داڑھی کاٹنے کی وجہ سے چار طلبا کا اخراج
دارالعلوم دیوبند کے ذریعے داڑھی کاٹنے کی وجہ سے چار طلبا کا اخراج عمل میں آیا ہے، یہ معاملہ سوشل میڈیا سے ہوتے ہوئے اب مرکزی مین اسٹریم میڈیا تک پہنچ رہا ہے
ایسےمیں دباؤ میں آنے کی ضرورت بالکل نہیں ہے، دارالعلوم کا یہ فیصلہ اپنے اصول و ضوابط کے تحت ہے، اور ایک نبوی سنت پر عملدرآمد کرانے کی بہترین مشق ہے
ہر تعلیمی ادارے کو اپنے کیمپس کے اصول و ضوابط طے کرنے کا مکمل اختیار ہے خاص طورپر اپنے کیمپس میں وضع قطع اور یونیفارم طے کرنے کا مکمل حق ہر انسٹیٹیوٹ کےپاس ہوتاہے، اگر یہ اختیار نہ ہو توپھر کوئی ادارہ، کوئی کیمپس کوئی احاطہ آزاد و خودمختار نہیں ہوسکتا
تعلیمی اداروں کو تو یہ حقوق ترجیحی طورپر حاصل ہوتےہیں کہ وہ اپنے طلبا و طالبات کا ڈریس کوڈ اور وضع قطع طے کرے لیکن موجودہ دور میں تو مختلف شعبوں کے کارخانوں سے لےکر دفاتر تک میں وضع قطع اور لباس کا پروٹوکول متعین ہونے لگا ہے
اس لیے دارالعلوم دیوبند کی جانب سے اپنے طلبا پر وضع قطع کی خلاف ورزی پر کی گئی اس کارروائی کو آج کی دنیا میں معقولیت کی نظر سے دیکھا جانا چاہیے
ہاں اگر مسلمان ہی دفاعی پوزیشن میں آجائیں توپھر دیگر ایشوز کی طرح اس معاملے میں بھی ہزیمت اٹھانی پڑسکتی ہے
ان تمام تکنیکی گراؤنڈ سے قطع نظر بھی اصولی بات یہی ہےکہ، ہر کیمپس کو اپنے یہاں وضع قطع کی پابندی کروانے کا مکمل حق ہے، کوئی اگر خلاف ورزی کرتاہے تو کارروائی ہی عین انصاف ہے، اور جب پابندی کا تعلق سنتِ رسولﷺ پر عمل در آمد کرانے سےمتعلق ہو تو پھر اس بابت انتظامیه کی سختی اور صوابدید پر انگلیاں اٹھانے کا مطلب اپنی آخرت بھی خراب کرنا ہے
ہاں یہ بات شدید تشویش ناک ہےکہ اس طرح کے داخلی معاملات کے اشتہارات سوشل میڈیا پر کیسے آجاتے ہیں اور دشمنوں کو مسلمانوں کو الجھانے والی فرصت دیتے ہیں
اس معاملے پر کسی بھی میڈیا ہاؤز، لبرل یا سنگھی پروپیگنڈے کا ایک ہی جواب ہے اور مسکت جواب ہے کہ ، ” یہ ادارے کے کیمپس کے پروٹوکول کا معاملہ ہے ہر ادارے کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ یہ طے کرے کہ اس کا احاطہ کیسے ہوگا اور وہاں کیسے رہا جائےگا، تم اپنے کام سے کام رکھو، دوسروں کے احاطے میں تانک جھانک گندی خصلت ہے “۔
۔✍ : سمیع اللہ خان