ریاست اتر پردیش میں مدارس پر افتاد کچھ تلخ حقائق
ریاست اتر پردیش میں مدارس پر افتاد کچھ تلخ حقائق
ریاست اتر پردیش میں حالیہ دنوں قریب ڈیڑھ ماہ قبل مدارس اسلامیہ کے وجود اور تشخص پر اس وقت خطرات کے بادل منڈلانے لگے جب الہ باد ہائی کورٹ نے ایک جھٹکے میں بڑی تیزی سے یو۔پی بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2004 کو کالعدم قرار دے دیا۔ اور یہ کام جتنی دل چسپی سے کیا گیا ایسا لگ رہا تھا کہ دوسروں کو ہمارے اداروں کی بڑی فکر لاحق ہے! یا یہ منظم سازش ہے؟ وہ تو خیر ہوئی کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ جلد بازی میں لیا گیا فیصلہ ہے فریقین کے دلائل پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
الہ باد ہائی کورٹ اور ریاستی حکومت کو مدارس اسلامیہ کے نصاب تعلیم پر اعتراض ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مدارس اسلامیہ نے تعلیم کا معیار برقرار نہیں رکھا اور طلبہ کے لیے جو چیزیں ناگزیر تھیں وہ پورے طور پر دستیاب نہیں کرائی گئی، سرکاری گرانڈ لے کر مذہبی تعلیم کرائی جاتی ہے جو سیکولرزم کے اصولوں کے خلاف ہے، پھر مدارس اسلامیہ وافر مقدار میں طلبہ کو بنیادی تعلیم سے محروم رکھتے ہیں جو کہ ان کا بنیادی حق ہے۔
واضح رہے کہ بنیادی تعلیم سے مراد اسکول و کالجزکی ہائی اسکول وانٹر وغیرہ کی تعلیم ہے۔ ہائی کورٹ کے اس فیصلے سے چوں کہ سرکار سے منظور شدہ ایڈس مدارس متأثر ہوتے اور جن اساتذہ کو ماہانہ وظیفے سرکار سے ملتے تھے وہ بند ہونے والے تھے اس لیے ہمارے علما بھی دو فریقوں میں منقسم ہوگئے ایک وہ جو سرکار سے وظیفہ پاتے ہیں انھوں نے مدارس کے کھلنے کی دن رات دعائیں کیں اور اس کے تحفظ و بقا کے لیے بہت جد جہد بھی کی دوسرے وہ جو ابھی تک سرکاری نہ ہوۓ یا ہونے والے تھے کسی سبب نہ ہوسکے یا تقرری میں متعینہ رقوم فراہم نہ ہونے کے باعث مقرر نہ ہوسکے۔
توانھیں کچھ قلبی تسکین بھی ہوئی اور اپنی بھڑاس نکالنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی اور انھوں اس کہاوت ” کہ شادی کا لڈو جس نے کھایا وہ پچھتایا اور جس نے نہ کھایا وہ بھی پچھتایا” پر عمل کیا کہ خود سرکاری جوب کی تقرری چاہتے تھے جب خود نہ لگے تو ان میں ہزار خامیاں نکالنے لگے۔
خیر! حافظ سعید نوری ممبئی کی انتھک کوششوں کے بعد محنت رنگ لائی اور فی الحال کچھ وقت کے لیے ہائی کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد پر روک لگی ہوئی ہے۔
مدارس اسلامیہ پر حکومت ہند اور عدلیہ کو تو اعتراض ہے ہی۔ عوام الناس بھی اس بابت بہت شکوہ بلب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اتنے بڑا فیصلہ آنے پر بھی ہندوستان کی مسلم عوام بلکل خاموش تماشائی بنی دیکھتی رہی بلکہ بعض نے تو اس پر کھل کر اہل مدارس کو تنقید کا نشانہ بنایا اور نازیبا تنقیدی تسلسل سوشل میڈیا کی زینت بنا رہا۔ اس بابت سبھی کے شکوے اور اعتراضات کچھ اس طرح تھے:
