نہ جانے کتنے سنبھل ابھی باقی ہیں

Spread the love

نہ جانے کتنے سنبھل ابھی باقی ہیں !!

غلام مصطفےٰ نعیمی

روشن مستقبل دہلی

فی الحال سنبھل جامع مسجد کے سروے پر سپریم کورٹ نے پابندی لگا دی ہے لیکن اس وقتی راحت کو ایک دن بھی نہیں گزرا تھا کہ بدایوں کی جامع مسجد پر نِیل کَنٹھ مندر ہونے کا مقدمہ سامنے آگیا۔تین دسمبر کو اس مقدمے کی بھی شنوائی ہونا ہے۔

اس طرح ایک ہی ہفتے میں جامع مسجد سنبھل،درگاہ غریب نواز اجمیر اور جامع مسجد بدایوں پر مندر ہونے کا مقدمہ کر دیا گیا ہے۔شر پسندوں کی رفتار اور حکومتی پشت پناہی کے مد نظر خیر کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی ہے۔

آنے والے وقت میں دیگر شہروں میں بھی ایسے درجنوں نہیں سیکڑوں مقدمات سامنے آسکتے ہیں جہاں ہندو تنظیموں کے لوگ سِول کورٹوں میں علاقائی مسجدوں اور مزاروں کے خلاف مقدمات قائم کرکے ہیرو بننے اور مسلمانوں کو دبانے کی پوری کوشش کریں گے

ان کی تیاری پوری ہے

کوئی اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ یہ معاملات اتفاقی یا حادثاتی ہیں، یہ سارے مقدمات ایک منصوبہ بند سازش کا حصہ ہیں۔بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ مرکزی مسجدوں اور خانقاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔اس سازش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے باقاعدہ ریسرچ ورک کرکے ایسی مسجدوں/خانقاہوں/مدرسوں کی فہرست بنائی گئی ہے جنہیں شدت پسند مندر بنانا چاہتے ہیں۔

اس ضمن میں سیتا رام گویل کی کتاب Hindu Temples what happened to them (ہندو مندروں کا کیا ہوا) شر پسندوں کے لیے سب سے مضبوط سہارا بنی ہوئی ہے۔جس میں مصنف نے اپنے جھوٹ اور پروپیگنڈے کو دستاویزی شکل دے کر ان مسجدوں/مزاروں کی فہرست بنائی ہے جو ان کے بقول مندر توڑ کر یا مندروں کو تبدیل کرکے بنائے گیے ہیں۔

یہ فہرست صوبہ جاتی اور ضلع وار طریقے سے تیار کی گئی ہے۔جس میں صوبہ، ضلع اور مقام کے ساتھ مذکورہ مسجد/مزار کا نام بھی درج ہے۔

اس فہرست میں تقریباً اٹھارہ سو مسجدیں اور خانقاہیں شامل ہیں، جن پر ہندو مندر بدل کر یا توڑ کر بنائے جانے کا الزام ہے۔مذکورہ کتاب میں بڑی تفصیل کے ساتھ ان تمام شہروں/مسجدوں اور مزاروں کے نام لکھ دئے گیے ہیں۔

اس طرح ہر علاقے کا کوئی بھی چُھٹ بھیّا نیتا یا لوکل کورٹ کا منشی نما وکیل کھڑا ہو سکتا ہے اور اپنے شہر کی کسی بھی مسجد یا مزار کے خلاف رٹ فائل کرکے مسلمانوں کے خلاف مورچہ کھول سکتا ہے۔اس طرح آنے والے دنوں میں ہمارے سامنے ایک دو نہیں نہ جانے کتنے سنبھل موجود ہوں گے جہاں مسلمانوں کی جان، مال اور عبادت گاہیں سب کچھ شر پسندوں کے نشانے پر ہوں گی۔

مسجدیں جو نشانے پر ہیں

سیتا رام گویل کی مذکورہ کتاب کے مطابق جو مسجدیں اور مزارات نشانے پر ہیں اس کی صوبہ جاتی تفصیل اس طرح ہے:1۔یوپی : 299 مساجد/مزارات2۔

کرناٹک : 192 مساجد/مزارات3۔بنگال :102/مساجد/مزارات4۔راجستھان :170 مساجد/مزارات5۔ہریانہ :77 مساجد/مزارات 6۔ایم پی :151/مساجد/مزارات 7۔مہاراشٹر : 143/مساجد/مزارات8۔گجرات : 170 مساجد/مزارات9۔دہلی :170 مساجد/مزارات10۔بہار :77 مساجد/مزارات11۔تمل ناڈو :174 مساجدایسا نہیں ہے کہ جن مساجد ومزارات پر شدت پسندوں کا پروپیگنڈہ ہے وہ کسی گمنام جگہ یا گاؤں دیہات میں واقع ہیں، یہ مقامات حد درجہ مشہور و معروف اور بڑے بڑے شہروں میں واقع ہیں مثلاً اجمیر شریف ہی کو لیں تو یہاں آستانہ غریب نواز کے علاوہ شاہ جہانی مسجد، ڈھائی دن کے جھونپڑے اور چلہ انا ساگر سمیت کل 9 مقامات ان کے نشانے پر ہیں۔

دہلی میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیا، شاہ نصیر الدین چراغ دہلوی، مدرسہ فیروز شاہ تغلق حوض خاص، نیلی مسجد، پرانے قلعہ کی خیر المنازل مسجد اور شاہ جہاں کی بیٹی زینت النسا کی تعمیر کردہ زینت المساجد جیسی حد درجہ تاریخی مساجد و مدارس اور خانقاہیں بھی ان کے جھوٹ سے محفوظ نہیں ہیں۔

مرادآباد اور رامپ ور جیسے مسلم اکثریتی شہروں کی جامع مسجد ان کی ہٹ لسٹ میں ہیں۔

پنڈوا بنگال کی معروف خانقاہ جلال الدین تبریزی، شش ہزاری خانقاہ نور قطب شہید، پنڈوا بھی ان کی فہرست میں شامل ہیں۔بہار کے نالندہ ضلع کی درگاہ مخدوم الملک شرف الدین اور درگاہ شاہ فضل اللہ گوسائیں ان کے نشانے پر ہے۔

پٹنہ کی جامع مسجد اور معروف بزرگ حضرت مخدوم یحییٰ منیری کی خانقاہ بھی ان کی جھوٹی لسٹ میں شامل ہیں۔یہ فہرست تو نمونہ بھر ہے ورنہ مسلمانوں کا ہر بڑا شہر اور ہر شہر کی بڑی مسجد یا عیدگاہ اور علاقے کی مشہور خانقاہیں ان کی سازشی فہرست میں شامل ہیں۔

یکے بعد دیگرے وہ لوگ اپنے منصوبے پر آگے بڑھتے جائیں گے اور مسلمانوں کی مذہبی نشانیوں کو اسی طرح متنازعہ بنا کر مٹانے اور چھیننے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھیں گے۔

کیا کریں مسلمان؟

یوں تو کرنے کے بہت سارے کام ہیں لیکن سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ اپنے اندر دینی اور قومی جذبہ بیدار کیا جائے۔ہمارے یہاں افراد کی کمی ہے نہ اسباب کی، کمی ہے تو دینی جذبات کی۔چونکہ یہ معاملات براہ راست دو چیزوں سے متعلق ہیں ایک سیاست دوسرے عدلیہ(Judiciary) اور ان دونوں ہی امور پر ہمارے یہاں دو طرح کی لاپرواہی پائی جاتی ہے۔

سیاست میں ہمارے یہاں غیروں کی اتباع کا مزاج ہے جب کہ عدلیہ کو ہمارے یہاں زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔جو لوگ کسی طرح عدلیہ میں پہنچ جاتے ہیں ان میں وہ جذبہ نظر نہیں آتا جو بحیثیت قوم ضروری ہوتا ہے۔

اب اسے اس طرح سمجھیں کہ شاہی مسجد گیان واپی اور سنبھل جامع مسجد کے خلاف مقدمہ کرنے والا نمایاں شخص وشنو شنکر جین ہے۔جو اس وقت درجن بھر سے زائد مساجد کے خلاف پٹیشن فائل کیے ہوئے ہے۔اس سے پہلے اس کا باپ ہری شنکر جین بھی یہی کام کرتا تھا۔دہلی کا اشونی اپادھیائے بھی مسلم کمیونٹی کے خلاف آئے دن سپریم کورٹ/ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن لگاتا رہتا ہے۔

ہندوؤں کے مسائل پر لگاتار کام کرتا ہے لیکن ان سب کے مقابلے ہمارے مسلم وکیل ہر کام فیس لیکر ہی کرتے ہیں۔معاملہ چاہے مسجد کا ہو یا خانقاہ کا ہمارے وکلا بغیر فیس لیے کسی کام پر آمادہ نہیں ہوتے۔

دوسری طرف یہی وکلا دلتوں/آدی واسیوں اور دیگر سماجی/سیاسی تنطیموں کے لیے فری آف کاسٹ کام کرتے رہتے ہیں لیکن اپنے مذہب وقوم کے لیے یہ لوگ سننے/بولنے/دیکھنے سے معذور ہوجاتے ہیں۔ہمارے یہاں قابل وکیلوں کی اتنی بھی کمی نہیں ہے کہ ہم اس نوعیت کے کام نہیں کر سکتے؟کمی ہے تو بس جذبے کی

اس لیے سب سے پہلے ہمیں اپنے اندر دینی اور قومی جذبہ بیدار کرنا ہوگا ایک بار یہ جذبہ بیدار ہوگیا تو ان شاء اللہ چیلنجز کا مقابلہ بھی کیا جا سکتا ہے اور مشکلات کو آسان بھی بنایا جا سکتا ہے۔مشکلوں سے گھبرانا ہماری روایت نہیں رہی۔

ہم نے تو آندھیوں میں بھی امیدوں کے چراغ جلائے رکھے ہیں اور آگے بھی ان شاء اللہ اس روایت کو برقرار رکھیں گے۔واقف کہاں زمانہ ہماری اڑان سےوہ اور تھے جو ہار گئے آسمان سے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *