اردو یونیورسٹی میں صحافیوں کا میلہ
اردو یونیورسٹی میں صحافیوں کا میلہ
معصوم مرادآبادی
اردو صحافت نے اس ملک کی آزادی اورتعمیر وتشکیل میں لازوال قربانیاں پیش کی ہیں۔ سیکڑوں اردو مدیروں کو نہ صرف آزادی کی خاطر قیدوبند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا بلکہ کئی اردو صحافیوں نے اس راہ میں اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا۔ اردو صحافت کا آغاز 1822میں کلکتہ سے ’جام جہاں نما‘ کی اشاعت کے ساتھ ہوا تھا۔اس اعتبار سے 2022 کا سال اردو صحافت کی دوسوسالہ تقریبات کا سال قرار دیا گیاہے۔ان تقریبات کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان میں جہاں اردو صحافت کے لازوال کرداراوراس راہ میں بے مثال قربانیاں پیش کرنے والے صحافیوں کو یاد کیا جارہا ہے۔وہیں موجودہ دور کے ان سینئر اور تجربہ کار صحافیوں کو اعزاز واکرام سے بھی نوازا جارہا ہے، جنھوں نے اپنی پوری زندگی اردو صحافت کی ترویج وترقی کے لیے وقف کردی۔اس سلسلہ کی پہلی تقریب 30 مارچ 2022ء کو نئی دہلی کے انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں راقم الحروف کی کنوینر شپ میں منعقد کی ہوئی تھی،جس میں سابق نائب صدر جمہوریہ محمد حامد انصاری اور جموں وکشمیر کے سابق وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد نے مہمان خصوصی کے طورپر شرکت کی تھی۔ پورے ملک میں اس کا مثبت اثر ہوا اور جابجا اردو صحافت کی دوسوسالہ تقریبات منانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس سلسلہ کا سب سے کارگر اور وقیع پروگرام گزشتہ مئی میں مغربی بنگال اردو اکیڈمی نے کلکتہ میں منعقد کیا اور ملک کے تمام ہی سرکردہ اردو صحافیوں کو مدعو کرکے ان کی بھرپور پذیرائی کی۔ اس دوران بعض دیگر اداروں نے اس قسم کے پروگراموں کی تیاریاں شروع کردیں، جن میں حیدرآباد کی مولانا آزادنیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبہ صحافت وترسیل عامہ کا نام قابل ذکر ہے۔
اردو یونیورسٹی کی یہ تقریب ’کاروان اردو صحافت‘ کے عنوان سے13تا 15نومبر کو یونیورسٹی کیمپس میں منعقد ہوئی، لیکن یہ دیکھ کر لوگوں کو حیرت ہوئی کہ اس تقریب میں اردو سے زیادہ انگریزی کے ان صحافیوں کی بھرمارتھی جواردو صحافت کی ابجدسے بھی واقف نہیں ہیں۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس پروگرام میں اردو کے سرکردہ صحافیوں کے ساتھ ساتھ علاقائی صحافت سے وابستہ ان صحافیوں کو مدعو کیا جاتا جو اردو سے کچھ سروکار رکھتے ہیں۔ ان میں تلگو، ملیالم، مراٹھی،بنگالی اور اڑیہ زبانوں کے صحافی اہم ہوسکتے تھے۔لیکن حیدرآباد میں پروگرام ہونے کے باجود تلگو کے ایک بھی صحافی کو مدعو نہیں کیا گیا۔ اس کے برعکس دائیں بازو کے نظریات رکھنے والے ایسے ہندی اور انگریزی صحافیوں کو بڑی تعداد میں بلایا گیا جو اردو سے بغض وعناد رکھتے ہیں۔حیرت اس بات پر ہے کہ ان انگریزی اور ہندی صحافیوں پر فی کس تیس چالیس ہزار کی رقم صرف ہوئی اور انھوں نے تین چار منٹ سے زیادہ گفتگو نہیں کی۔کاش پروگرام کے منتظمین ان سے اردو زبان یا اس کی صحافت کے حق میں کچھ کہلواپاتے۔اس موقع پر ان سے یہ دریافت کیا جانا چاہئے تھا کہ آخرانھیں اردو زبان سے اتنا بغض کیوں ہے اردو زبان وکلچر کو مٹانے کی کوششیں کیوں کی جاتی ہیں۔منتظمین نے اس کا کوئی خیال نہیں کیا۔ ایک اجلاس کے دوران سامعین میں سے کسی نے یہ سوال اٹھایا کہ آزادی کے بعد اردو کے ساتھ ناروا سلوک کیوں کیا گیا تو ایک ہندی صحافی نے جواب دیا کہ”جس زبان نے ملک کی تقسیم میں اپنا کردار ادا کیا ہو اسے اس کی کچھ قیمت تو ادا کرنی ہی تھی۔“
اس پروگرام میں سنگھی ذہنیت رکھنے والے کئی صحافی شریک تھے جنھوں نے اپنی گفتگو میں اپنے نظریات کی تبلیغ کی۔مجموعی طورپر اس تقریب میں اردو صحافیوں کی تعداد 25فیصد سے بھی کم تھی۔ باقی 75 فیصد صحافی انگریزی، ہندی، الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھتے تھے۔اس پروگرام میں حیدرآباد کے صحافیوں کی تعداد بھی برائے نام تھی۔
سبھی جانتے ہیں کہ اس وقت حیدرآباد اردو صحافت کا سب سے بڑا مرکز ہے اور وہاں سے شائع ہونے والے روزنامہ ’سیاست‘، ’منصف‘اور ’اعتماد‘ اردو کے اہم اخبارات میں شامل ہیں۔ افسوس کہ ان اخبارات کے کسی مدیر کو افتتاحی پروگرام میں کوئی نمائندگی نہیں دی گئی۔ اس پروگرام میں ای ٹی وی اردو کے بانی راموجی راؤ کو بھی مدعو نہیں کیا گیا جبکہ انھوں نے اپنے چینل کے ذریعہ اردو زبان کو فروغ دینے کا سب سے بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔اسی طرح ملک کے سب سے سینئر اردو صحافیوں وجے کمار چوپڑا (ایڈیٹر ’ہندسماچار‘) عارف عزیز(بھوپال)احمدابراہیم علوی اور اختریونس قدوائی(لکھنؤ) محمدوسیم الحق(کلکتہ) اورایس ایم اشرف فرید(پٹنہ)کو بھی دعوت نامہ نہیں ملا۔اس سلسلے میں جب معلومات اکھٹا کی گئی تو پتہ چلا کہ پروگرام کے کنوینربھی اردو سے واقف نہیں ہیں اور انھیں اس بات کوئی علم نہیں ہے کہ ملک میں اردو کے سینئر اور قدآور صحافی کون ہیں۔ وہ محض ٹی وی پر چمکنے والوں کو صحافی سمجھتے ہیں، خواہ وہ اینکر ہی کیوں نہ ہوں۔اگر کسی غیر اردو صحافی کو ہی اس پروگرام میں شریک کرنا تھا تو اس میں سب سے بڑا نام رویش کمار کا ہوسکتا تھا جنھوں نے اس ملک میں صحافت کی آبرو بچارکھی ہے۔اس پروگرام میں گودی میڈیا کے اینکروں اور صحافیوں کا جلوہ رہا۔ پروگرام کے لیے مذاکرات کے جو ذیلی عنوانات قایم کئے گئے تھے، وہ بھی انتہائی ناقص تھے۔ یہاں تک کہ ایک مذاکرے کا عنوان تھا”اردو صحافت کا زوال“۔اگر واقعی اردو صحافت زوال آمادہ ہے تو پھر اس کا دوسوسالہ جشن منانے کے لیے ملی اداروں سے چندے کے طورپر لاکھوں کی رقم کیوں جمع کی گئی؟سبھی جانتے ہیں کہ اس ملک میں اردو صحافت کو کچھ چیلنجز درپیش ہیں۔ضرورت اس بات کی تھی کہ شرکاء اس موضوع پر سیرحاصل بحث کرکے کوئی لایحہ عمل طے کرتے، لیکن یہ پوری کانفرنس بے راہ روی کی نذر ہوگئی اور کوئی مثبت پیغام دینے میں ناکام رہی۔ جن انگریزی اور ہندی صحافیوں کو اس میں بڑے اہتمام سے مدعو کیا گیا تھا، انھوں نے اس پر ایک لائن کی خبر تک شائع نہیں کی۔ افسوس ناک بات یہ ہے اس میں حیدرآباد کے اردو والوں کو قطعی نظرانداز کیا گیا۔ سبھی جانتے ہیں کہ حیدرآباداردو زبان وادب،صحافت اور تہذیب کا بڑا مرکز ہے اور یہاں سیکڑوں سرکردہ ادیب، شاعر ، دانش ور اور صحافی موجود ہیں، لیکن انھیں بطورسامع بھی مدعو نہیں کیا گیا۔یہاں تک بعض مقالے بھی اردو کی بجائے ہندی زبان میں پڑھے گئے۔اگر پروگرام کے منتظمین اردو زبان سے ناواقف تھے تو انھیں اردو یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے مدد لینی چاہئے تھی، مگر افسوس شعبہ اردو کو بھی اس میں شریک نہیں کیا گیا۔
سبھی جانتے ہیں کہ حیدرآباد میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی اس مقصد سے قایم کی گئی تھی کہ وہاں سے اردو زبان کے نئے سوتے پھوٹیں گے اور اس کو فروغ حاصل ہوگا، لیکن ہمیں یہ جان کر بے حد تکلیف ہوئی کہ اردویونیورسٹی کا بیشترتدریسی عملہ اردو سے ناواقف ہے۔ ہماری سمجھ میں نہیں آیا کہ جن لوگوں کی اردوزبان پرگرفت اتنی کمزور ہے، اردو یونیورسٹی میں ان کی تقرری کیسے عمل میں آئی؟کیا اردو یونیورسٹی کے کارپردازوں نے تقرریاں کرتے وقت اس بات کو ذہن میں نہیں رکھا تھا کہ اردو زبان اور ثقافت کے فروغ کے لیے قایم کی جارہی اردو یونیورسٹی میں ان ہی لوگوں کا تقرر ہونا چاہئے جو اپنے مضمون کے ساتھ ساتھ اردو بھی مہارت رکھتے ہوں۔یہی وجہ ہے کہ پچھلے وائس چانسلر ڈاکٹرمحمد اسلم پرویز نے باقاعدہ یہاں کے عملہ کو اردو سکھانے کا بندوبست کیا تھا، لیکن موجودہ وائس چانسلر کے دور میں ایسی کوئی کوشش ابھی تک نہیں کی گئی ہے۔حیرت انگیزبات یہ بھی ہے کہ اردو یونیورسٹی میں نصابی کتابیں تک اردو میں دستیاب نہیں ہیں۔مجموعی طورپر اردو یونیورسٹی میں اردو صحافت کے دوسوسال پورے ہونے کا جشن نہ صرف یہ کہ اپنا مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہا بلکہ لوگوں کو یہ بھی معلوم ہوا کہ اردوزبان کی بقاء اور ترویج کے لیے قایم کی گئی اس یونیورسٹی کے اساتذہ کے اعصاب پر انگریزی زبان اور اس کی تہذیب بری طرح سوار ہے اور وہ اردو کو فروغ دینے کی بجائے انگریزی کی ترویج واشاعت میں مصروف ہے۔