الیکشن 2024، ہم نے کیا کھویا کیا پایا

Spread the love

الیکشن 2024، ہم نے کیا کھویا کیا پایا ؟

تحریر محمد زاہد علی مرکزی

چئیرمین تحریک علمائے بندیل کھنڈ انڈیا

میں اٹھارہویں لوک سبھا یعنی ایوان بالا کے لیے تاریخوں کا اعلان ہوتے ہی چناوی بگل بجا اور ہر طرف الیکشن کا ہی رنگ چڑھا اور خوب چڑھا ، یہ الیکشن 19 اپریل سے شروع ہو کر 1 جون 2024 تک چلے ، انڈیا کے علاوہ دنیا کے کسی بھی ملک میں الیکشن کا دورانیہ اتنا لمبا نہیں ہوتا، 45 ایام کا وقت بہت زیادہ ہوتا ہے، خود انڈیا میں اس سے قبل دو سے تین مراحل میں بآسانی الیکشن ہوتے رہے ہیں – یوں ہی بڑی حیرت کی بات ہے کہ جب بیلٹ پیپر سے الیکشن ہوتے تھے تو چوبیس گھنٹوں کے اندر ہی نتائج کا اعلان ہوجاتا تھا، آج کمپیوٹر کے زمانے میں بھی 18/20 گھنٹے لگ رہے ہیں

ایک طرف کانگریس کا انڈیا الائنس رہا تو دوسری طرف بی جے پی کا این ڈی اے اتحاد، اس الیکشن کان پھوڑو پرچار سے عوام کو راحت رہی، الیکشن دو بنام دو رہا، ادھر سے پرائم منسٹر أور ہوم منسٹر ہی ساری ذمہ داری اٹھائے رہے اور ادھر حزب اختلاف سے راہل، اکھلیش لائم لائٹ میں رہے، چناوی سبھائیں دونوں پارٹیوں کے سربراہوں کے سر ہی رہیں

بہر حال سات قسطوں میں ہونے والے یہ انتخاب 1/6/24 کو اختتام پذیر ہوے – بروز منگل 4/6/24 کو نتیجے آئے، کسی کو اکثریت نہ ملی، ہر ایک اپنے اتحادیوں سے مل کر حکومت سازی کی کوشش میں لگا، لیکن یہاں این ڈی اے اتحاد کو کام یابی ملی اور اس طرح بی جے پی لگاتار تیسری بار حکومت بنانے میں کامیاب رہی، انڈیا الائنس کی ساری کوششیں فی الحال رائیگاں ہو چکی ہیں ۔

اس لوک سبھا میں پورے ملک سے 24 مسلم ایوان بالا میں پہنچے ہیں ، 2019 میں یہ تعداد 26 تھی، اب جب کہ حکومت بی جے پی کی بن گئی ہے تو سب سے بڑا سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر مسلمانوں کو کیا ملا؟ مسلمانوں نے کیا کھویا، کیا پایا؟

انڈیا الائنس نے مسلمانوں کے معاملات بالکل نہ اٹھائے نیز مسلم قیادت کو بھی جڑ سے اکھاڑ پھینکا، جمیعت کے کچھ مولانا حضرات کی مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویس صاحب سے الیکشن سے قبل ملاقات ہوئی جس میں انھوں نے کہا کہ آپ اس مرتبہ الیکشن سے دور رہیں

اویسی صاحب نے اس عرضی کو قبول کرتے ہوئے اپنے آپ کو اتر پردیش جیسے بڑے صوبے سے دور رکھا، لیکن ان مولانا حضرات کی سوچ پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے، ان حضرات کی کرم فرمائیوں کی وجہ سے ہی نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے ایک تیر سے دو نشانے سادھے ہیں،

(1) مسلم قیادت کو اپنے الائنس سے علاحدہ کرکے زیرو کردیا

(2)انڈیا الائنس بنا کر مسلمانوں کو ووٹنگ مشین بننے ہر مجبور کر دیا گیا، شُدّھ بھاشا میں کہا جائے تو “مسلمانوں کا ووٹ جوتا مار کر لیا گیا ہے “اتر پردیش جہاں 2014، 2017، 2019 ،2021 ،میں سماجوادی پارٹی لاکھ کوششوں کے بعد بھی کچھ نہ کر سکی، وہیں اس مرتبہ بڑی کام یابی حاصل کرنے میں کامیاب رہی، قریب تھا کہ یہ پارٹی بھی BSP کی طرح ختم ہوجاتی لیکن مسلم قیادت کو دور کرکے اور کانگریس سماجوادی کے اتحاد نے اسے دوبارہ زندہ کردیا – اس طرح مسلم قیادت ایک بار پھر سے پندرہ بیس سال پیچھے چلی گئی ہے

اس الیکشن وہ وقت آن پہنچا تھا کہ مسلم قیادت کو اگر چہ سیٹیں نہ بھی حاصل ہوتیں لیکن ووٹ فیصد بڑھنا یقینی تھا، اویسی صاحب کی پچھلے پندرہ سالوں کی شب و روز کی محنت سے جب مسلم قیادت کے بال و پر نکل رہے تھے تبھی 2024 میں لوک سبھا کی 80 سیٹوں میں سے قریب آدھی سیٹیں سماجوادی پارٹی کو مل گئیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب ودھان سبھا الیکشن میں مسلمان پھر سے سماجوادی اور کانگریس کی طرف شتر بے مہار کی طرح بھاگے گا، الیکشن بعد مسلمان پھر اس یتیم و لاوارث بچے کی طرح مارا مارا پھرے گا جس کا کوئی پرسان حال نہ ہوگا!!!

ہم سے بعد والے آگے نکل گئے اس سیاسی سیاسی میدان میں مسلمان 1952 سے چل رہا ہے اور گھوم پھر کر وہیں آجاتا ہے جہاں سے وہ چلا تھا، SP, BSP, RJD, JDU, NCP, TMC, TDP, JMM, JDS, BJD, RLD, LJSP, وغیرہ وغیرہ صوبائی سطح کی بے شمار پارٹیاں بنیں اور ہر ایک نے اپنے مفاد کو پایا، مسلمانوں نے ہر ایک کو جھولی بھر بھر ووٹ دیے اور ہر ایک نے گٹھری بھر بھر کے داغ دیے مگر یہ اک طرفہ عشق کے مارے ایسے سچے عاشق ہیں کہ دنیا ادھر سے ادھر ہوجائے، یہ اپنے عشق سے باز نہیں آ سکتے

بقول غالب ان کا کہنا ہے کہ محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے عاشق کو کیا مطلب دنیا میں کیا ہو رہا ہے کیوں ہو رہا ہے وہ تو اپنے معشوق کی ہزار برائیوں کو خوبیوں میں بدل کر دیکھتا ہے

اتنے سالوں سے اگر ہر مسلم آبادی والے صوبے میں مسلم قیادت کو صرف پندرہ، بیس سیٹیں دیتے تو آج حالات اتنے بدتر نہ ہوتے 

اس کو بھی پڑھیں : لو جی ڈراموں پر بھی سنی رنگ چڑھنے لگا

ہماری خوشی کے پیمانے ہماری قوم اس سہاگن جیسی ہے جو یہ چاہتی ہے کہ شوہر مرے تو مر جائے لیکن سوتن(سوکن) بیوہ ہو جائے، اسے یہ سمجھ ہی نہیں آتا کہ کہ شوہر کے مرنے سے خود بھی بیوہ ہو جائے گی، ہم اس پر خوش ہیں کہ ہم نے पूर्ण बहुमत سے حکومت نہیں بننے دی، 242 پر بی جے پی کو روک دیا

لیکن یہ نہیں دیکھ رہے کہ آپ نے مسلم قیادت کو بھی روک دیا ہے، بہت سے لوگ اسی پر خوش ہیں کہ دیکھیں اب حکومت کیسے چلے گی؟

تو کچھ اس پر خوش ہیں کہ دیکھو ملی جلی سرکار بنا رہے ہیں، کچھ ایسے بھی ہیں جو محض اس لیے خوش ہیں کہ اتر پردیش میں بری طرح ہار گیے تو کچھ اس لیے خوش ہیں کہ نیتیش بابو جلدی ہی پلٹا کھائیں گے، کچھ اس لیے بھی خوش ہیں کہ ہم نے چار سو پار نہیں جانے دیا، دیکھیے ہماری خوشی کے پیمانے، کیا اس سے ہماری قوم کی حالت بدلے گی؟

کیا مسلمانوں کے خلاف ہونے والی سازشیں رکیں گی؟ انھیں یہ سمجھ نہیں آتا کہ جو ساتھ دے رہے ہیں وہ بہت کچھ لے کر ساتھ دے رہے ہیں وہ آپ کے لیے کیوں بولیں گے؟ انھوں نے تو الیکشن ہی بی جے پی کے ساتھ مل کر لڑا ہے، بھلا وہ کس طرح تمہارے حقوق پر بات کریں گے

ہر ایک اپنا فائدہ دیکھے گا یا تمہارا؟ تمہیں تو وہ پھر مجبور کر دیں گے، دو چار پارٹیوں سے اتحاد کرکے تمہارا ووٹ تھپڑ مار کر لے لیں گے، تب تم کیا کروگے؟

انھیں تو اچھا فارمولہ مل گیا ہے ملک میں دو گروپ ہیں ہر ایک گروپ اپنے اپنے مطلب کی پارٹی سے اتحاد کرے گا اور آپ بس ووٹ ڈال کر بیٹھ جائیں، سوچو تم نے کیا کھویا کیا پایا؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *