کیا قانون سب کے لیے برابر ہے کوئی بتائے ذرا

Spread the love

کیا قانون سب کے لیے برابر ہے کوئی بتائے ذرا ؟

جیسے رات و دن کی گردش دنیا میں چھا جانے والے اندھیرے و اجالے کا سبب بنتی ہے، جیسے موسم کی تبدیلی ماحول کو متاثر اور حالات کو بدل دینے کا اہم ذریعہ ہوتی ہے، جیسے بھوک و پیاس کے وقت طبیعت کو کھانے و پانی کی طلب ہوتی ہے، جیسے بارش کے نتیجے زمین سے پھل، پھول اور غلہ و چارا کا پیدا ہونا لازمی ہوتا ہے؛ ویسے ہی ٹھیک ہمارا یہ ملک ہے، جہاں ہرآن و ہر لمحات عدالتی فیصلے اور حکومت میں شامل افراد کے نظریات بدلتے رہتے ہیں۔

“قانون سب کےلیے برابر ہے” کو جس نے بھی دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ کہا ہے، اس نے بالکل سچ کہا ہے، اس لیے کہ ہمارے یہاں تو قانون اپنا کام ہی اس وقت شروع کرتا ہے، جب تک ملزم و دوشی کے درمیان مذہب و برادری اور علاقہ و پیشہ کی صحیح شناخت قائم نہ کر لی جائے؛ چنانچہ ملزم اگر اکثریتی طبقہ اور اس کی اعلی ذات سے تعلق رکھنے والا ہے تو پھر ایسے مجرم کو بےقصور و بےگناہی کا سرٹیفکیٹ بھی ملنا کوئی مشکل و اہم کام نہیں، لیکن اگر عدالت میں پیش کردہ شخص کا تعلق اقلیتی طبقات سے ہو تو پھر اسے ملزم سے مجرم بنانے اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے پر مجبور کر دینے میں دیر نہیں لگائی جاتی۔

ایسے میں کسی نے اگر قانون کی اس اصطلاح کی یہ مذکورہ توضیح و تشریح کی ہے تو بجا کی ہے۔

فیصلوں کی یہ تبدیلی کبھی تو دولت و ثروت میں مدہوش رہنے والوں کی بےجا مداخلت سے اور کبھی لیڈر و راہنما کی دبش اور رعب و دبدبہ کی بدولت ہوتی ہے۔ تبدیلی کے اس دوران زانی و قاتل اور رہزن و مافیا کی تمام تر تمیز مٹا کر انہیں قید و بند سے آزاد کر دیا جاتا ہے اور باہر آتے ہی ان کے گلے میں پھول مالا ڈال کر ان کی باعزت رہائی پر جشن منایا جاتا ہے

 

ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، اور انہیں مبارکباد پیش کی جاتی ہے۔ اور ایسا سب کچھ اس ملک میں ہوتا ہے، جہاں آزادی کا ‘امرت مہوتسو’ منایا جاتا ہے اور ‘ہر ہاتھ ترنگا ہر گھر ترنگا’ لہرانے کی تاکید و تائید کی جاتی ہے، جہاں ‘بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ’ کا پُرفریب نعرہ دے کر اپنے لیے حکومت و اقتدار کا راستہ سہل و ہموار کیا جاتا ہے، جہاں وزیر اعظم تاریخی جشن اور 76/ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے ‘ناری شکتی’ اور خواتین کے تحفظ جیسے عنوان سے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہیں اور ملک کے عوام سے اپنے خطاب میں کہتے ہیں کہ:

“ملک کی ترقی عورت کو عزت اور اس کو تحفظ دئے بغیر ممکن نہیں، ساتھ ہی ہمارے وزیراعظم ملک کے عوام سے یہ عہد و پیمان لیتے ہیں کہ ہمیں چاہئے کہ ہم ملک کو ترقی یافتہ بنانے کےلیے عورت کے مقام و مرتبہ کو پہچانیں اور ان کے ساتھ عزت و احترام کے ساتھ پیش آئیں، دوران گفتگو ہمارے وزیراعظم مزید یہ اور کہتے ہیں کہ: ہم کوئی بھی ایسا کام نہیں کریں گے جس سے خواتین کی تذلیل و تحقیر لازم آتی ہو، ان کی شان میں کمی واقع ہوتی ہو یا جس سے ان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہو”۔ (15/اگست2022)

لیکن جب سے ملک کا اقتدار کانگریس کے ہاتھوں سے منتقل ہو کر ایک خاص ذہن اور سوچ کی حامل تنظیم اور اس سے وابستہ افراد کے ہاتھوں میں آیا ہے، تب سے یہ دعوے اور نعرے محض کہنے سننے تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں؛ حقیقت و صداقت سے ان کا دور دور تک بھی واسطہ اور رابطہ نہیں ہے۔ خود ہمارے ملک کے وزیراعظم اور ان کی پوری ٹیم کے کہنے اور کرنے میں ہمیشہ فرق و تضاد بھرا رہتا ہے، اس لیے کہ برسر اقتدار حکمراں جماعت کے اہل کار و افسران کہتے کچھ ہیں اور بعد میں ہوتا کچھ نظر آتا ہے۔

