شیخ المشائخ غوث زماں الحاج الشاہ محمد تیغ علی قادری علیہ الرحمہ
سیدی مرشدی شاہ تیغ علیان کی نورانی تربت پہ لاکھوں سلام*شیخ المشائخ غوث زماں الحاج الشاہ محمد تیغ علی قادری علیہ الرحمہ*(تعارف )ولادت اوروطن:شیخ المشائخ حضرت الحاج الشاہ محمد تیغ علی شاہ قادری فریدی مجیبی علیہ الرحمہ کی ولادت باسعادت صوبہ بہار کے ضلع مظفر پور، گوریارہ میں 1300ھ میں /ہوئی۔ تعلیم وتربیت: اپنے آبائی وطن گوریارہ سے متصل ہرپور مچیا میں آپ نے ابتدائی تعلیم مولانا سبحان علی سے حاصل فرمائی جو عربی فارسی میں کافی مہارت رکھتے تھے،بعد از آں چچا جان کے بلاوے پر کلکتہ تشریف لائے اور مدرسہ عالیہ میں داخلہ لیا،فارسی کی متداول کتابیں ختم کرنے کے بعد آپ نے عربی درجات میں داخلہ لیا،ابھی زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ آپ کے سر سے والد کاسایہ اٹھ گیا،اس لیے تعلیمی سلسلہ موقوف کرنا پڑا، چچا اکبر علی نے اپنے آبائی پیشہ کا شتکاری کے کام کی نگرانی کے لیے آپ کو وطن بھیج دیا جہاں آپ کاشتکاری اور کھیتی باڑی کی دیکھ بھال کرتے رہے، کتب بینی اور مطالعہ کا شوق بہت زیادہ تھا اور یہ سلسلہ اخیر عمر تک جاری رہا، معلومات کی اتنی وسعت تھی کہ ہرموضوع پر سیر حاصل گفتگو فرماتے تھے اور سننے والا متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔بیعت وارادت:حضرت ایام کم سنی ہی سے اذکارو وظائف کے بہت پابندتھے بلا ناغہ اور ادووظائف پڑھا کرتے اور ذکر سے محظوظ ہوتے تھے لیکن شدت کے ساتھ شیخ طریقت کی تلاش تھی تاکہ ان کے دامن سے وابستہ ہوکر روحانی پیاس بجھا سکیں،جب آپ ملازمت کے سلسلے میں کلکتہ میں قیام پزید ہوئے انہی دنوں شیخ طریقت حضرت مولانا شاہ محمد سمیع احمد صاحب مونگیری رحمۃ اللہ علیہ کلکتہ تشریف لائے،حضرت تیغ علی کو جب یہ اطلاع ملی کہ اپنے زمانے کے مشہور بزرگ کلکتہ تشریف لائے ہوئے ہیں تو آپ بغرض زیارت ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔جب آپ کی نظر شیخ طریقت پرپڑی تو دل وجان سے ان پر فدا ہوگئے اور ان کے دست حق پرست میں بیعت ہوکر سلسلہ میں داخل ہوگئے، شیخ نے حکم فرمایا کہ روزانہ بعد نماز مغرب حلقہ میں شامل ہونے کے لیے آیا کرو،چنانچہ آپ روز شیخ کی بارگاہ میں حاضر ی دیتے رہے،شیخ طریقت کی عمر شریف (۰۷)سے متجاوز ہوچکی تھی اخیر عمر میں حضرت تیغ علی شاہ علیہ الرحمہ نے بیعت کی سعادت حاصل کی تھی اس لیے زیادہ دنوں تک شیخ کی خدمت کا موقع نہ مل سکا، کلکتہ سے اپنے وطن مونگیر لوٹتے وقت شیخ طریقت نے ارشاد فرمایا کہ یہ آخر ی ملاقات ہے اب آئندہ ہم نہیں مل سکیں گے یہ کہہ کر حضرت اشکبار ہوگئے، حضرت تیغ علی بھی روپڑے اس پر آپ نے دست شفقت ان کے سر پر پھیرا اور فرمایا گھبراؤ نہیں اطمینان رکھو،پھر اپنے خلیفہ عارف با اللہ حضرت مولاعلی شاہ کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے فرمایا اب ان کے پاس آتے جاتے رہنا، تمہاری تکمیل انہیں کے ذریعہ ہوگی شیخ کے حکم کے مطابق آپ برابر حضرت مولا علی شاہ کی خدمت میں حاضری دیتے رہے، جب ریاضت ومجاہدہ اور تربیت کے مراحل سے حضرت مولاعلی شاہ نے آپ کو گزار لیا تو ۰۲/ جمادی الآخر ۱۴۳۱ /ہجری خان پور ضلع مونگیرمیں اپنے پیر مرشد حضرت سمیع احمد علیہ الرحمہ کے عرس کے موقع پر مجمع عام میں آپ کے سر پہ دستار خلافت باندھا، پھر ۹۴۳۱ /ہجری میں پھلواری شریف خانقاہ مجیبیہ کے گدی نشیں حضرت مولانا شاہ محمد محی الدین قادری مجیبی علیہ الرحمہ نے آپ کوسلسلہ مجددیہ آبادانیہ فریدیہ کی اجازت سے سرفراز فرمایا۔مریدوں کی تعلیم و تربیت :حضرت کا حلقہ ارادت اتنا وسیع تھا کہ وابستگان سلسلہ کا صحیح اندازہ مشکل ہے۔ آپ کا حلقہ ارادت صرف ہندوستان ہی تک محدود نہیں بلکہ پاکستان اور عرب میں بھی آپ کے مریدوں کی خاطر خواہ تعداد موجود ہے ۷۶۳۱ /ھ میں حج وزیارت حرمین شریفین کے سلسلے میں آ پ کا حجاز مقدس جانا ہوا اس موقع پر مکہ معظمہ اور مدینہ طیبہ میں کتنے ہی اشخاص نے آپ کے دست حق پرست پر بیعت کی اور آپ کے فیوض روحانی سے استفادہ کیا۔ مسلمانوں کا ہر طبقہ آپ کے دامن فیض سے وابستہ تھا، ہندو پاک میں عوام کے علاوہ علما،قرا، حفاظ اور حکومت کے بڑے بڑے عہدے دار آپ کے حلقہ ارادت میں داخل تھے،ہندوستان میں خصوصیت کے ساتھ بہار، بنگال اور یوپی میں بے شمار لوگ داخل سلسلہ ہوے اور سینکڑوں اشخاص نے آپ کے زیر تربیت منازل سلوک طے کیے اور باطن کی تکمیل کی،پھر شیخ اپنے وطن مونگیرتشریف لے گئے چند دنوں کے بعد اطلاع ملی کے حضرت کا وصال ہوگیا،تبلیغ دین:مظفر پور اور اطراف کے دیہی علاقوں میں جو مسلمان تھے ان میں ہندوانہ رسم ورواج مثلاً چھٹ،دیوالی، ہولی اور بہت ساری خرابیاں رواج پاچکی تھی، لوگوں میں اسلام سے دوری بہت زیادہ بڑھی ہوئی تھی، ان کی اصلاح کے لیے آپ نے تبلیغی دورے کیے انہیں اسلام کے بارے میں بتایا اور ہندوانہ رسم ورواج سے مسلمانوں کو روکنے کے لیے بڑی جانفشانی اور تندہی سے تبلیغ فرمائی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت بڑی تعداد میں بندگان خدانے آپ کے دست حق پرست پر گناہوں سے سچی توبہ کی اور دینی و مذہبی زندگی اختیار کر لی۔یہ کہاجاسکتاہے کہ آج ذرائع اور وسائل کے باوجود وہ خدمت دین اور خدمت خلق نہیں ہوپاتی ہے جو سرکار سرکانہی نے بیل گاڑی پر سفر کرکے انجام دے دیا ۔معمولات شب وروز: آپ مغرب کی نماز جماعت سے پڑھنے کے بعد کھانا تناول فرماتے تھے پھر دس بجے رات تک حلقہ ہوتا اس کے بعد فاتحہ پر مجلس ختم ہوتی،پھر ۲۱ /بجے رات تک نصیحت تعلیم وتربیت اور کتب بینی کا کام جاری رہتا،اس کے بعد آرام فرماتے پھرتقریباً ڈھائی بجے بیدار ہوتے اور نماز تہجد کے بعد اذکار واشغال میں مشغول ہوجاتے یہاں تک کے فجر کی نماز کا وقت ہوجاتا،پھر جماعت سے نماز ادافرماتے،نماز سے فارغ ہوکر مریدین ومتوسلین کو اذکا ر اور سلوک وتصوف کی تعلیم دیتے پھر شجرہ خوانی اور فاتحہ خوانی پر مجلس ختم ہوتی،اس کے بعد اشراق اور چاشت سے فارغ ہوکر مسجد سے باہر تشریف لاتے اور حویلی جاکر والدہ کی زیارت فرماتے،۱۱ /بجے دن کے قریب قرآن کریم کی تلاوت فرماتے ۲۱ /بجے سے آرام فرماتے پھر ایک بجے اٹھ کر غسل فرماتے اور جماعت سے نماز ادا فرماتے پھر حاضرین کے ساتھ کھانا تناول فرماتے،کھانا کھانے کے بعد قیلولہ فرماتے،پھر عصر کی نماز پڑھ کر حزب البحر پڑھتے اورگھنٹہ بھرکھلی فضا میں چہل قدمی فرماتے۔عقیدہ ئ اہل سنت وجماعت کی پابندی:خدا کا شکر ہے کہ میں عقیدۃً وعملاً حنفی اور مشرباً قادری ہوں، میرا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ امکان کذب سے منزہ ومقدس ہے، نہ جھوٹ اس کی صفت نہ وہ بول سکتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب حضور مکرم نور مجسم محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم، کو علم غیب عطا فرمایا، میں نداے یا رسول اللہ، یاغوث کا قائل ہوں میں ان حضرات کو دربار الٰہی میں اپنا وسیلہ جانتا ہوں، ان کی شفاعت کا قائل ہوں،میں ان حضرات سے دونوں زندگیوں میں استمدادو توسل کو جائز مانتا ہوں، میں میلاد شریف اور قیام وسلام کا قائل ہوں،میں فاتحہ گیارہویں اور عرس وغیرہ کو جائز جانتا ہوں،میں عملاً مطلقاً ائمہ مجتہدین میں سے کسی ایک کی تقلید کو ضروری سمجھتا ہوں اور ان میں حضرت امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تقلید کو دوسروں کی تقلید سے افضل سمجھتا ہوں۔( انوار قادری،ص:۵۴)جاری