امام ، گاؤں ، پیر ایک درد ناک سانحہ
امام ، گاؤں ، پیر ایک درد ناک سانحہ
ایک ہنگامۂ محشر ہو تو اس کو بھولوں ہزاروں باتوں کا رہ رہ کے خیال آتا ہے ایک بہت بڑے علاقے میں مسلمانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد تھی مسلمان عملی جامہ پہنے ہوئے تھے نماز روزہ کی پابندی علمائے کرام و طلبۂ کرام کا ادب و احترام آپس میں میل جول (اتحاد و اتفاق) غرضیکہ تمام اشخاص بڑے خوبیوں کے حامل تھے بڑا ہی امن و قرار والا معاشرہ تھا _ سب کے سب احساسِ زیاں سے بے نیاز تھے وجہ یہ تھی کہ اس علاقے میں دو مسجد اور ایک مدرسہ تھا جو ہمہ وقت ان کی رہنمائی میں سرگرداں رہتا تھا ایک زمانے سے سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا کہ ایک دن مسجد کے امام صاحب کہیں دوسرے مقام پر امامت کی غرض سے رخصت کر گئے ان کی جگہ پر کوئی اور حضرت آ گئے جو جلسہ جلوس پیری مریدی سے کافی دلچسپی رکھتے تھے _ کچھ ہی دن گزرے تھے کہ انہوں نے ایک میٹنگ رکھی وقت متعینہ پر گاؤں کے فرض شناس حاضر ہوئے امام صاحب نے کہا کتنے افسوس ! کی بات ہے کہ ہمارے اس علاقے میں مسلمانوں کی طویل ترین تعداد ہونے کے باوجود سال بھر میں ایک دینی جلسہ نہیں ہو پاتا ہے پروگرام ہوتا تو بڑے بڑے علمائے کرام شعرائے کرام پیران عظام کی آمد ہوتی لوگوں کے ایمان میں تازگی آتی اور سماج کے لوگوں پر گہرا اثر بھی پڑتا _مختصر یہ کہ اس بیٹھک میں یہ طے قرار پایا کہ ہمارے یہاں آئندہ ماہ میں ایک بڑا جلسہ ہوگا اب تمامی افراد بخوشی تیاریوں میں مصروف ہو گئےادھر امام صاحب مقررین اور نعت خواں حضرات نیز ایک پیر صاحب کی تاریخ لے چکے تھے تھوڑے دن میں انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں آخر تقریب والا دن آ ہی گیا چاروں طرف چہل پہل نظر آ رہی تھی ہر ایک شخص خوشیوں میں مگن تھا گویا آج کوئی تہوار کا دن ہو دوسری طرف جبہ قبہ میں ملبوس پیر صاحب مقررین اور نعت خواں حضرات بھی تشریف لا چکے تھے جیسے ہی سورج غروب ہوا اعلان ہونا شروع فلاں وقت سے جلسے کا انعقاد ہوگا آپ حضرات ضروریات سے فارغ ہو کر پنڈال (جلسہ گاہ) میں آنے کی کوشش کریں _بہر کیف نماز مغرب کے بعد سے جلسے کا آغاز ہوا قرآن پاک کی تلاوت ہوئی نعت خواں باری باری سے آتے رہے اور اپنی ذمہ داری بخوبی نبھاتے رہے مقررین نے بھی خوب دھوم دھڑاکے والی تقاریر کی پیر صاحب کا بھی مختصر بیان ہوا اس جلسے میں ہوا یوں کہ جو بھی نعت خواں آتا پہلے پیر صاحب کی دست بوسی کرتا اور اجازت طلب کرتا اور اشعار کے ذریعے پیر صاحب کی تعریف کرتا مقررین حضرات نے بھی دست بوسی اور تعریف و توصیف کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی پھر پیر صاحب نے پیری مریدی کی فضیلت پر ایسی ایسی باتیں کہ ڈالیں جس سے