کوئی کہتا ہے کہ مدارس اسلامیہ نے اپنا حق ادا نہیں کیا، یہاں کے فارغ التحصیل طلبہ اپنا کام ذمہ داری سے ادا نہیں کرتے، اخلاقی پستی ان میں پائی جاتی ہے جس کا نظارہ سیکنڈری ہائر سیکنڈری کے امتحانات میں خوب دیکھنے کو ملتا ہے جو طلبہ پڑھ لکھ کر قوم مستقبل سنوار والے تھے اور دین کے سچے مبلغ اور ترجمان بننے والے تھے۔ ان کی بے راہ روی دیکھ کر نہیں لگتا کہ مستقبل قریب میں یہ امر بالمعروف ونھی عن المنکر کا فریضہ انجام دے پائیں گے، بلکہ ان کی بدتمیزیوں کو دیکھ اسکول و کالجز کے ٹیچرس حضرات بھی انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں کہ ایسے ہوتے ہیں مدرسوں میں پڑھنے والے اور کیا پڑھاتے ہیں یہ مدارس! وضع قطع غیر اسلامی لباس زرق برق گیسو دراز وغیرہ بے شمار اخلاقی انحطاط اور پستیاں پائی جاتی ہیں جس کا مطلب ہے کہ مدارس نے اپنا حق ادا نہیں کیا۔
فارغ التحصیل لب کشائی کرتے ہیں: کہ انھیں ایسی تعلیم نہیں دی جاتی جس سے وہ خود کفیل ہوسکیں بلکہ وہ بعد فراغت روزگار کے لیے سرگرداں رہتے ہیں اور صرف امامت وخطابت یا تدریس کے سوا کچھ نہیں کرسکتے، اتنی عمر بھی باقی نہیں رہتی کہ اب کچھ اور سیکھ سکیں ایک معیاری اور روایتی عالم دین بشمول حفظ و دینیات قریب پندرہ سال میں بنتاہے اس کے بعد بھی اسے معاشی تنگیوں کا سامنا کرنا پڑتاہے جو انتہائی افسوسناک ہے!
منتظمیں چاہتے ہیں کہ ان کے ادارے کا معیار بلند ہو لیکن اساتذہ خود کفیل ہو جائیں یہ کبھی نہیں چاہتے، جتنا ان کی خود کی اولاد اپنی ذات پر خرچ کردیتی ہے اتنا وہ مدرس کو بمشکل دے پاتے ہیں اس پر طرفہ تماشا یہ کہ ترقی کا کریڈٹ اساتذہ کو دینے کے بجاۓ برملا خود لیتے ہیں شاید ان میں شخصیت سازی کا ہنر نہیں یا کام کرانے کا طریقہ نہیں جب کہ حافظ ملت فرماتے ہیں کہ جس سے کام لیا جاتاہے اسے ناخوش نہیں کیا جاتا۔ اس کا مطلب میں یہ سمجھتا ہوں کہ ذمہ دار کو کھل کر کام کرنے کی اجازت ہو اساتذہ کی تنخواہوں میں مناسب اضافے ہوں اور وقت پر ان کی تنخواہیں ادا کردی جائیں جب وہ اندر سے خوش ہوں گے تو زیادہ اچھا کام کرسکتے ہیں۔ پھر اشتہار دیتے وقت یہ شرط لگانے کی چنداں حاجت نہیں ہے کہ مدرس اپنے ساتھ اتنے بچے لاۓ کیوں کہ جب وہ محنت سے کام کرے گا تو بچوں کا سیلاب تو خود ہی امنڈ پڑے گا۔
قوم کا کہنا ہے کہ مدرسے کھانے کمانے کا ذریعہ ہیں۔ یہ بات اس لیے سامنے آئی کہ بعض اہل مدارس نے مدارس کے لیے قوم سے چندہ تو وصول کیا لیکن تعلیم پر اسے صرف نہیں کیا، یا براے نام صرف کیا تعلیمی اصلاحات نہیں کیں مثلا: چار مدرس کی ضرورت تھی دو سے کام چلانے کی کوشش کی اہل مساجد نے ظلم پہاڑ ہی توڑ دیا 50/فیصد مسجدوں میں بچوں کو امام سے ہی پڑھواتے ہیں لیکن ماہانہ وظیفہ نامناسب ہی رہتا ہے۔ بعض سفیروں نے تو چندے کو دھندا بنالیا جب ان کے قلعی کھل گئی تو اس سے اچھے لوگوں کو بھی پریشانیوں کا سامنا ہوا کہ قوم اچھے برے سبھی کو ایک ہی صف میں شمار کرنے لگے۔
مدارس کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :
١۔ وہ مدارس جو مساجد سے متصل ہوتے ہیں اور ان میں زیادہ تر دینیات مثلا: قاعدہ یا چند سورتوں کو حفظ کرادیا جاتا ہے بعض جگہ ان کا لیول مکتب سے اٹھ کر دار العلوم تک ہوتا ہے یعنی اس میں حفظ وغیرہ کی درس گاہ بھی ہوتی ہے۔
٢۔ جو مساجد سے متصل تو نہیں ہوتے لیکن ان میں شعبۂ حفظ یا درس نظامی کی دو چار جماعتوں کی تعلیم کا بند وبست ہوتا ہے۔ عموما ایسے ادارے زیادہ تر شخصی ہوتے ہیں۔
٣۔ جو فضیلت وتخصص تک کی معیاری تعلیم کا معقول بند وبست رکھتے ہیں اور ان میں زیادہ تر کو سرکار سے مراعات حاصل ہوتی ہیں۔
مدارس کو لے کر مختلف سوالات لوگوں کے ذہن میں گردش کرنے لگتے ہیں۔
اساتذہ مدارس کی اس بابت یہ راے سامنے آتی ہے کہ اہل مدارس جو ماہانہ وظیفہ مدرسین کو دیتے ہیں وہ ناکافی ہے۔ عام طور سے تنخواہیں جو دی جاتی ہیں وہ ٨/ ہزار سے ١٥/ ہزار کے درمیان ہوتی ہیں۔ کبھی وہ بھی وقت پر نہیں۔ جب کہ ایک ان پڑھ مزدور کی آمد ٦٠٠/ روپے روزانہ کے حساب سے ١٨٠٠٠/ ہزار روپے ماہانہ ہوجاتی ہے۔ اس کا مطلب ہے ایک عالم دین کا مقام دنیوی لحاظ سے ایک مزدور سے بھی نیچے ہے۔ ائمہ مدارس کو تو اس پر مزید یہ کہتے ہوۓ سنا گیا کہ مزدور صرف پانچ گھنٹے کام کرتاہے اور ہمیں ٢٤/ گھنٹے کی ڈیوٹی کرنی پڑتی ہے۔
تنخواہیں ایسی ہوں کہ اساتذہ اپنا روزانہ کا ضروری خرچ بھی نکال سکیں اور کچھ بچت بھی ہوسکے اپنے بچوں کو اعلی تعلیم بھی دلاسکیں نہ یہ کہ انھیں صرف جینے لائق تنخواہ دی جاۓ اس پر طرفہ تماشا یہ کہ یہ بھی وقت پر نہیں۔ جلالۃ العلم حافظ ملت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: جس سے کام لیا جاتا ہے اسے ناخوش نہیں کیا جاتا۔” حافظ ملت علیہ الرحمہ کا یہی مشن تھا کہ اپنا اتنا بڑا دین کا قلعہ تیار کردیا کہ ان سے اسٹاف ناخوش نہیں ہوتا تھا، جب اسٹاف رضامند ہوتاہے تو خود ہی کام پر زیادہ توجہ دیتاہے۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ راے نامناسب ہے کہ مدرسین صرف تنخواہ پر اعتماد نہ کریں بلکہ کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرلیں یا کوئی ہنر سیکھ لیں کیوں کہ یہ اس وقت تو متصور ہوسکتاہے جب پانچ گھنٹے پڑھاکر وہ فری رہ سکتے ہوں لیکن اگر اساتذہ کے ذمہ خارجی اوقات کی دیکھ ریکھ ہو اور وہ طلبہ پر نگراں مقرر ہوں تو اس وقت اس کا خیال بھی محال ہے یعنی ان کے لیے اتنا وقت باقی ہی نہیں رہتا کہ وہ کوئی کاروبار کرسکیں، مزید یہ تصور ائمہ مدارس کے لیے تو قطعا نہیں کیا جاسکتا۔
کہ ان سے عوام کالانعام کو کسی بھی وقت کوئی بھی کام پڑسکتاہے۔ اس سے ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ امیر لوگ فی زمانہ اپنے بچوں کو دینی تعلیم دینے سے گریز کررہے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ علما اور دین کے رہبر خود کفیل نہیں بہتیروں کو یہ کہتے ہوۓ سنا گیا کہ ہمارا بچہ کیا کھاۓ گا اتنی قلیل ماہانہ سیلری میں، ناظرین! اگر آپ تقوی و پرہیز گاری اور زہد و اتقا کی مشاورت کرنا چاہ رہے ہوں اور یہ سمجھانا چاہ رہے ہوں کہ پیسے کی طرف نظر رکھنا نہیں چاہیے
تو یہ واضح رہے کہ مال ودولت کی کثرت تقوے میں قطعا مخل نہیں کیا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ زہد وتقوے کے پیکر نہیں تھے اور ان جیسا امیر آج تک پیدا نہیں ہوا بلکہ بسااوقات غریببی اور مال ودولت کی قلت کفر وارتداد کے دامن تک کیھنچ لے جاتی ہے۔ ناشکری کا احتمال قوی ہوتاہے علما کی بات کو لوگ زیادہ اہمیت اس دور میں اس لیے بھی نہیں دیتے کہ دنیا والوں کے نزدیک عزت کا معیار مال ودولت ہے۔
مدارس اسلامیہ پر افتاد کی ایک وجہ یہ بھی ہے جس کی ماسبق میں ہم نے وضاحت کی کہ جب ناظم اعلی منتظمین ادارہ اساتذہ کی طرف سے تنگ نظری رکھیں گے تو اس کے نتائج یہی برآمد ہوسکتے ہیں کہ ان کے دل کی آہ جب عرش سے ٹکراۓ گی تو اس کا فیصلہ من جانب اللہ ہوگا،
مدارس اسلامیہ پر افتاد کی دوسری وجہ عوام کا ان سے کنارہ کش ہو جانا ہے اور دین کی ہمدردی نہ ہونا ہے یا دینی ماحول سے دوری ہے۔
عوام الناس کا اس بابت حال یہ ہے کہ اپنے بچوں کو تین اجزا میں تقسیم کرتے ہیں ان میں ہوشمند ذہین و فطین کو انگلش میڈیم اور اسکول و کالجز میں بھیجتے ہیں جب کہ غبی و شرارتی کو مدرسے کے حوالے کرتے ہیں جس سے ان میں راہ فرار اختیار کرنے کی وارداتیں زیادہ رونما ہوتی ہیں۔ پھر ان کا ٹارگیٹ حصول تعلیمی دینی سے اس قدر ہوتاہے کہ بچہ قرآن پاک پڑھنا سیکھ جاۓ یا بس حافظ قرآن ہوجاۓ یا اس سے بڑھ کر وہ عالم ومفتی بن جاۓ۔ جب کہ حالات حاضرہ کے مطابق عصری علوم وفنون کی تحصیل اور علم دین کی حصول یابی پر کامل توجہ اور زور ہونا چاہیے۔
جو مکتب مساجد سے ملحق ومتصل ہوتے ہیں ان کے حالات تو بہت ناگفتہ بہ ہیں۔ اکثر کا حال یہ کہ ٧٠ سے ٨٠/ طلبہ وطالبات کے لیے بس ایک استاد متعین وہ بھی پیشگی امامت کے فرائض کی انجام دہی والا، وہ بھی صرف دو گھنٹے کہ انھیں اسکول کے لیے بھی وقت پر فارغ کرنا ہے
اس پر غور کریں یہاں سارا جرم ائمہ کا ٹھرادیا جاتا ہے جب کہ ان کا کوئی قصور نہیں کہ ایک دو گھنٹے میں ستر اسی بچوں کو کیسے ڈیل کیا جا سکتا ہے جب کہ انھیں طلبہ کی اسی تعداد کو کور کرنے کے لیے اداروں میں سات سے آٹھ اساتذہ رکھے جاتے ہیں اور ان کے کلاس دینے کا وقت بھی قریب پانچ گھنٹے ہوتا ہے امام پر میلاد وغیرہ کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے جس سے بعد فجر انھیں آرام کی ضرورت ہوسکتی ہے اس لیے تعلیم وتعلم کے لیے مستقل استاد ہونا چاہیے
مکاتب کا یہ سسٹم سینکڑوں سالوں سے چلا آرہاہے کوئی اس میں تبدیلی کرنے کو تیار نہیں۔ اس بابت مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے یہاں مدارس کو مضبوط کریں مکاتب کا لیول اونچا کریں اور ان میں چند اساتذہ کی بحالی کرکے ہندی، انگلش حساب وسائنس کی ضروری تعلیم کا بند وبست کریں اور اسکول و کالجز سے اجتناب کریں کہ ویسے بھی یہ اسلامی تعلیمات ،تہذیب وکلچر سے کوسوں دور ہیں طالبات کے ارتداد کی وارداتیں بھی بیشتر انھیں کے دیے ہوۓ تہذیب وتمدن کا نتیجہ ہے۔
چھٹی کا وقت سات آٹھ بجے سے ہٹاکر بارہ یا ایک بجے کا رکھیں اس سے بے شمار مسائل کا حل نکل سکتا ہے مثلا مسلم طالبات کو حجاب کے مسائل سے نبردآزما نہیں ہونا پڑے گا۔
مسلمانوں میں جو اخلاقی انحطاط اور پستی پائی جارہی ہے وہ دور ہوگی یونہی تعلیم کا فیصد بھی بڑھے گا تعلیم کے میدان میں ترقی ہوگی آج مسلمانوں کے پاس ان کے اپنے ذاتی تعلیمی ادارے بہت کم ہیں۔ انھیں میرج ہال بنانے کا شوق تو بہت ہوتاہے لیکن ایک دو معیاری تعلیمی ادارہ نہیں کھول سکتے اسی وجہ سے مسلمانوں میں تعلیمی شرح فیصد بہت کم ہے اور دین سے بیزاری ہے۔ اور یہ دوری ہی مدارس پر افتاد کی باعث ہے کہ انھیں اصل دینی تعلیم کی جان کاری ہی نہیں تو اس کا درد کیا معلوم ہوگا!
مدارس اسلامیہ پر افتاد کی تیسری وجہ یہ ہے کہ جب سے اداروں کو ایڈ کرانے کا عمل شروع ہوا جب سے تعلیمی نظام بھی کمزور ہوگیا مزید جو ادارے رشوت کے لین دین کو حرام ٹھہراتے تھے جہاں اس کا سبق پڑھایا جاتا تھا وہیں سے رشوت کا بازار گرم ہوا جہلا دیدہ و دانستہ موٹی موٹی رقوم اساتذہ کی بھرتی کے نام پر وصول کرنے لگے، چوں کہ ادارے کی کمیٹی عموما جہالت کا پلندہ ہوتی ہے۔ وہ دنیادار ہوتے ہیں انھیں اس سے کیا سروکار کہ حکم شرع اس بابت کیا ہے؟
وہ تو پان چبانے والے گٹکھا اور سگریٹ پینے والے ہیں ایڈ مدارس کو انھوں نے تجارت کے نظریہ سے دیکھا اور ہرایک استاد کے رکھے جانے پر باقاعدہ بولیاں لگائی گئی یہ سلسلہ تادم تحریر جاری ہے اس موقع پر یہ منطق چلائی جاتی ہے کہ ادارے کے تعمیراتی کام کے لیے انھوں نے رسید بنوائی ہے۔
ادنی سی عقل رکھنے والا بھی بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ یہ رشوت کے سوا کچھ نہیں اگر واقعی یہ ادارے کی امداد تھی تو بحیثیت استاد مقرر ہونے سے قبل کبھی کیوں دو چار ہزار کی امداد نہیں کی کہ اب تیس چالیس لاکھ کی امداد کرڈالی۔ یا بعد میں بھی یہ سلسلہ جاری کیوں نہ رہا؟ دماغ کی بتی اس وقت گل ہوجاتی ہے جب بعض علما بھی اسی روش پر چل پڑے کہ جہال مکار عیار ناظموں مہتمموں نے ایسا کیا تو یہ بھی کرنے لگے انھوں نے رشوت مانگی انھوں نے فجأۃ دے دی۔
جب الہ باد ہائی کورٹ کا فیصلہ مدارس کے بابت ایکٹ 2004 کی منسوخی کا آیا تھا تو ایسے لوگوں کی نیند اڑ گئی تھی۔ ایسے مواقع پر کسی کو بھی سواے کاغذاتی کاروائی کے خرچ کے ایک روپیہ بھی دینے کی ضرورت نہیں تھی۔ پھر اس میں اقربا پروی بھی زوروں پر ہوئی، مستحقین کو نظر انداز کیا گیا جس نے موٹی رقم منہ پر ماری اس کا تقرر کیا گیا یا مستحق کا نام ہٹاکر اپنے ہی کسی نااہل کا تقرر کیا گیا
اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کے ایک بیان کی اخبار میں سرخی اس انداز سے لگی ہوئی تھی ” کہ لوگ بیٹی کو جہیز میں اور بہو کو منہ دکھائی میں دیتے تھے نوکری! یہ بات کافی حد تک درست ہے۔ نیز جو پہلی فارسی تک نہیں پڑھا سکتے موٹی رشوت دے کر 60، 70/ ہزار کی نوکری پارہے ہیں اور جو کامل استعداد رکھتے ہیں وہ دس ہزار پر قناعت کیے ہوۓ ہیں یہ بھی ہماری قوم کا علما پر ظلم ہورہا ہے۔
مدارس پر افتاد کی چوتھی وجہ حکومت کی مار ہے۔ وہ جانتی ہے کہ دین کی خالص سمجھ رکھنے والے یہی مدارس سے پڑھنے والے علما فضلا ہوتے ہیں ورنہ عوام کالانعام کو تو دین کی کوئی سمجھ نہیں اور اگر تھوڑی بہت ہوتی بھی ہے تو دین سے ہمدردی قطعا نہیں ہوتی۔
اس لیے آۓ دن ایسے قوانین بنتے رہتے ہیں جس سے مدارس کے چلنے میں صعوبتیں پیدا ہوں۔
اب تک ہم نے وہ باتیں ذکر کیں جو آۓ دن لوگوں کی زبانوں پر رہتی ہیں اور سب صداقت پر مبنی ہیں اگرچہ آپ کو اتفاق نہ ہو۔
اب ایک ماہ قبل دیے گئے الہ باد ہائی کورٹ کے فیصلے کا تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور معلوم کرنی کی سعی کرتے ہیں کہ مدرسہ تعلیمی ایکٹ 2004 کی منسوخی کے پیچھے کیا منصوبے کار فرما تھے۔
الہ باد ہائی کورٹ نے یو۔پی بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2004 کو یہ کہ کر منسوخ کردیا کہ یہ سیکولرزم کے اصولوں کے خلاف ہے۔اور یو۔پی حکومت کو ہدایات جاری کی کہ وہ مدارس میں زیر تعلیم طلبہ وطالبات کو مرکزی تعلیم کے دھارے کے نظام میں شامل کرے۔۔
واضح رہے کہ انشومن سنگھ راٹھور اور دیگر کئی عرض داشتوں نے الہ آباد ہائی کورٹ میں یہ عرضی دائر کی تھی کہ یو۔پی بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2004 کو منسوخ کیا جاۓ اس کی تائید میں حکومت ہند، ریاستی حکومت اورمحکمۂ اقلیتی بہبود کی جانب سے مدارس کے نظام تعلیم اور اسے ملنے والی امداد پر اعتراضات کیے گئے تھے۔ عرضی پر سماعت کے بعد جسٹس وویک چودھری اور جسٹس سبھاس ودیارتھی کی ڈویژن کی بنچ نے فیصلہ سنایا تھا کہ یوپی کے تمام مدارس کو بند کردیا جاۓ اور ریاستی حکومت مدارس میں زیر تعلیم تمام طلبہ کے لیے اسکولی تعلیم کا انتظام کراۓ۔
جب اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلینج کیا گیا تو کورٹ نے کہا کہ یہ جلد بازی میں لیا گیا فیصلہ ہے۔ دونوں فریقوں کے دلیل پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے اس لیے اس مقدمے کی انگلی سماعت جون میں ہوگی۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی اعتراف کیا کہ یو۔پی بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2004 غیر آئینی نہیں ہے ہندوستان کا دستور اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہر مذہب والا اپنے مذہب کے فروغ، مذہبی تعلیم کے فروغ کے لیے تعلیمی ادارے چلا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے مسلمانوں کو کچھ راحت ضرور ملی ہے لیکن خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے اس تبصرے کے بعد لگتا ہے کہ اگلی سماعت پر بھی فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہی آۓ گا۔
اس پورے معاملے میں ریاستی حکومت اور ان کے حامیان وکلا مع جسٹس کا یہ کہنا تھا کہ مدارس اسلامیہ میں بچوں کو جو نصاب تعلیم پڑھایا جاتا ہے وہ ناکافی ہے، اس سے بچوں کا مستقبل خراب ہورہا ہے، وہ بنیادی تعلیم سے محروم ہورہے ہیں۔ واضح رہے کہ حکومت ہند کے نظر میں بنیادی تعلیم اسکولی تعلیم ہے جو ابتدا سے انٹر، بی۔اے وغیرہ تک کہلاتی ہے اسی بوجہ سے اس کے فیصلہ میں یہ ہدایت بھی موجود تھی کہ اہل مدارس بچوں کا داخلہ پندرہ سال کی عمر سے قبل نہیں لے سکتے جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ پہلے بنیادی تعلیم مکمل کرلیں۔ اس ضمن میں کچھ لوگوں کے قلم اس پر بھی خوب چلے کہ مدارس اسلامیہ کو نصاب تعلیم بدل دینا چاہیے اور اسے حکومت کی منشا کے مطابق کرلینا چاہیے۔
لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اولا تو مدارس کو حکومت کی گرانڈ ہی نہیں لینا چاہیے تھا اور انھیں گورمینٹ سے منظور نہیں کرانا چاہیے تھا، اگر 10، 20، ہزار ماہانہ تنخواہ پر علما درس وتدریس کا فریضہ انجام دیتے رہتے تو فاقہ سے تو مرنہ جاتے، کہ اسلاف کی سنت بھی باقی رہتی نہ حکومت کا کوئی دباؤ ہوتا کہ وند ماترم کہو، جن گڑ من پڑھو، 26/ جنوری اور پندرہ اگست کو پرچم کشائی اور قومی گیت کی ویڈیو بناکر محب وطن ہونے کا ثبوت پیش کرو، نہ نصاب تعلیم میں تبدیلی کی بات آتی اور نہ ہی رشوت کا بازار گرم ہوتا شاید اسی وجہ سے صدر الافاضل نعیم الدین مرادآبادی جامعہ نعیمہ مرادآباد کے متعلق یہ وصیت فرما گئےتھے کہ کچھ بھی ہو لیکن حکومتی گرانڈ قبول نہ کرنا اور وہ آج تک پرائیویٹ ہی ہے
اور اگر حکومت کی امداد کو قبول بھی کرلیا اور مدارس کو ایڈ کرا بھی لیا تو مناسب تبدیلی کرنا ناگزیر تھا یعنی نہ تو یہ کہ مکمل عصری تعلیم کا رنگ اس پر چڑھادیا جاۓ نہ یہ کہ بلکل عصری علوم سے دور رکھا جاۓ، میں سمجھتا ہوں مدبرعلما نے اپنی صواب دید کے مطابق نصاب تعلیم میں عصری علوم مثلا: ہندی، انگریزی، سائنس، ریاضی وغیرہ کو شامل بھی کیا اور بہت سے طلبہ نے یونیورسٹیز کا رخ بھی کیا اور یو۔پی۔ایس۔سی کے امتحانات میں کافی حد تک کامیابی بھی حاصل کی اب اگر کوئی یہ چاہے کہ عصری علوم کو غلبہ دے دیا جاۓ اور عربی فارسی کے مضامین براے نام رہیں تو یہ اپنے ہے ہاتھوں دین مٹانا ہے ظاہر ہے
جب طلبہ مدارس میں اسکول و کالجز کی تعلیم حاصل کریں گے تو پھر تہذیب وکلچر بھی انگریزوں کا فولو کریں گے پینٹ شرٹ پہنیں گے داڑھیاں منڈائیں گے، جس کے نتائج ان طلبہ میں دیکھنے کو ملے جنھوں نے یونیورسٹیز کا رخ کیا پھر نہ کوئی مسجد کا امام بنے گا نہ مدرسہ کا مدرس اس لیے ہمارے دور اندیشی علما نے نصاب تعلیم میں خاطر خواہ ہی تبدیلی کی اور عصری علوم کو متداول علوم پر فوقیت اور غلبہ نہ دیا۔ دراصل بچوں کی بنیادی تعلیم کا بہانہ بناکر اسلام دشمن عناصر کا مذہب اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانا
ان کے وجود کو مٹانا حکومت کی منشا ہے اگر واقعی یہ خیر خواہ ہوتے تو مدارس کو بند کرنے کے بجاے اس میں درآئی خامیوں کی اصلاح کی کوشش کرتے، اس کے لیے ٹیچرس فراہم کرتے، طلبہ کے روشن مستقبل کی اگر انھیں فکر ہوتی تو پری میٹرک اسکالرشپ بند کرنے کے بجاے اس کے بجٹ میں مناسب اضافہ کرتے، اداروں کی تعمیرات کے لیے فنڈ مہیا کراتے، جب کہ یہاں اس کے برعکس ان چندوں پر بھی اعتراض ہے جن سے مدارس چلتے ہیں۔
دراصل ان کی نیت میں کھوٹ ہے، یہ چاہتے ہیں کہ مدارس بند کرکے مسلمانوں کے ایمان وعقائد کو مجروح کردیں، اسلام کی محبت ان کو دلوں سے نکال دیں، اور ہندو راشٹریہ کا جو ان کا خواب ہے وہ مدارس کو بند کیے بغیر شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا، آسام میں مدارس بند کردیے، یو۔پی میں بھی بند کردیے وہ تو کہیے کہ سپریم کورٹ نے فیصلے کے نفاذ پر روک لگادی
لیکن ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، آر۔ایس۔ایس حمایت یافتہ حزب اقتدار بی۔جے۔پی اگر پھر برسر اقتدار ہوئی تو مدارس کو بند کرنے، شعائر اسلام پر قدغن لگانے اور ہندو راشٹریہ کا اعلان کرنے سے انھیں کوئی نہیں روک سکتا اس کے بعد جو قتل وغارت ہوگی اس کا اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ پھر علما وائمہ پر ظلم وستم کرنے والے ناظموں، صدروں، سیکرٹریوں؛ اور مدارس کے ساتھ کھلواڑ کرنے والے اپنی ذمہ داری نہ نبھانے والے محنت سے نہ پڑھانے والے اساتذہ اور امام ومدرس کو اپنا غلام سمجھنے والی عوام کالانعام اور قوم کا پیسہ لوٹنے والے بازارو خطبا وشعرا کے ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔ وقت ہے ابھی سمجھنے کا سنبھلنے کا، ہم اپنی روش بدلیں سسٹم سدھاریں،
نصاب تعلیم معیار تعلیم وغیرہ میں مناسب تبدیلی کی جاۓ تعلیم کا معیار بلند ہوگا تو قوم مسلم ترقی کی شاہراہوں پر گامزن ہوگی، ظالم ان شاءاللہ! اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہوپائیں گے۔دراصل یہ چاہتے ہیں کہ اسلام کو مٹادیا جاۓ اس وجہ سے نت نئے منصوبے مسلمانوں کی شناخت مٹانے کے بناتے رہتے ہیں۔
کیوں ہراساں ہے صہیل نفس اعدا سے
نور حق بجھ نہ سکے گا نفس اعدا سے
وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
مدارس اگر بند ہوۓ تو یہ ہماری شامت نفس غفلت، اقربا پروی، رشوت خوری، دین سے بیزاری، دین کی سوداگری خانہ جنگی علما سے تنفر جیسے کاموں کی وجہ سے ہوگا۔ جیسے دیگر ممالک میں ہوا ترکی میں قرآن کی تعلیم پر پابندی لگائی گئی یہ سب دین سے بیزار ہونے کی وجہ سے ہے۔
تو نہ مٹ جاۓ گا ایران کے مٹ جانے سے
نشۂ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے
تو سمجھتا ہے یہ ساماں ہے دل آزاری کا
امتحاں ہے تیرے ایثار کا خود داری کا
کتبہ: محمد ایوب مصباحی
پرنسپل وناظم تعلیمات دار العلوم گلشن مصطفی بہادرگنج مرادآباد۔یو۔پی۔ہند
رابطہ: 8279422079