ارادوں کی تکمیل اور زندگی کی تشکیل کا فلسفہ

Spread the love

“ارادوں کی تکمیل اور زندگی کی تشکیل کا فلسفہ

“درد ہو، فکر ہو، کڑھن ہو، تو کام ہوجاتے ہیں پھر راستے سے کنکر ہٹ جاتے ہیں ،

پریشانیوں کے بادل چھٹ جاتے ہیں ؛ آپ علمائے کرام کو ہی دیکھ لیجیے کہ اُن کے ذوق و شوق کے آگے ، قید و بند کی مشقّتیں ماتھا ٹیک گئیں ، جیل کی سلاخیں بھی ہمت ہار گئیں اور کوئی تو کنویں میں بیٹھ کر وہ کام کر گیا کہ سمندروں کی سیر کرنے والے ،

ہواؤں کو مسخّر کرنے والے ، اور دنیا اپنی مُٹھی میں کرنے والے بھی نہ کر سکے یہی لوگ تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہیں ۔ ؎ مُورّخ یوں جگہ دیتا نہیں تاریخِ عالم میں بڑی قربانیوں کے بعد پیدا نام ہوتا ہے ۔ہم بھی مانتے تو ہیں کہ : یہ کرنا چاہیے ،

ایسا بھی ہونا چاہیے ، میں وقت ضائع کر رہا ہوں ، کچھ کر نہیں پا رہا ، خواہش کی شدت کا پیمانہ چھلک رہا ہے ، لفظوں کی ساخت اور لہجوں کی ہیئَت سے بھی یہ جذبہ جھلک رہا ہے مگر یہ بھی تو بات ہے نا؎ چاہتے سب ہیں،

کہ ہوں اَوجِ ثُریّا پہ مقیم پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے، قلبِ سلیم ۔اِس کے لیے کمَر پہ بستہ باندھیں نہ باندھیں لیکن ۔۔۔ محض خواہشات اور تصورات کے دائرے سے نکل کر عملی زندگی کی طرف ” کمر بستہ ” ہو جائیں

۔ سر نہ توڑیں ، ماتھا نہ رگڑیں لیکن اپنے پیشے میں اور اپنی مَن پسند فیلڈ میں “سر توڑ ” کوشش ضرور کریں ؎اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہےپھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے ۔ہم پہلے فصل آنے کی امید پر بیج تو بوئیں ، رزق کی تلاش میں گھر سے نکلیں تَو سہی ، مطالعے کا ذوق پانے کے لیے کتاب کو پکڑیں تو سہی ، زندگی کی تنظیم و ترتیب کے لیے اپنی ترجیحات کا انتِخاب تو کریں

۔پھر دیکھیں رزلٹ ، پھر دیکھیں اِس کے اثرات!اِس کے ساتھ ساتھ دل کی راحَت ، روح کی فرحَت اور جذبوں کی نُدرَت کے لیے ” ومن یتوکّل علی الله فھو حسبُه ” ۔ کا ورد کریں اور پھر مقصد کی طرف بڑھتے رہیں ۔

اوراد و وظائف بھی کرتے رہیں ، ڈاکٹر اقبال کہتے ہیں :جانم از صبر و سکوں محروم بودوردِ من یا حیّ یا قیُّوم بود میری جان صبر و سکون سے محروم ہے ۔ میں اس لیے ” یا حی یا قیوم کا ورد کر رہا ہوں ۔اور پھر اپنے مالک (عزوجل) سے دعاؤں کا سلسلہ مضبوط رکھیں ۔ دعا کرتے رہیں ؛ کسی عربی شاعر نے کہا :مَن رُزق الدعاء لم یحرم الاجابه ۔جسے دعا کی توفیق مل گئی ؛

تو وہ قبولیت سے محروم نہیں رہتا۔آج لوگ امید و بیم کی کشمکش میں مختلفُ النّوع ، اور مختلفُ الخیال ہیں مثلاً:

1 : کوئی وہ ہے، جو دریا پار کر چکا ہے ؛ وہ تو کامیاب ہو ہوگیا ۔

2: کوئی پار کرنے کی امید پر سفر میں ہے ، اِس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے : یہ شخص کامیابی کے قریب ہے ، مطلوبہ منزل سے چند قدم فاصلہ ہے

۔3 اور کوئی ہمّت ، طاقت اور خواہش کی شدّت کے باوجود صرف اِس خوف سے کہ ” کہیں ڈوب نہ جاؤں ، کنارے پر پہنچوں گا یا نہیں ” کی شش و پنج میں سفر ہی نہیں کر رہا یہ وہ شخص ہے جس نے امید سے اپنا تعلّق توڑ لیا ،

اور اپنا منہ مقصد سے موڑ لیا جو کہ نہیں کرنا چاہیے تھا یہ کامیابی کی راہ میں رکاوٹ ہے

؎برگ سبزے کر نہالِ خویش ریخت از بہاراں تارِ امیدش گسیخت سبز پتّہ جب درخت سے ہی گر جاتا ہے

، تو بہاروں سے اُس کی امیدوں کی تار ٹوٹ جاتی ہے ۔ ‘

‘ انھیں ہمتِ مرداں مددِ خدا ” کا فلسفہ نہیں بھولنا چاہیے ۔

؎فرصت کا موقع نہ تذبذُب کا محَل ہے یہ وقتِ عمل، وقتِ عمل،وقتِ عمَل ہے

✍️ابو البیان القادری16مارچ 2024

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *