جے پور ممبئی ایکسپریس ٹرین میں گولی باری
جے پور ممبئی ایکسپریس ٹرین میں گولی باری محرکات اور اندیشے
بھارتی ریلوے کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ خود حفاظتی دستے کے ایک فرد نے چلتی ٹرین کے اندر، ٤/ سواروں کا قتل کر دیا۔
در اصل، کل جے پور- ممبئی سینٹرل سوپر فاسٹ ایکسپریس میں، چیتن کمار سنگھ نامی آر پی ایف (ریلوے پروٹیکشن فورس) کانسٹیبل نے پہلے اپنے ایک سینیئر، اے ایس آئی (اسسٹنٹ سب انسپکٹر)، ٹیکا رام مینا کو اپنی رائفل سے گولی ماری۔ پھر تین اور لوگوں کو چن چن کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔
اور یہ تینوں مسلمان (عبد القادر، اصغر علی اور سید سیف الدین) تھے۔ واضح رہے کہ سنگھ نے پہلا اور دوسرا قتل، بی – ٥/ میں کیا۔
اس کے بعد پینٹری کار میں ایک کو اپنی نفرت کی نذر کیا۔ اور بالآخر ایس – ٦/ میں ایک اور کو اپنی گولی کا نشانہ بنایا۔
یہ کہا جا رہا کہ چیتن سنگھ کی طبیعت ناساز تھی۔ اس نے اپنی ڈیوٹی ختم ہونے سے چند گھنٹے قبل ہی، چھٹی کے لیے گزارش بھی کی تھی۔
لیکن اس سے کہا گیا کہ وہ اپنی شفٹ مکمل کرے۔ جس پر وہ ناراض تھا۔ اور اس نے اپنے سینیئر کو گولی مار دی۔
ہو سکتا ہے یہ درست ہو۔ اگر واقعی ایسا کچھ تھا تو کمار کو چھٹی ملنا چاہیے تھی۔ مگر کیا اس سے چیتن کا گناہ چھوٹا ہو جاے گا؟
ہرگز نہیں۔ اور اگر یہ بات مان بھی لی جاے تو داڑھی دیکھ شناخت کر کے تین مسلمانوں کو اس نے کیوں قتل کیا؟
بات یہ ہے کہ بھارتی میڈیا پچھلے نو سالوں سے روز بروز ٹی وی چینلوں پر مسلمانوں کے خلاف نفرت کی جو بیج بو رہا، اب اس کی فصل پک کر تیار ہے۔
اور آے دن اس کی کٹائی کے مناظر ہم دیکھتے رہتے ہیں۔ اور یہ خود اس ویڈیو سے بھی واضح ہے جس میں قتل کے بعد ایک لاش کے پاس کھڑے ہو کر چیتن کہہ رہا: “پاکستان سے آپریٹ ہوے ہیں۔
تمہاری میڈیا، یہی دیش کی میڈیا یہ خبریں دکھا رہی ہے۔ پتا چل رہا ہے ان کو، سب پتہ چل رہا ہے۔ ان کے آقا ہیں وہاں۔ اگر ہندوستان میں رہنا ہے، ووٹ دینا ہے، تو میں کہتا ہوں مودی اور یوگی یہ دو ہیں۔”
اگر چیتن کی جسمانی یا دماغی صحت میں گڑبڑی ہوتی تو شاید چار قتل کے بعد زنجیر کھینچ ٹرین روک کر، وہ بھاگنے کی کوشش نہیں
کرتا۔ یہ صحیح ہے کہ اسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ مگر مذکورہ ویڈیو میں اس نے جس انداز سے مودی اور یوگی کا نام لے کر ان کی حمایت کی ہے، اس سے لگ رہا کہ وہ کسی نہ کسی طرح دیر سویر رہا ہو ہی جاے گا۔
اس کی ہر ممکن کوشش کی جاے گی۔ اور کچھ بعید نہیں کہ مستقبل قریب میں چیتن بی جے پی میں شامل بھی ہو جاے۔
اسی کہانی کو بدلے ہوے کردار کے ساتھ فرض کیجیے۔ قاتل چیتن کمار کی جگہ کوئی مسلم کانسٹیبل ہوتا اور مقتولین اکثریتی طبقے سے ہوتے، تب کیا ہوتا؟
فوراً سے پیشتر قاتل پر یو اے پی اے جیسا سخت قانون لگا دیا جاتا؛ نیتاؤں کے مذمتی اور تعزیتی پیغامات کی باڑھ آ جاتی؛ ٹی وی چینلوں پر گرما گرم بحثیں ہو رہی ہوتیں اور مقتولین کے ورثا کو موٹی موٹی رقم دی جاتی۔
مزید، کسی دہشت گرد تنظیم سے قاتل کا تار جوڑنے کی ہر ممکن سعی کی جاتی۔
یہ واقعہ ریلوے مسافروں اور بالخصوص مسلمانوں میں خوف و ہراس پیدا کرنے کا ممکنہ طور پر باعث بنے گا۔
حفاظتی اہل کاروں کے تئیں ہے اطمینانی کو بڑھاوا دے گا۔ مزید، سب پر عیاں ہے کہ ٢٠١٥ء/ میں، دادری میں محمد اخلاق کی لنچنگ کے بعد، کس طرح آہستہ آہستہ پورے
ملک میں اس قسم کے واقعات بڑھتے چلے گئے۔ اللہ نہ کرے کہ ٹرین میں گولی باری کے اس واقعے کے ساتھ بھی نحوست کا سلسلہ شروع ہو۔ اس کے لیے ضروری ہوگا کہ چیتن کو عبرت ناک سزا دی جاے گی۔ کیا موجودہ حکومت ایسا ہونے دے گی؟
✍️ محمدحیدررضا