بھارت کی جمہوریت کے لیے سپریم کورٹ آخری امید
برائے اشاعت
بھارت کی جمہوریت کے لئےسپریم کورٹ آخری امیدمشرف شمسیب
جس طرح سے سپریم کورٹ چیف جسٹس ڈی وائی چنڈرچور متحرک نظر آرہے ہیں اور ایک کے بعد ایک شنوائی میں سرکاری دباؤ میں نہ
کر معاملے کی میریٹ پر کام کرتے نظر آ رہے ہیں اس سے مودی سرکار گھبرا چکی ہے ۔مودی سرکار کسی بھی قیمت پر اپنی سرکار اگلے چناؤ میں بھی بنائے رکھنا چاہتی ہے ۔لیکن جس طرح سے مرکزی سرکار کے خلاف پورے ملک میں ماحول بنتا جا رہا ہے اور ایسے میں صاف شفاف الیکشن ہو جاتا ہے تو 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں مودی سرکار اکثریت حاصل کرے گی اس میں شبہ ہے
۔سپریم کورٹ نے موجودہ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری میں جس جلد بازی سے کام لیا اس پر سوال اٹھاتے ہوئے الیکشن کمشنر کی تقرری کے لئے ایک پینل جس میں وزیر اعظم
چیف جسٹس آف انڈیا اور لوک سبھا میں حزب اختلاف کے رہنماء کی شمولیت ضروری بتایا اس طرح کا حکم سپریم کورٹ نے صادر کیا ۔
مہاراشٹر میں مہاوکاس اگاڑی کی حکومت کو جس طرح ختم کیا گیا اس پر چیف جسٹس کی قیادت میں ایک آئینی بینچ شنوائی کر رہی ہے
ر اس شنوائی کے دوران اس وقت کے گورنر کی جانب دارانہ کاروائی پر سوال اٹھا رہے ہیں ۔اُمید کی جا رہی اس معاملے میں بھی فیصلہ ادھو ٹھاکرے کے حق میں جائے گا اور اُنکی شیو سینا اُنھیں مل جائےگی۔سپریم کورٹ نے هنڈن برگ کی رپورٹ معاملے میں ایک کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا تو حکومت نے کمیٹی میں کون کون سے نام شامل ہونگے
اُن نام کو ایک بند لفافہ میں کورٹ کو دینے کی کوشش کی جسے چیف جسٹس نے صاف لینے سے انکار کر دیا ۔ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ یہاں اب بند لفافہ کلچر نہیں چلے گا ۔چیف جسٹس چندر چوڑ نومبر 2024 تک اپنے عہدے پر رہیں گے
۔اس سال کئی ریاستوں کے اسمبلی چناؤ ہیں اور 2024 کے مئی میں لوک سبھا کا چناؤ ہونے ہیں ۔ابھی جمّوں کشمیر کا 370 کا معاملہ بھی سپریم کورٹ میں التواء میں ہے اور اس معاملے میں بھی شنوائی ہونی ہے۔اس طرح کئی اہم معاملے سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں
۔ان معاملوں میں اگر فیصلہ میریٹ کی بنیاد پر ہوا تو حکومت کو منہ کی کھانی پڑےگی۔لیکن مودی سرکار کے کام کرنے کا اب تک كا طریقہ کار رہا ہے کہ
اس سرکار کو کسی بھی ادارے کی جانب سے نہ سننے کی عادت نہیں رہی ہے۔مودی سرکار جو بھی فیصلہ کرے اس پر متعلقہ ادارہ ٹھپہ چسپاں کر دے۔لیکن موجودہ چیف جسٹس کو قابو میں کرنا فی الحال سرکار کے لئے مشکل نظر آ رہا ہے
اسی لیے ججوں کو ڈرانے کے لیے ایک قانون بنایا جا رہا ہے کہ جج کے یہاں بھی جانچ ایجنسیاں چھاپہ مار سکتی ہیں۔لیکن اس سے بہت کچھ حل نہیں ہوگا لیکن
نچلی عدالت کے جج ضرور ڈر جائیں گے ۔لیکن مودی اور امیت شاہ کسی بھی حالت میں حکومت اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے اور اگر 2024 جیتنے میں سپریم کورٹ رکاوٹ بنتی ہے تو اسرائیل کی طرح سپریم کورٹ کو قابو میں کرنے کے لئے
کی پارلیمنٹ میں بھی ایک قانون بنا دیا جائے گا ۔ لیکِن بھارت کی پارلیمنٹ اسرائیل کی پارلیمنٹ نہیں ہے ۔کیونکہ بھارت کی سپریم کورٹ کو یہ حق حاصل ہے کہ پارلیمنٹ میں بنا قانون آئین
کے مطابق ہے یا نہیں اس کی جانچ کرتا ہے ۔جس طرح سے کالجیئم کو ختم کرکے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کی تقرری کے لئے ایک قانون بھارت کی پارلیمنٹ میں بنایا گیا تھا
سپریم کورٹ نے رد کر دیا تھا ۔ہاں آنے والے دنوں میں اگر سپریم کورٹ سرکار کی منشاء کے خلاف فیصلہ دیتی رہی تو ججوں کے رشتےداروں کے خلاف جانچ ایجنسیوں کی کاروائی ہو سکتی ہے ۔حالانکہ یہ بھی مشکل ہے
کیونکہ جانچ ایجنسیوں کی مسلسل یک طرفہ کاروائی کا معاملہ بھی سپریم کورٹ پہنچ چکا ہے ۔لیکن یہ طے ہے کہ چیف جسٹس کی کمزور رگ کو ضرور ڈھونڈا جا رہا ہوگا لیکن
ملک کے عوام کی بھلائی اسی میں ہے کہ عدلیہ میریٹ پر فیصلہ دیں اور کسی طرح کی لالچ اور دباؤ میں فیصلہ نہ کرے تبھی ملک میں قانون کی حکومت ہوگی اور جمہوریت باقی رہے گا
۔بھارت میں اسرائیل کی طرح سپریم کورٹ کی آزادانہ حیثیت ختم کر دی گئی تو اس دن نہ صرف ملک سے جمہوریت ختم ہو جائے گی بلکہ ملک کا بیڑہ غرق ہو جائے گا ۔
اس لیے اس ملک کی عوام کے لئے سپریم کورٹ ٹمٹماتی اُمید ہے۔دیکھتے ہیں کہ یہ اُمید لو بن کر جلتی ہے يا آنے والے دنوں یہ بجھ جاتی ہے ۔
میرا روڈ ،ممبئی موبائل 9322674787