مصباحی صاحب کا پیغام ہوش مند طلبا و علماے کرام کے نام
مصباحی صاحب کا پیغام ہوش مند طلبا و علماے کرام کے نام
علامہ محمد احمد مصباحی صاحب ناظم تعلیمات جامعہ اشرفیہ و سابق صدر المدرسین الجامعۃ الاشرفیہ کی ذات بابرکات محتاج تعارف نہیں اسی لیے ہم صرف حضرت ممدوح دام ظلہ العالی کے مضامین سے کچھ یہاں قلم بند کرتے ہیں جو آب زریں سے لکھے جانے کے قابل ہے، حضرت فرماتے ہیں: باشعور اور ہوش مند طلبا سے عرض یہ ہے کہ ان کو اپنی کتب پر عبور کے ساتھ کچھ اور ہمت کرنے کی ضرورت ہے مثلاً
(١) جن مدارس کے نصاب میں اب تک ادب عربی یا انگریزی میں سے ایک ہی لازم ہے دونوں کو اس خیال سے لازم نہ کیا گیا کہ طلبہ پر بار زیادہ ہو جائے گا اور وہ سنبھال نہ سکیں گے ، مگر دونوں کی ضرورت اپنی جگہ مسلم ہے ، کیوں کہ جو طلبہ عربی ادب کا نصاب مکمل نہیں پڑھتے وہ حدیث، سیرت و تاریخ اور دوسرے فنون کی بہت سی کتابوں کے بہت سے مقامات حل نہیں کر پاتے یا بہت مشکل سے سمجھ پاتے ہیں، جب کہ مکمل ادب پڑھے ہوئے طلبہ اول نظر میں انہیں سمجھ لیتے ہیں۔
دوسری طرف جو انگریزی نصاب مکمل نہیں کرتے انگریزی کتب و رسائل سے استفادہ سے قاصر رہتے ہیں، قاصر تو وہ بھی رہتے ہیں جو نصاب ہی کی حد تک محدود رہتے ہیں اور مطالعہ کے ذریعہ علم زبان کے فروغ کی طرف متوجہ نہیں ہوتے لیکن ظاہر ہے کہ جنہوں نے انگلش بک ٣/ کے آگے کچھ دیکھا ہی نہ ہو زیادہ عاجز ہوں گے۔
اس لیے باہمت طلبہ کو میرا مشورہ یہ ہے کہ درس میں اگرچہ کسی ایک زبان کو رکھیں مگر خارجی کسی بھی ذریعہ سے وہ دوسری زبان کی بھی تکمیل کریں اور دونوں زبانوں سے متعلق غیر نصابی کتب و رسائل کثرت سے دیکھیں اور لکھنے اور بولنے کی بھی خوب مشق کریں اس طرح وہ بہت کارآمد انسان بن سکتے ہیں۔
(٢) عالم دین سے لوگ اپنے روز مرہ کے مسائل ضرور پوچھتے ہیں اور اسے خود اپنے عمل کے لیے بھی مسائل سے آگاہی ضروری ہے اس لیے ہر طالب ہے علم پر فرض ہے کہ مکمل “بہار شریعت” کا مطالعہ ضرور کرے اور بار بار مراجعت کرتا رہے تاکہ ضروری مسائل ازبر رہیں۔
اسی طرح اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کی کلامی و فقہی رسائل ضرور دیکھے ان میں وہ علمی خزانے ہیں جو کہیں اور شاید ہی دستیاب ہوں۔ میں دیکھتا ہوں کہ جن لوگوں نے اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہٗ کی کتابیں غور سے نہیں پڑھی ہیں ساری درسیات پڑھنے پڑھانے کے بعد بھی بہت سے مسائل میں ان کی سطحیت بالکل عیاں ہوتی ہے۔
(٣) تجوید و قراءت بقدر ضرورت کم از کم صحت مخارج کے ساتھ قرآن کی قراءت ہر ایک پر فرض ہے اس سے کوئی طالب علم ہرگز عاری نہ ہو۔
(٤) حالات زمانہ سے آگاہی ۔ مخالفین کی حرکتوں سے واقفیت کے لیے مختلف کتب و رسائل کا مطالعہ کرتا رہے۔ سیرت، تاریخ، حساب ، جغرافیہ وغیرہ کی بنیادی تعلیم جو ابتدائی درجات میں شامل ہے، مطالعہ کے ذریعہ ان میں اور وسعت پیدا کرے۔
(٥)کتب حدیث کی ایک محدود مقدار داخل نصاب ہے مطالعہ میں کم از کم پوری “مشکاۃ المصابیح ” ضرور دیکھے
(٦) تدریس ، تقریر ، مناظرہ ہر ایک کا ملکہ پیدا کرے تاکہ وقت ضرورت عاجز نہ رہے اور اس کا دائرہ کار بھی وسیع ہو۔ بعد میں اگر سارے کام بخوبی نبھا لیتا ہے تو بہت خوب ورنہ جیسی ضرورت ہوگی وہ ایسا کر سکے گا۔
(٧)تقریر و تحریر کے ذریعہ جو بھی بیان ہو اس کی اچھی طرح جانچ کر لی جائے کہ وہ صحیح اور مستند ہے اس کا اصل اور قوی مآخذ ذکر میں نہ آئے تو بھی معلوم و محفوظ ضرور ہو ورنہ نقل در نقل میں بہت سی ایسی باتیں بھی در آتی ہیں جو منطقی و عقلی اور شرعی اعتبار سے غلط ہیں یا غیر معتبر اور ناقابل عمل بیان ہیں، تنقیدی و تحقیقی نظر پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔
(٨) زبان و بیان کی غلطیوں سے بھی اپنی تحریر و تقریر کو ہر طرح محفوظ رکھنے کی کوشش کریں ۔ “میں نے آیت پڑھا، تم نے حدیث سنا ، خدا کے احکامات ، اس امر کی وجوہات، رسومات، و غیرہ جیسی تراکیب و الفاظ سے بھی بچنا چاہیے۔ معطوف، معطوف علیہ دونوں عربی یا فارسی یا ایک عربی اور ایک فارسی ہو تو حرف عطف”و” درست ہے مگر کوئی ایک ہندی یا انگریزی ہو تو ہاں “و” کے بجائے ” اور ” ہونا چاہیے۔ اس طرح کی اور بھی چیزیں ہیں جو اس دور کے معروف قلم کاروں کے یہاں بھی در آئی ہیں۔ شاید کہ بروقت ان کی اصلاح کرنے والا کوئی نہ ملا ۔ مبتدیوں کی غلطیاں تو بہت ہیں۔ انہیں اساتذہ سے معلوم کرنا چاہیے۔
بولنے اور لکھنے سے پہلے اپنے سامع و قاری کو متعین کریں اور وہ جس سطح کے ہوں اسی سطح کی گفتگو کریں اور زبان میں بھی اس کی رعایت کریں، مخلوط ہوں تو دونوں کی رعایت کریں۔ اخبار اور عوامی رسائل کے لیے زبان بہت آسان اور عام فہم ہونی چاہیے، ادبی رسائل کے لیے ادبی اور تحقیقی۔ مگر مشکل الفاظ، پیچیدہ تراکیب اور خفی استعارات و کنایات سے احتراز ہر جگہ ضروری ہے۔
(٩) باہمی نزاعات سے دور رہیں اور کسی جگہ کوئی اختلاف رونما ہو تو اصلاح و مصالحت کی تدبیر کریں ۔ دردمندی اور اخلاص سے کوشش ہوئی تو کام یاب ہو یا ناکام اس کا اجر ان شاءاللہ ضرور حاصل ہوگا۔
(١٠) دوسروں کی تنقیص، جماعت میں کام نہ ہونے کا ماتم اپنی براءت کا اثبات اور دوسروں پر الزام آج کل ایک محبوب مشغلہ بن گیا ہے۔ حالاں کہ اس کا حاصل اپنوں سے بدگمانی اور تضیع اوقات کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ ہوسکے تو خود کچھ کرے یا جو لوگ کر رہے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کریں۔
(١١) طالب علم اپنے افکار و خیالات، کردار و اخلاق، ہمیشہ پاکیزہ و بلند رکھے۔ پست حرکتوں کا خیال آنے پر بھی اپنا محاسبہ کرے۔ دین و سنت کی پابندی اور خدا و رسول کی اطاعت ہی میں دنیا و آخرت کا بھلا جانے، آزادوں کی آسائشوں اور رنگینیوں سے کبھی متاثر و مرعوب نہ ہو ، نہ ہی ان کے حصول کی خاطر اپنے افکار و اخلاق کی دنیا تاراج کرنے کا خیال دل میں لائے، شریعت کی خلاف ورزی کو زہر قاتل یا آتش مہلک جانے، فرائض و واجبات کی پابندی میں عوام سے کمتر ثابت نہ ہو بلکہ آداب و نوافل میں بھی ان کے لئے نمونہ اور مقتدا بنے۔
(١٢) عمرِ انسانی چند روزہ ہے اور کام بے شمار لیکن رب تعالیٰ نے انسان میں قوت واستعداد بے پناہ رکھی ہے، قوت کو فعل کی منزل میں لانے کے لیے جدوجہد درکار ہے، آدمی کو چاہیے کہ خود کو زیادہ سے زیادہ کارآمد بنائے اور کسی بھی بڑے سے بڑے کام کو انجام دینے کی لیاقت اور حوصلہ پیدا کرے، رب تعالیٰ کی نصرت و حمایت کار ساز ہوگی۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اپنی کسی خدمت پر نہ مغرور ہو نہ احساس کمتری کا شکار ہو کر دست کش ہو۔
(١٣)کوئی اہم اقدام کرنا ہو، یا ادارہ یا انجمن بنانی ہو تو لوگوں سے مشاورت ضرور کریں تاکہ بے خبری میں اقدام کے بعد رسوائی یا ناکامی کا سامنا نہ ہو رائے دینے والوں میں کئی طرح کے لوگ ہوں گے۔
اول۔ زیادہ وہ ہوں گے جو آپ کا منصوبہ اور اس کی افادیت سننے کے بعد فوراً داد و تحسین سے نوازیں گے اور اپنی حمایت کا یقین دلائیں گے، یہ وہ لوگ ہوں گے جن کے سامنے صرف ایک رخ ہوگا، مضرت یا مشقت سے وہ نا آشنا ہوں گے۔
دوم۔ کچھ وہ تجربہ کار اور سن رسیدہ لوگ ہوں گے جو کام کی اہمیت، راہ کی دشواری اور آپ کی کم سنی و ناتجربہ کاری دیکھ کر آپ سے بات کرنا بھی مناسب نہ سمجھیں گے اور کسی طرح اپنے سر سے آپ کو ٹالنے کی کوشش کریں گے۔ سوم۔ کچھ وہ ہوں گے جو راہ کی مشکلات اور دشواریاں بتا کر آپ کو اس قدر سراسیمہ کر دیں گے کہ آپ اپنے منصوبہ سے دست بردار ہونے ہی میں ہر طرح کی عافیت محسوس کریں گے۔
چہارم۔ کچھ وہ ہوں گے جو کام کی اہمیت اور افادیت تسلیم کرنے کے ساتھ راہ کی مشکلات اور ان کا مناسب حل بھی بتائیں گے۔ یہی حضرات آپ کے لیےکارآمد ہوں گے جو بڑی مشکل سے ملیں گے۔ سب کی باتیں سننے اور نوٹ کرنے کے بعد آپ اپنے حالات اور اپنے امکانات کا بے لاگ جائزہ لیں۔ اگر مشکلات کو سر کرنے کے ساتھ کامیابی کی توقع راجح اور غالب نظر آئے تو اقدام کریں ورنہ وسائل اور امکانات پر قابو پانے تک ملتوی کریں یا کسی دوسرے رخ، دوسری صورت یا دوسرے کام پر غور کریں کریں۔ جسے آسانی یا دشواری کے ساتھ مکمل کر سکیں۔
اس پر یقین رکھیں کہ انسان حرکت و عمل ہی سے بقائے دوام پاتا ہے ۔ اس لیے خود کچھ کرنے کی صورتیں سوچیں اور عمل میں لائیں۔ دوسروں کا محاسبہ ان پر نقد و تبصرہ اور ان کی تنقیص کا کوئی خاص حاصل نہیں ۔ بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ کوئی شخص تھوڑا بھی دینی کام کر رہا ہے تو اس کی قدر کی جائے، صرف اپنے کام کی قدر اور دوسروں کے کام کی تحقیر ایک مذموم رویہ ہے جس سے بہت سی خرابیاں جنم لیتی ہیں۔
اس بارے میں حافظ ملت حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث مبارک پوری قدس سرہ بانی الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور کی ذات مشعل راہ ہے۔ وہ ہر عامی و عالم کی، جو کوئی ادارہ چلا رہا ہو یا کوئی بھی چھوٹی موٹی دینی علمی خدمت انجام دے رہا ہو، حوصلہ افزائی کرتے، کلمات خیر سے یاد کرتے، غائبانہ بھی اس کا اچھا تذکرہ کرتے جس کے باعث وہ اپنی خدمت میں اور مستعد ہو جاتا، اسے اور ترقی دیتا اور ملت کا فائدہ بہر حال ہوتا۔
(کتاب۔ “مقالات مصباحی”
صفحہ ٢٩٦ تا ٢٩٩
فکری و اصلاحی مضامین
مرتب ۔ محمد توفیق احسن برکاتی مصباحی)