ہے,مخلوط نظام تعلیم ہی کا اثر ہے کہ تعلیم یا زیر تعلیم مسلم لڑکیوں کے غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ دوستی, معاشقی اور دیگر ناجائز تعلقات نیز ان کے ساتھ فرار ہونے کے سینکڑوں جاں سوز واقعات ہیں

سینکڑوں مسلم خواتین کی دین ومذہب کو خیراباد کہہ کر گھروں سے بھاگ جانے کی جاں گسل خبریں ہماری کانوں کی سماعتوں سے ٹکراتی رہتی ہیں اور ہم اس تشوش ناک صورتحال سے سوائے کف افسوس ملنے کے کچھ بھی نہیں کرپارہے ہیں۔

اسی تعلیم کے متعلق علامہ اقبال نے پیشین گوئی فرمائی تھی

اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرۂ تکبیر بھی فتنہ

مخلوط نظام تعلیم کی ان تمام تر خباثتوں اور مضر اثرات کے باوجود بھی اگر لڑکیوں کو انہی اداروں میں اسی طر ح “روشن خیال ” اور”مہذب” بنانے کی دور جاری  رہی

چراغ خانہ کو شمع محفل بنانے کا عمل یوں ہی جاری رہا تو کوئی بعید نہیں کہ ان کے ارتداد اور ان کی عزت وناموس کی پامالی جان کاہ واقعات بڑھتے  نہ چلے جائیں.لڑکیوں کو تعلیم ضرور دی جائے لیکن ایسی تعلیم جو ان فطرت اور اسلامی تعلیمات کے مطابق ہو

موبائل کا آزادانہ استعمال

فرار کی ایک وجہ مسلم لڑکیوں کا آزادانہ موبائل کا استعمال کرنا ہے.فی الوقت نسل نو کے لیے انٹرنیٹ اور موبائل کا آزادانہ استعمال کرنا سم قاتل ہےاسی انٹرنیٹ اور موبائل کے فتنہ کی وجہ سے شریف دیندار خاندانوں کے لڑکے لڑکیاں بے راہ روی کے شکار ہورہے ہیں

یہاں تک کہ کئی کئی سال کی شادی شدہ کئی بچوں والی عورتیں یہی انٹرنیٹ اورشوشل میڈیا کے استعمال کی وجہ سے زناکاری کے گناہ میں ملوث نظر آرہی ہیں.ابھی کی خلوت, جلوت سے زیادہ خطرناک ہے

موبائل ہی کی بدولت فواحش ومنکرات اور بدکاری کا بازار شباب پر ہے.ایک غیر محرم لڑکی دوسرے غیر محرم لڑکا سے رات رات بھر شہوت انگیز باتیں کرنا,سماج ومعاشرہ کا جنازہ نکال دیتا ہے.معشوق کا اپنے عاشق کے ساتھ راہ فرار اختیار کرنے میں موبائل کا اہم رول ہوتا ہے

یہ عشق ومعاشقہ, یہ خلا ملا, یہ چین وقرار اور گھر سے فرار کیوں ؟۔ یہ موبائل ہی کا دین ہے.ماضی قریب ہی میں لڑکے لڑکیاں والدین یا اپنے بزرگوں کے سامنے شادی کا نام لینے میں جھجک محسوس کرتی تھیں

لیکن فی الحال اکابر واصاغر کا پاس ولحاظ کئے بغیر شرم وحیا کی چادریں اتار کر اپنے جھوٹے عشق ومحبت کی داستانیں بیان کرتی ہیں. لہذا والدین کی اہم ذمہ داری ہے کہ اپنے بچے بچیوں پر خاص توجہ رکھیں

ان کی نقل وحرکت پرکڑی نگاہ رکھیں اور جہاں تک ہوسکے لڑکیوں کو موبائل کے استعمال سے دور رکھیں

جہیز

فرار کی ایک اہم وجہ غیر معقول رسم جہیز ہے.سماج میں رسم جہیز نے اپنے ساتھ تباہی وبربادی کا جو نہ تھمنے والا وہ طوفان برپا کیاہے,اس نے اسلامی معاشرہ کاجنازہ نکال کر رکھ دیا ہے.یہ ایک ایسا ناسور ہے جو دھیمک کی طرح ہمارے سماج کو چاٹ رہا ہے

یہی وہ ناسور وبا ہے جو نکاح جیسے پاکیزہ رشتہ کی رکاوٹ بن رہا ہے.ہر والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کا مقررہ وقت میں نکاح کرادے اور ہر والدین کی یہی خواہش رہتی بھی ہے کہ وہ اپنے بیٹی کے جلد از جلد ہاتھ پیلے کردے.لیکن اس نیک اور متبرک رشتہ کی آڑ یہی دقیاسی روایت”جہیز”بن جاتی ہے

جس کے نتیجے میں بیشتر بیٹیاں گھروں میں بیٹھی بیٹھی اپنی شباب کی حدیں پار کرکے بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ جاتی ہیں.اور کچھ ناسمجھ لڑکیاں اپنی والدین کی غربت کے پیش نظر سماج ومعاشرہ سے پرے ہوکر گھر سے بھاگ کر شادی کے لباس میں ملبوس ہوجاتی ہیں. والدین کا دینی ماحول سے دوری :اس غیر شرعی عمل کا ایک سبب والدین کا دینی ماحول سے دوری بھی ہے

ظاہر ہے جو بچیاں بے دینی ماحول میں پرورش پاکر بلوغت کی منزلیں طے کریں گی وہ حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کی کنیز نہیں بلکہ فلمی ہیروین ہی کی نقل اتارے گی. اور فی الوقت یہی ہورہاہے

اختلاط مردوزن

مسلم لڑکے اور لڑکیوں کےفرار کی ایک بڑی وجہ ان کا غیر محرم مرد سے غیر شرعی مل میلاپ ہے.کیوں کہ دونوں صنفوں میں قدرت نے ایک دوسرے کے لیے ایک فطری کشش رکھی ہے جس کی وجہ سےدونوں کا ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہونا اور اورربط وتعلق کی خواہش کا پیدا ہونا ناگزیر ہے.اسی بنیاد پرشریعت مطہرہ نے اس خواہش کی تکمیل کا مخصوص طریقہ (نکاح) رائج کردیا ہے

اور اسے رضاء الہی کا سبب بھی قرار دیا ہے. لیکن غیرمحرم سے مل میلاپ ایک مہلک وبا سے ہے جو بدکاری پر اکساتی ہے.یہی وجہ ہے ایک مرتبہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے حضرت ام سلمہ اور حضرت میمونہ کو حضرت ام مکتوم رضی اللہ عنہ سے پردہ کا حکم دیا تھا۔

حالاں کہ حضرت ام مکتوم نابینا تھے. بایں وجہ حضرت ام سلمہ نے عرض بھی کیا تھا, یارسول اللہ !کیا یہ نابینا نہیں ہیں ؟ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ کیا تم دونوں بھی نابینا ہو”. پھر بتدریج فرار کی نوبت آجاتی ہے

اس وبا کی سد باب کے لیے اسلامی ووبا کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونالازم وضروری ہے باری تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔

از قلم : محمد ناظم القادری جامعی
دارالعلوم منظر اسلام شاہ پور حیدرآباد

ان مضامین کو بھی پڑھیں

ہمارے بچے ہمارا مستقبل

ہندوستانی جمہوریت خطرے میں ہے

اولاد کی تربیت کے چند رہ نما اصول

ہمارے لیے آئیڈیل کون ہیں