عوام کا ذہن سہل پسندی کی طرف مائل ہو گیا مثلاً پیر صاحب اشارے اشارے میں یہ کہ گئے کہ پیر کیسے کیسے گنہ گاروں کی بخشش کرائے گا جو بے نمازی ہے جو روزہ نہیں رکھتا جو شراب نوشی میں مبتلا ہے ان تمام کو پیر صاحب کے ذریعے نجات مل جائے گی دوسری جانب اہل اسٹیج واہ واہی کرنے میں برابر سرابر شریک رہے _اب عوام کے اذہان و قلوب میں یہ بات بیٹھ گئی کہ دین اسلام کی اصل رسی تو پیر صاحب ہیں ہم زندگی بھر مسجد کے امام صاحب اور مدرسے کے استاد صاحب کا ہاتھ چومتے رہے آج وہ خود پیر صاحب کے سامنے جھکے ہوئے ہیں لہٰذا انہیں کا دامن تھام لیا جائے رستگاری انہیں کے ذریعے ملنے والی ہے یہ سوچ کر لوگوں نے جوق در جوق پیر صاحب کی غلامی کا طوق گلے میں ڈال لیا _قارئین کرام! یہ وہ جانکاہ لمحہ تھا جسے میں لفظوں میں بیاں کرنے سے قاصر ہوں اس جلسے کے بعد اس علاقے میں اسلام و سنیت کو جس بھاری بھر کم نقصان سے دوچار ہونا پڑا یہ کسی کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں آ سکتا بعض قباحتوں کو سپرد قرطاس کرتا ہوں ؛(١) نمازیوں کی تعداد میں دن بدن کمی ہونے لگی پہلے عموماً پانچ صفیں آسانی سے ہوجاتی تھیں پھر آہستہ آہستہ بے نمازیوں میں اضافہ ہوتا گیا حتیٰ کہ اب ایک صف بھی نامکمل نظر آتی ہے _(۲) مسجد و مدرسہ کا اخراج علاقائی تعاون سے ہوتا تھا مگر اب اس کی حالت ناگفتہ بہ ہے رمضان میں سفیروں کے ذریعے چندا کروانے تک کی نوبت آگئی ہے _(٣) علماے کرام کی تعظیم و تکریم نیز دعوت و ضیافت کا خوب اہتمام کرتے تھے لوگ مگر اب انہیں کوئی پوچھتا ہی نہیں بلکہ جو ان حالات کو سدھارنے کی جد و جہد کرتا ہے اس کو فوری طور پر نکال دیا جاتا ہے (۴) اب ہر سال دو سے تین اجلاس ہوتے ہیں انہیں پیر صاحب کو مدعو کیا جاتا ہے وہ آتے ہیں اور مال و متاع لوٹ کر لے جاتے ہیں ع :وہ اندھیرا ہی بھلا تھا کہ قدم راہ پر تھےروشنی لائی ہے منزل سے بہت دور ہمیںاس عظیم خسارے میں کس کس کا اہم کردار رہا وہ قارئین کے ذمہ چھوڑتا ہوںیہ تو رہا ایک حادثہ نا جانیں ہمارے کتنے علاقے اس طرح کے حادثات کا شکار ہیں ع :رات آ کر گزر بھی جاتی ہےاک ہماری سحر نہیں ہوتییاد رہے ہمارا (علمائے کرام کا) ایک غلط قدم ہماری تو زندگی خراب کرتا ہی ہے ساتھ ہی معاشرے کے زوال کا سبب بھی بنتا ہے اب وقت شدت سے تقاضا کر رہا ہے کہ دو نمبری پیروں اور پیشہ وران اجلاس کا مکمل طور پر بائیکاٹ کیا جائے ورنہ ہم اہل سنت کا مستقبل بڑا درد ناک ہوگا ع :جو اب بھی نا تکلیف فرمائیے گا تو بس ہاتھ ملتے ہی رہ جائیے گا اللہ کریم سے دعا گو ہوں کہ ذمہ داران حضرات کو اس جانب اقدامات اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے راقم التحریر ؛ عارف ابن عبداللہ متعلم : جامعہ حنفیہ سنیہ مالیگاؤں مہاراشٹر