ضمیر فروشی کا اتنا سستا سودا
ضمیر فروشی کا اتنا سستا سودا
بھارتیہ جنتا پارٹی میں ایک خوبی تو ہے کہ وہ زیادہ دیر تک وفاداروں کا احسان اپنے کندھے پر نہیں رکھتی۔ جلد ہی انعام و اکرام سے نواز کر اسے اتار پھینکتی ہے۔
سپریم کورٹ کے بد نام زمانہ سابق چیف جسٹس، رنجن گوگوئی کو راجیہ سبھا کی رکنیت کے لیے نام زد کرنے کا معاملہ ہو یا پھر سپریم کورٹ کے ہی سابق جج، جسٹس ایس عبد النذیر کو آندھرا پردیش کے گورنر کے عہدے پر فائز کرنے کا سودا، یہ سب اسی داد و دہش کے بڑے بڑے نمونے ہیں۔
یہ فہرست طویل ہے۔ اب اس میں ایک نیا نام علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور کا جڑ گیا ہے۔ در اصل، کل (٣/اپریل ٢٠٢٣ء) بی جے پی نے اتر پردیش لیجس لیٹیو کونسل کے لیے چھ نئے ممبروں کو نام زد کیا۔ ان میں ایک نام طارق منصور کا بھی ہے۔
سنگھ اور بی جے پی کے تئیں، پروفیسر منصور کی وفاداری کی داستان بڑی لمبی ہے۔ اس کا سب سے بڑا مظاہرہ تب ہوا جب ١٥/ دسمبر ٢٠١٩ء کو دلی پولیس نے سی اے اے کے خلاف احتجاج کر رہے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ کو سخت تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔
اور پھر جب اس تشدد کے خلاف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ نے احتجاج کیا تو وہ شیخ الجامعہ طارق منصور ہی تھے جنہوں نے یو پی پولیس کو کیمپس میں گھس کر لاٹھی چارج کرنے اور آنسو گیس کے گولے داغنے کی اجازت دی تھی۔
اسی پر بس نہیں، جب بھی کوئی موقع آیا، پروفیسر طارق ہمیشہ حکومت وقت اور بالخصوص وزیر اعظم نریندر مودی کی کاسہ لیسی کرتے دکھے ہیں۔
اڈانی کو لے کر ہنڈن برگ رپورٹ کے بعد، جب مشہور امریکی ارب پتی صنعت کار، جورج سوروس نے چپی سادھے رکھنے پر مودی کی تنقید کی تو منصور صاحب ٹویٹر پر جورج کو نصیحت کرتے نظر آے۔
اسی طرح گزشتہ دنوں جب بھاجپا پس ماندہ مسلموں کا مسئلہ اٹھا رہی تھی تو وائس چانسلر نے انگریزی کے معروف اخبار دی ہندو میں ایک لمبا کالم تحریر کر اس کی تائید کی۔
اور ضمیر فروشی کی انتہا تو یہ ہے کہ جب بی بی سی نے نریندر مودی پر اپنی ڈاکیومنٹری ‘بی بی سی سیریز: دی مودی کو یسچن’ نشر کر پردھان منتری کو گجرات نسل کش فسادات کا ذمے دار ٹھہرایا تو پروفیسر منصور نے جذبہ وفاداری سے سرشار ہو کر دی انڈین ایکسپریس اخبار میں ایک مضمون لکھا۔
اور یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ بھارتی مسلمان ماضی میں پھنس کر نہیں رہنا چاہتے، ہم ان سب چیزوں سے آگے بڑھ جانا چاہتے ہیں۔
ان ساری وفا داریوں کا انعام تو طارق منصور کو ملنا ہی تھا۔ سو پہلا انعام پچھلے سال تب ملا، جب پانچ سال مکمل ہونے کے بعد مرکزی حکومت نے ان کی وائس چانسلر شپ میں ایک سال کی توسیع کر دی تھی۔
امسال مئی کے مہینے میں وہ توسیع ختم ہوتی، اس سے پہلے ہی ٣/ اپریل کو بھاجپا نے انہیں اتر پردیش لیجس لیٹیو کونسل کا ممبر بنا دیا۔ اور آج اچانک یہ خبر آ رہی کہ اس سے ایک دن پہلے یعنی ٢/ اپریل کو شیخ الجامعہ نے اپنے عہدے سے استعفا دے دیا تھا۔
کسی بھی سینٹرل یونی ورسٹی کے وائس چانسلر کا عہدہ بہت بڑا اور با وقار ہوتا ہے۔ اور بات جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور اس کے شیخ الجامعہ کی ہو تو یہ عہدہ مزید بھاری بھرکم ہو جاتا ہے۔ ایسے میں پروفیسر منصور کا یو پی لیجس لیٹیو کونسل کی ممبری قبول کرنا خود ان کے لیے کوئی فخر کی بات نہیں ہونا چاہیے۔
میری راے میں وائس چانسلر نے یہ بڑا ہی سستا سودا کیا ہے۔ لیکن جس معاشرے میں سپریم کورٹ کا چیف جسٹس ایک پارلیمانی نشست کے بدلے اپنے ضمیر کا سودا کر لے، وہاں کونسل کی ایک سیٹ کے عوض کسی یونی ورسٹی وائس چانسلر کا اپنا ایمان بیچ دینا، کچھ بھی تعجب خیز نہیں۔
یہ سستا اس لیے بھی ہے کہ سوشل میڈیا کے مطابق، پروفیسر طارق گورنری کے امیدوار تھے۔ تا ہم علیگ برادری کے لیے یہ خوش خبری ہے، کہ اسی بہانے طارق منصور جیسے ضمیر فروش شخص سے چمن سر سید اور قوم کی امانت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا پیچھا چھوٹا۔
✍️ محمد حیدر رضا
Pingback: نام میں کیا رکھا ہے ⋆ حیدر رضا
Pingback: بویا بیج ببول کا آم کہاں سے کھانے ⋆ تحریر: حیدر رضا