متنازع موضوع پر مذہبی قائدین آپس میں بات کیوں نہیں کرتے
متنازع موضوع پر مذہبی قائدین آپس میں بات کیوں نہیں کرتے ؟
مشرف شمسی
مسلمانوں کے درمیان جو موضوع نہیں ہوتا ہے اس پر خوب بحث ہوتی ہے ۔اگر موضوع ہے بھی تو جسے بحث کرنی چاہیے وہ طبقہ بحث سے غائب رہتا ہے ۔اسلئے بحث کا کوئی نتیجہ نہ نکلنا ہے اور نہ نکلتا ہے ۔
عید میلاالنبی اور بارہ وفات پر خوب سوشل میڈیا پر بحث ہوئی ۔ایک نظریہ بارہ ربیع الاول کو محمد صاحب کی ولادت کے طور پر مناتے نظر آتے ہیں اور دوسرا نظریہ اس تاریخ کو یوم ولادت کے بجائے بارہ وفات کھ رہے ہیں یعنی اس دن حضور انتقال فرمائے تھے۔دوسرا نظریہ کا کہنا ہے کہ چونکہ آپ کی پیدائش کی ایک تاریخ پر تاریخ متّفق نہیں ہے اسلئے یوم ولادت بارہ ربیع الاول کو کیسے منایا جا سکتا ہے ۔
حالانکہ اس بات پر دونوں مسلکوں کے قائدین کی جانب سے منانے اور نہ منانے پر بات چیت کا آغاز ہونی چاہئے تاکہ اس بابت کچھ بات آگے بڑھ سکے لیکن دونوں جانب کے قائدین اپنے اپنے کام میں لگے ہیں ہاں دونوں جانب کی مسالک کے مساجد میں جمعہ کے واعظ میں مقتدیوں کو اپنے اپنے نظریے پر قائم رہنے کی تلقین کیا جاتا رہا ۔بے شک قائدین اسلام اور دین کو بچانے کے لئے مخلص ہیں تو آپس میں مل بیٹھیں اور قرآن اور حدیث کی ٹھوس دلائل کی بنیاد پر ایک راستہ نکالیں تاکہ عام مسلمانوں کے درمیان اس طرح کا تفرقہ پیدا نہیں ہو کہ ایک دوسرے کو مسلمان ہی نہ سمجھیں۔
مختلف مذہبی مسلم قائدین کا آپس میں متنازع موضوع پر اجتہاد یا گفتگو نہیں کرنا عام مسلمانوں میں ایک دوسرے مسلک کے درمیان نفرت پیدا کر رہا ہے اور ایک دوسرے کو مسلمان ہی نہیں سمجھ رہے ہیں ۔پھر بھی کوئی بھی مسلک کا ماننے والا ہو اس سے پوچھیں کہ بھارت میں مسلمانوں کی تعداد کتنی ہے تو وہ کہے گا بیس کروڑ اور پھر وہی مسلمان کہے گا کہ وہ فلاں مسلک کو ماننے والا ہے وہ مسلمان نہیں ہے ۔آخر اس ملک میں ایک مسلک جس کی تعداد سب سے زیادہ ہے اس کی آبادی زیادہ سے زیادہ کتنی ہوگی؟ اسے آپ خود سمجھ لیں ۔
مختلف مذہبی قائدین کو سیاست سے فائدہ اٹھانے ہو تو سبھی ایک اسٹیج پر نظر آ جائیں گے لیکن مسلمانوں کے کسی ایک متنازع مسئلے پر مذاکرات نہیں کر سکتے ہیں۔ضروری نہیں ہے کہ اس مسئلے پر مذہبی قائدین کے درمیان اتفاق ہو جائے لیکن ایک مشترکہ پیغام دیا ہی جا سکتا ہے ۔تاکہ عام مسلمانوں کے درمیان گونا گوں کی حالت نہیں رہے اور سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے سے بچ سکیں۔
تعجب تو اس بات کی ہے کہ جو لوگ عید میلاد النبی کے نام پر جلوس نکالے جانے پر تنقید کرنے میں پیش پیش ہیں اسی نظریہ کو ماننے والے کانپور میں جلوس محمدی نکالتے ہیں اور اس کی قیادت کرتے ہیں ۔یہ جلوس محمدی کانپور میں بہت سالوں سے نکلتا آ رہا ہے ۔ایک معتبر شخص نے خبر دی ہے کہ اس سال لکھنؤ میں حبِ صحابہ نکالا گیا ہے ۔حالانکہ اس خبر کی تصدیق اپنے تئیں نہیں کرتا ہوں۔
جس طرح سے بھارت میں مسلمان ایک عدد سچّا ،ایماندار اور دور اندیش سیاسی قیادت سے محروم ہے ٹھیک اسی طرح مذہبی قائدین ایک چھوٹے سے مسئلے پر بھی آپس میں سر جوڑ کر بیٹھنا نہیں چاہتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ عام مسلمان مذہب سے دور ہوتا جا رہا ہے اور اسلام کو سمجھنے میں کنفیوز ہو رہا ہے ۔
مسلمانوں کے زیادہ تر مسالک اسلام کی بنیادی عقائد پر اتفاق رکھتے ہیں ۔اسلام اتنا عظیم الشان اور وسیع علاقے تک پھیلا مذہب ہے کہ اس کے رسم و رواج پ
ر اختلاف ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے ۔لیکن مسالک کے قائدین واقعی دل میں اللہ کا خوف رکھ کر کسی بھی مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہتے ہیں تو حل آسانی سے نکل جائےگا ورنہ وہ دن بھی دور نہیں ہے کہ اس ملک کا مسلمان اسلام کی بنیادی عقائد سے بہت دور نکل جائےگا۔
میرا روڈ،،ممبئی
موبائیل 9322674787