اب دیکھ لیجئے! کتنی صداقت و سچائی ہے خواتین سے متعلق ذکر کردہ باتوں میں جن کا اظہار ہمارے وزیراعظم صاحب نے پندرہ اگست کو لال قلعہ کی فصیل کیا تھا اور عوام کو ان باتوں کے تئیں حساس و سنجیدہ رہنے کا مکلف و عادی رہنے کو بولا تھا۔ کہاں گئی خواتین کی عزت و تکریم اور کہاں گئے ترقی کے وہ ادھورے خواب جو ناری شکتی کے بغیر پورے نہیں ہو سکتے؟ کیا ہمارا یہ ملک ایسے ہی ترقی کی منازل طے کر لےگا اور یوں ہی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں ہم شامل ہو جائیں گے

جہاں جشن آزادی اور آزادی کا امرت مہوتسو (انوکھی خوشی) مناتے ہی زانیوں کو رہا کر دیا جاتا ہو اور ایک مظلوم و بےکس عورت کے درندہ صفت عمر قید کی سزا یافتہ مجرموں اور گناہ گاروں کو آزاد کرکے پوری دنیا کے انصاف پسندوں اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو اچنبھے میں ڈال دیا جاتا ہو؟

عالی مقام وزیراعظم صاحب! آپ کی اس سال کی تقریر میں جس وقت مجاہدین آزادی کی فہرست میں عورتوں کا شمار کرایا جا رہا تھا اور یہ کہا جا رہا تھا کہ ہندوستان کی جنگ آزادی میں عورتوں کا کردار بھی بڑا پر جوش و شاندار رہا ہے؛ اس کو سن کر بہتوں کے دلوں میں امید کی کرن روشن ہوئی تھی اور صنف نازک کی طرف سے یہ تصور و تاثرات ظاہر ہو رہے تھے

کہ اب ہماری ترقی و خوشحالی کی طرف بھی دھیان دیا جائےگا، خواہ معاملہ اسکول و کالج آنے والی باحجاب طالبات سے وابستہ ہو یا راہ چلتی تنہا لڑکی اور روزگار کی تلاش میں نکلنے والی ملازمہ سے متعلق ہو یا پھر کھیت کھلیان میں کام کرنے والی مزدور پیشہ عورتیں ہوں

؛ سبھی کو عزت و احترام کے ساتھ جینے اور آگے بڑھنے کا حق ہوگا اور کوئی بھی ان کی راہ روکنے اور ترقی کی راہ میں آڑے نہیں آئےگا۔ نیز اس دوران جو آنکھ بھی ان کی طرف اٹھےگی یا ترقی کی راہ میں جو ذات بھی حائل و حجاب ہوگی؛ ان کو نہ صرف سزا دی جائےگی بلکہ ان کا انجام بھی عبرت ناک ہوگا اور سماج میں خواتین کے تعلق سے جو بھی گھناؤنی حرکات پائی جاتی ہیں، ان سے چھٹکارہ دلایا جائےگا۔

مگر افسوس! بلقیس جہاں کے دوشیوں اور سزا یافتہ مجرموں کی باعزت رہائی کے بعد یہ سب خواب و خیال کافور ہو گئے اور امید کی جو کرن روشن ہوتی نظر آئی تھی، وہ یکباری دم توڑتی نظر آ رہی ہے۔ انصاف اور برابری ہر شہری کا بنیادی حق ہے، ان سے کسی کو محروم کرنا سب سے بڑا ظلم اور پاپ ہے۔

عدالتیں ہوں یا حکومتی ادارے؛ ان کو چاہئے کہ وہ مذہب و ملت کی شناخت کئے بغیر لوگوں کے ساتھ انصاف و برابری کا پیمانہ قائم کریں اور اکثریت و اقلیت کی تفریق مٹا کر سبھی کو ایک درجہ کا شہری تصور کریں، خاطی کو اس کے کئے کی سزا دئے بغیر مظلوم کی داد رسی اور اس کی حمایت نہیں کیا جاسکتی۔ ہماری عدلیہ کی پہچان ہی ترازو کے نشان سے ہے، جس کے دونوں پلڑے ہمسر و برابری کا سبق اور ججز حضرات کو کوئی بھی فیصلہ جاری کرتے وقت عدل و انصاف کی یاد دہانی کراتے ہیں۔

مظلوم کی آہیں اور بےکس و بےسہارا افراد کی سسکیاں بھی اگر عدالتی احاطے میں قائم انصاف کے اس ترازو کی طرف ہمیں مائل و آمادہ نہیں کر رہا ہے تو اس کا صاف مطلب یہی ہوتا ہے کہ: “قانون سب کےلیے برابر ہے” یہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے؛ بلکہ قانون ایک پرندہ ہے، جو امیر و رئیس کے اشاروں پر ججز حضرات کے کاندھوں پر بیٹھ جاتا ہے اور مختلف چیزوں کا لالچ و جھانسہ دے کر اپنے حق میں کرا لیا جاتا ہے، ایسے میں قانون کہاں سب کےلیے برابر ہوا، کوئی بتائے ذرا؟

محمدقاسم ٹانڈؔوی

09319019005

(mdqasimtandvi@gmail.com)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *