حقائق کی لاشوں پر
’حقائق کی لاشوں پر (روزنامہ انقلاب میں شائع ہفتہ وار کالم رد عمل)
از قلم : ودود ساجد
ان دنوں ہندوستان میں 47 سالہ اسرائیلی فلم ساز ’نادو لیپڈ‘ کا بڑا شہرہ ہے۔نادو نے ہندوستانی فلم ساز ’وویک اگنی ہوتری‘ کی فلم ’دی کشمیر فائلز‘ کو لغو‘ بے ہودہ اور پروپگنڈہ فلم قرار دے کر ہندوستان میں ایک ساتھ کئی حلقوں کے پائوں تلے آگ سلگا دی ہے۔۔۔
یہ موضوع بڑا دلچسپ ہے۔اس پر لکھنے کیلئے کا فی وقت نکالنا پڑا۔ دراصل ’دی کشمیر فائلز‘ کے بارے میں گوا کے فلم فیسٹول کی تقریبات کے اختتام پر ’نادو‘ نے جوتبصرہ کیا ہے وہ ان کے دعوے کے مطابق پوری فلم جیوری کا متفقہ تبصرہ ہے۔ زیر نظر سطور میں اس موضوع سے متعلق چند نکات کا جائزہ لینا ضروری معلوم ہوتا ہے۔
جن احباب کو ’دی کشمیر فائلز‘ کے بارے میں پڑھنے کا موقع نہیں ملا ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ مبینہ طور پر ’دی کشمیر فائلز‘ ان کشمیری پنڈتوں کے دکھ درد کو بیان کرنے کے لیے بنائی گئی تھی جنہیں 80 کی دہائی میں کشمیر میں جاری انتہاپسندی کے تناظر میں وادی چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔
اس ضمن میں دو کلیدی آراء ہیں:ایک حلقہ کہتا ہے کہ کشمیری مسلمانوں نے کشمیری پنڈتوں کا بھرپور خیال رکھا لیکن اس وقت کے گورنرجگموہن نے کسی سیاسی مقصد کے تحت کشمیری پنڈتوں کو وادی چھوڑنے پر راضی یا مجبور کیا تھا۔
دوسرا حلقہ کہتا ہے کہ کشمیری پنڈتوں کو ایک طرف جہاں انتہا پسندوں کی دھمکیوں اور حملوں کا سامنا تھا وہیں دوسری طرف عام کشمیری مسلمانوں نے بھی ان پر جبر کیا اور تبدیلی مذہب تک پر مجبور کیا۔اور اسی سبب سے وہ وادی میں اپنے گھر بار چھوڑ کر دوسرے مقامات پر جانے کو مجبور ہوئے۔
جن مبصرین نے مذکورہ فلم دیکھی ہے ان کا خیال ہے کہ فلم واضح طور پر فرقہ وارانہ خطوط پر بنائی گئی ہے اور اس کا مقصد کشمیری پنڈتوں کے دکھ درد کو بیان کرنے سے زیادہ ہندو مسلم خلیج کو بڑھانا اور دونوں طبقات کے درمیان نفرت کو فروغ دینا ہے۔
سوال یہ ہے کہ فلم سازوں کو آخر ہندو مسلم خلیج اور نفرت کو بڑھاکر کیا ملے گا؟ اس کاجواب متعدد تبصرہ نگاروں نے دیا ہے۔
فلم پر شائع ہونے والے جائزوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس فلم کا اولین مقصد پیسے کمانا ہے۔ 20 کروڑ کی لاگت سے بننے والی یہ فلم 4 اپریل 2022 تک کی رپورٹ کے مطابق 331 کروڑ روپیہ کماچکی تھی۔
اس فلم کے بنیادی کرداروں میں انوپم کھیر سب سے نمایاں ہیں۔وہ چنڈی گڑھ سے بی جے پی کی ممبر پارلیمنٹ کرن کھیر کے شوہر ہیں۔وہ خود بھی دائیں بازو کے نظریات کے حامل ہیں۔
دی کشمیر فائلز میں وہی کشمیری پنڈت کامرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔یہ ایک بڑی خوفناک فلم ہے۔مبصرین کا خیال ہے کہ فلم میں یکطرفہ کہانی پیش کی گئی ہے۔
بعض مبصرین تو کہانی کو ہی بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ کشمیری پنڈتوں نے مصائب اور مسائل کا سامنا تو کیا ہی ہے۔وہ ایک عرصہ سے جموں اور دہلی میں پڑے ہوئے ہیں۔
ان کی نئی نسلوں کے سامنے روزگار کا استحکام سب سے بڑا مسئلہ ہے۔مجھے اس موضوع کے سیاسی پہلوئوں سے کوئی دل چسپی نہیں ہے
لیکن یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ جموں وکشمیر کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں کشمیری پنڈتوں سے اظہار یکجہتی کرتی رہی ہیں۔فاروق عبداللہ‘ میرواعظ عمر فاروق اور محبوبہ مفتی برابر کہتے رہے ہیں کہ کشمیری پنڈت ان کے معاشرہ کا حصہ ہیں اور انہیں وادی میں واپس آجانا چاہئے۔
اگر فلم ساز ان مظلوم کشمیری پنڈتوں کے حقیقی مخلص ہوتے تو و ہ ان کی محفوظ واپسی کوفلم کا مرکزی خیال بناتے۔اگر ہندوستان میں مظلوموں کے احوال پر اسی طرح فرقہ وارانہ خطوط پر مبنی فلمیں بنانے کا چلن شروع ہوگیا تو معاشرہ پر اس کے اچھے اثرات واقع نہیں ہوں گے۔
آخر نئی نسلوں کو ان دردناک حالات سے باخبر کرکے اور ان کے انسانی جذبات کو برافروختہ کرکے معاشرہ کو پر امن بقائے باہم کا ضامن کیسے بنایا جاسکتا ہے۔
پچھلے دنوں جب 600 سے زیادہ سنیما گھروں کے پردہ سیمیں پر اس فلم کی نمائش ہوئی تو پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف پھر ایک نفرت بھرا ارتعاش پیدا ہوگیا تھا۔ سنیما گھروں کے اندر ہی بہت ہیجان انگیز نعرے لگانے کے واقعات رونما ہوئے تھے۔ ایک طبقہ کو ہتھیار اٹھانے کیلئے کہا گیا تھا۔
بی جے پی کے کارکنوں‘ یہاں تک کہ بعض ممبران پارلیمنٹ نے اس فلم کی مفت نمائش کے انتظامات کئے تھے۔وزیر اعظم تک نے اس فلم کی ستائش کی تھی۔لیکن دوسری طرف اس فلم کے خلاف بین الاقوامی سطح پرتنقید بھی ہوئی تھی۔
اتنا پیسہ‘ اتنی تعریف اور اتنی تنقید کمانے کے بعد اس فلم کو بین الاقوامی فلم فیسٹول کے مقابلہ میں بھی شامل کردیا گیا۔انٹر نیشنل فلم فیسٹول انڈیا کے تحت گوا میں منعقد ہونے والی تقریبات میں نو دنوں کے عرصہ میں ججوں نے کل 282 فلمیں دیکھیں۔
ان کو دیکھنے میں 35 ہزار منٹ صرف ہوئے۔ان میں 183فلمیں دوسرے ملکوں کی اور 97 ہندوستان کی تھیں۔جیوری کے جس گروپ کو’دی کشمیر فائلز‘ سمیت 15فلمیں دکھائی گئی تھیں اس کے سربراہ اسرائیل کے شہری نادو لپیڈ تھے۔
ان کے علاوہ اس جیوری میں امریکہ کی فلم پروڈیوسر جنکو گوٹوہ‘ فرانس کے ڈاکیومینٹری پروڈیوسر جیویر انگولو بارٹرن‘ فرانس کی فلم ایڈیٹر پیسکیل شاونز اور ہندوستان کے فلم ڈائریکٹر سدپتو سین تھے۔
موخرالذکر نے بعد میں جیوری کے چیرمین کے بیان کو ان کا ذاتی بیان کہا لیکن ان کے علاوہ جیوری کے کسی ممبر نے چیرمین کے تبصرہ کی نکیر نہیں کی۔
جس وقت یہ سطور شائع ہونے کیلئے پریس جارہی ہیں سدپتو سین کے علاوہ جیوری کے باقی چار ممبران میں سے کسی نے بھی اس فلم کے لغو‘ بے ہودہ اور پروپگنڈہ ہونے کے تبصرہ کو واپس نہیں لیا۔
خود نادو لپیڈ ابھی تک اپنے بیان اور موقف پر قائم ہیں۔انہوں نے ہندوستان کے کئی صحافیوں اور چینلوں کو انٹر ویو بھی دئے ہیں اور جیوری کے ہندوستانی ممبر کے بیان کو یہ کہہ کر قابل فہم قرار دیا ہے کہ ان پر بہت دبائو ہے۔ انہوں نے دعوی کیا ہے کہ جیوری میں اس فلم پر تفصیلی مذاکرہ ہوا ہے اور سب نے اسے لغو قرار دیا ہے۔
انہوں نے فلم فیسٹول کی اختتامی تقریب میں اس فلم پر تفصیلی تقریر کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ وہ سمجھ نہیں پائے کہ فلم فیسٹول میں ایسی بے ہودہ فلم کو شامل کرنے کی کیا تُک تھی۔ایسا نہیں ہے کہ اس فلم کو پہلی بار اسرائیلی فلم ساز نے ہی لغو قرار دیا ہے۔اس سے پہلے ہندوستان میں ہی اس فلم پر سخت تنقید ہوتی رہی ہے۔
کشمیر کے پنڈت خانوادہ کے ایک ڈاکیومینٹری فلم ساز ’سنجے کاک‘ نے ایک تفصیلی جائزہ میں کہا ہے کہ ’دی کشمیر فائلز‘ دراصل حقائق کی لاشوں پر کشمیر کے سچ کی عمارت تعمیر کرتی ہے۔
سنجے کاک نے باریکی کے ساتھ جائزہ لے کر بتایا ہے کہ اس فلم میں کتنے مقامات پر کھلے طور پر فرقہ وارانہ مناظر اور نفرت انگیز مکالمے استعمال کئے گئے ہیں۔
انہوں نے لکھا ہے کہ فلم ساز نے اس عنصر کو چھپایا بھی نہیں ہے۔اس فلم کا جو فوری نتیجہ ہوا اسے بیان کرتے ہوئے سنجے کاک نے لکھا کہ فلم ختم ہوتے ہوتے بھگوا پگڑی پہنے ہوئے ایک شخص کھڑا ہوا۔
اس کے ایک ہاتھ میں چمکتا ہوا ترشول اور دوسرے ہاتھ میں موبائل ہے۔فلم کا اختتامی میوزک جیسے ہی ختم ہونے لگتا ہے وہ فلم دیکھنے والوں کو خطا ب کرتے ہوئے کہتا ہے: دیکھ لیا تم نے کہ کشمیری ہندئوں پر کیا گزری؟ اس لئے غدار….سے ہندئوں کو اپنی حفاظت خود کرنی چاہئے۔انہیں ہتھیار اٹھالینے چاہئیں۔ سنجے کاک بھی اس فلم کو تقریباً لغو‘ بے ہودہ پروپگنڈہ بلکہ جھوٹ اور نفرت کا پلندہ قرار دے چکے ہیں۔
ایک وہی نہیں متعدد مبصرین اور فلم ساز بھی اسے اچھی فلم نہیں بتاتے۔اسرائیلی فلم ساز کے اس تبصرہ سے پوری دنیا میں ایک بار پھر شرپسندوں کی ’بدنامی‘ ہوئی ہے۔
ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ آخر یہ ہوا کیا؟ فی الواقع یہ ایک عام تصور ہے کہ ہر اسرائیلی‘ فلسطینیوں کا مخالف اور انتہا پسند نظریات کا حامل ہے۔
اسرائیلی سیاستدانوں اور حکومتوں نے اسی تصور کو شہرت بھی دی ہے۔شہرت ہی نہیں انہوں نے فلسطینیوں کے خلاف عملی اقدامات کرکے اس تصور کو مزید پختہ بھی کیا ہے۔
لیکن فی الواقع وہاں بھی فلسطینیوں کے کھلے حمایتی نہ سہی ان پر ہونے والے مظالم کو بر ا سمجھنے والے لوگ موجود ہیں۔آپ کو یاد ہوگا کہ اسرائیلی فورسز کے مقابلہ میں “نبی صالح” کی رہنے والی ایک فلسطینی لڑکی ’احد تمیمی‘ کی شجاعت کا فی مشہور ہوئی تھی۔
جون 2018 میں اس نے ایک اسرائیلی فوجی کو زوردار طمانچہ رسید کردیا تھا۔اس فوجی نے اس کے15سالہ رشتہ کے بھائی کے منہ پر ربڑ کی گولی داغی تھی۔ نادو لپیڈ نے احد تمیمی کے نام پر ایک فلم ’احد کا گھٹنا‘ بنائی تھی۔اس فلم کا عنوان دراصل اس بیان سے لیا گیا تھا جو ایک اسرائیلی وزیر نے دیا تھا۔
اس نے کہا تھا کہ فورسز کو احد کے گھٹنے کا نشانہ لے کر گولی چلادینی چاہئے تھی۔نادو اسی طرح کی فلمیں بنانے کیلئے مشہور ہیں۔ان کی کئی فلمیں بین الاقوامی ایوارڈ حاصل کرچکی ہیں۔ا
ن کا موقف ہے کہ اسرائیل میں آزادی اظہار جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔وہ تل ابیب میں رہتے ہیں۔یہاں ہندوستان میں اسرائیل کے سفیر نے نادو کے تبصرہ کو نادو کی احسان فراموشی سے تشبیہ دی۔
فلم تقریبات کے منتظمین اورسرکاری حلقوں کو ان کے اس بیان کا بڑا ’دکھ‘ ہوا۔وہ سمجھ رہے تھے کہ ایک اسرائیلی فلم ساز اسی فلم کو سب سے اچھی قرار دے گا اور دنیا بھر میں اس کی شہرت بڑھے گی۔لیکن یہاں سب کچھ الٹا ہوگیا۔
نادو نے اتنا ضرور کہا ہے کہ اگر ان کے بیان سے کشمیر کے پنڈتوں کو تکلیف ہوئی ہے تو ان کا مقصد انہیں تکلیف پہنچانا نہیں تھا۔فی الواقع انہوں نے فلم اور فلم سازوں پر تنقید کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق وادی کے ایک لاکھ چالیس ہزار سے زیادہ پنڈتوں میں سے 90 ہزار پنڈت وادی کو چھوڑ گئے تھے۔ان کشمیری پنڈتوں کے تعلق سے مختلف رپورٹوں کا جائزہ بتاتا ہے کہ انہیں بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔لیکن ان کے مسائل کے حل پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ان کے وفود وقتاً فوقتاً اپنے نمائندوں اور حکومت کے وزیروں پر اپنے غصہ کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
مسلمانوں اور خاص طور پر کشمیری مسلمانوں کے لیے اس سے بہتر کوئی اور موقع نہیں ہوگا کہ وہ ان ستم رسیدہ اور خانماں برباد پنڈتوں کیلئے آواز اٹھائیں‘ انہیں وادی میں واپس آنے کیلئے آمادہ کریں‘ ان کی حفاظت کا معقول انتظام کریں۔ان کی جو بھی مادی اور اخلاقی مدد ہوسکتی ہو ضرور کریں۔
اسلام کا پیغام امن و محبت پہنچانے کا اس سے بہتر اور کوئی موقع نہیں ہوسکتا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ تمام مسلم تنظیموں کا ایک وفد اس سلسلہ میں وزیر اعظم سے مل کر ان پنڈتوں کے حق میں آواز بلند کرے۔۔۔
Pingback: بھیانک انجام سے پہلے ⋆ اردو دنیا ودود ساجد
Pingback: غداری کی آڑ میں ⋆ از : ودود ساجد