ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
از قلم : افتخار احمد قادری ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں !۔
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
شادی کے گزرے وقتوں کو کسی دانش ور نے بور کا ایسا لو قرار دیا ہے کہ جو اسے کھائے وہ پچھتائے اور جو نہ کھائے وہ بھی پچھتائے!۔
درحقیقت یہ ہے کہ شادی ایک ایسا سماجی اور مذہبی بندھن ہے جس کے نتیجے میں اکثر وبیشتر،قطعی دو مختلف مزاحوں کے حامل افراد ایک دوسرے کا ساتھ نبھانے کے پابند ہوتے ہیں۔
مزاحوں کا یہ اختلاف کبھی کبھار سنگین نوعیت اختیار کر جاتا ہے، شادی کو نبھانا آسان نہیں ۔ اس کے لیے آپ کو بڑی قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ دوسری جانب بھی یہی صورت حال ہو-
بلکہ کبھی کبھار تو ایسا ہوتا ہے کہ آپ کی اچھائیوں کو بھی پذیرائی نہیں ملتی۔ اور نہ ہی قربانیوں کا اعتراف کیا جاتاہے- لیکن یہ ایک ایسا رشتہ ہے کہ جس میں سمجھوتے کی کوئی نہ کوئی راہ نکالنی ہی پڑتی ہے اور یہ ذمہ داری عموماً خواتین کے حصے میں آتی ہے۔
اس لیےکیا ہی اچھا ہوتا کہ کسی اختلاف کی صورت میں پانی سر سے اونچا ہونے سے پہلے آپ اس مصیبت کو ٹالنے کی تدبیر کرلیں۔ یہاں ہم آپ کو چند نشانیوں سے آگاہ کر رہے ہیں،جو شادی شدہ زندگی میں کسی بڑے اختلاف کا سبب بن سکتی ہیں۔
لہٰذا آپ کی نگاہ ہمہ وقت ان پر رہنی چاہئے۔ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں کے مصداق میاں،بیوی پر ایک دوسرے کا احترام اور ایک دوسرے کی عزت کرنا لازم ہے۔
کیوں کہ جب ایک فریق کی مسلسل دل آزاری یا توہین ہوتی رہے تو ایسی صورت میں یہ رشتہ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔اس لیے اپنی جانب سے شریک حیات کو بھر پور توجہ اور عزت دیں اور اگر یہی رویہ آپ کے ساتھ اختیار کیا جائے تو ایسی صورت میں بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں۔
اپنے پارٹنر کو یہ احساس دلائیں کہ ان کا رویہ آپ کے لیے کس قدر تکلیف دہ ہے۔ اس سلسلے میں فیملی کے کسی بزرگ سے بھی آپ مدد لے سکتے ہیں۔
ماہرین کی رائے کے مطابق اس مسئلے کا حل بات چیت کے ذریعے نکلا جاسکتا ہے- چھوٹے چھوٹے گھریلو جھگڑے کو انا کا مسئلہ ہرگز نہ بنائیں- خاص طور سے نئے شادی شدہ جوڑوں کو اس معاملے میں بہت احتیاط سے کام لینے کی ضرورت پیش آتی ہے۔
کیوں کہ دونوں ایک دوسرے کے مزاج سے اچھی طرح واقف نہیں ہوتے اور نہ ہی گھر داری کے طور طریقوں سے آشنا ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کی اچھائیوں اور کمزوریوں سے واقف ہونے میں کچھ وقت لگتا ہے۔
لہٰذا صبر و تحمل سے کام لیں اور دوسرے فریق کے بارے میں کوئی بھی رائے قائم کرنے یا کوئی اہم فیصلہ کرنے میں جلدی بازی نہ کریں۔ خواتین میں یوں بھی صبر و برداشت کا مادہ زیادہ ہوتا ہے، اس لیے اپنا ظرف بڑا رکھیں۔
یاد رکھیں کہ آپ کا یہ صبر برداشت شادی کے پروجیکٹ میں ایک طرح سے آپ کا انوسٹمنٹ ہے جس کے فوائد آگے چل کر حاصل ہوتے ہیں۔
اس سلسلے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ شادی کے بعد آپ کا ہر اقدام اور ہر فیصلہ صرف آپ کی ذات پر اثر انداز ہوتا ہے، بلکہ آپ کی شریک حیات پربھی اس کے اثرات اسی قدر مرت ہوتے ہیں اور کبھی کبھار تو پورے دو خاندان متاثر ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ ہر قدم پر یہ سوچنا کہ میں اس رشتے کے لیے اتنی قربانی دے رہا ہوں جب کہ میری شریکِ حیات مجھے کچھ نہیں سمجھتی،ہزاروں خرابیوں کا سبب بن سکتا ہے۔
۔ہمارے معاشرے میں آج بھی زیادہ تر شادیاں اریجڑ یعنی طے شدہ ہوتی ہیں اور پیشتر شادی شدہ جوڑے بھرے پرے کنبے کے درمیان رہتے ہیں لہٰذا جوئنٹ فیملی سسٹم میں رہنے کے جہاں بہت سے فوائد ہیں وہی کچھ مسائل بھی ہیں۔
اس صورت حال سے بھی سمجھ داری اور باہمی افہام و تفہیم کے ذریعے ہی نمٹا جاسکتا ہے۔ گھر والوں کی جائز باتوں کو ماننا آپ کا فرض عین ہے اور آپ اپنی مرضی سے اس میں کچھ نہیں کر سکتے تو ایسے میں شریک حیات کو سہولت کے ساتھ ساری باتوں کو سمجھائیں تاکہ وہ ہوشیاری سے اس معاملے کو سنبھال سکے۔
تاہم گھر والوں کی ناانصافیوں کی سزا اگر آپ اپنے پاٹنر کو دینے کی کوشش کریں گے تو آپ کا یہ رویہ خود آپ کے لیے سزا بن جائے گا۔
از قلم : افتخار احمد قادری
کریم گنج،پورن پور،ضلع پیلی بھیت،یوپی
افسوس کہ شرم ان کو مگر نہیں آتی
جدید اُردو نثر نگاری کا بانی کون ؟
ہندوستان کی آزادی اور علامہ فضل حق خیر آبادی
مذہبی مخلوط کلچر غیرت دین کا غارت گر
Subhan Allah
Masha Allah
Bahut khoob Hafiz iftekhar sahab
Bahut Achcha likhty hain.aap
Allah apke ilm me khoob barakat ata farmaye…..
Allah apse ese hi khoob deen ka kaam le …
Ameen summa ameen
Pingback: خواجۂ ہند وہ دربار ہے اعلیٰ تیرا ⋆ اردو دنیا ⋆ تحریر: افتخار احمد قادری
Pingback: فضائل یوم جمعہ ⋆ اردو دنیا افتخار احمد قادری