مولانا منور علی صاحب ندوی،شخصیت و تعارف!
مولانا منور علی صاحب ندوی،شخصیت و تعارف!
(معہد سیدنا ابی بکر الصدیق مہپت مئو لکھنؤ)
تعمیر معاشرہ میں اساتذہ کی جو خدمات ہوتی ہیں وہ ایک مسلمہ حقیقت ہے جس کا انکار سورج کے انکار کے مترادف ہوگا،
اس لیے ذیل میں آج ہم اپنے ایک نہایت ہی کریم و شفیق استاذ بلکہ کہنا چاہئے استاذ الاساتذہ حضرت مولانا منور علی صاحب ندوی پر مختصر تبصرہ کریں گے، چونکہ اس میں مولانا سے بذات خود کسی بھی طرح کی مدد نہیں لی گئی ہے اس لیے اسے ذاتی خیالات، تاثرات، مشاہدات و معلومات ہی تصور کریں۔
یوپی کے مئو سے تعلق رکھنے والے استاذ محترم جناب مولانا منور علی صاحب ندوی (تاریخ پیدائش 1/1/1967) کی آمد معہد سیدنا ابی بکر الصدیق مہپت مئو میں بغرض درس و تدریس اس زمانے میں ہوئی جب 1988 یا 1989 میں کلیم بھائی کی دکان کے سامنے موجود پیڑ کے نیچے سے ابتداء ہونے والے مدرسہ ”مدرسہ اسلامیہ مہپت مئو“
کو مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی علیہ الرحمتہ نے معہد سیدنا ابی بکر الصدیق مہپت مئو کا نیا نام دے کر دارالعلوم ندوۃ العلماء سے الحاق کر دیا، طاہر بھائی
(مسجد کے ملازم) کا کمرہ وہاں پر ایک چھپر ہوا کرتا تھا جس میں رحمت علی صاحب مع اہلیہ کے رہا کرتے تھے، انہیں دنوں مولانا منور صاحب کی معہد میں مبارک تشریف آوری ہوئی، جو کہ معہد کے لیے نیک فال ثابت ہوا، کیونکہ آپ کے خزانہ علم سے تقریباً تیس سالوں میں بیشمار طلباء نے جہاں ایک طرف علم کے گوہر لوٹے،
اخلاق کے زیور سے آراستہ ہوئے تو وہیں دوسری طرف تربیت کی اعلیٰ ترین شئے سے بہرور بھی ہوئے۔ میں مولانا کو ذاتی طور پر تقریباً آٹھ نو سالوں سے جانتا ہوں کیونکہ میرا داخلہ معہد میں اس وقت ہوا تھا جب کل تین پارے حفظ تھے، جو کہ معہد ھذا شعبہ حفظ میں داخلہ کے لیے شرط ہے انہیں دنوں مولانا سے ہمارا تعارف بھی ہوا، مولانا کو ہم نے شروع سے ہی نہایت خلیق و ملنسار پایا، تمام طلباء کے ساتھ یکساں محبت و شفقت ان کا خاصہ ہے،
کی حفاظت اور تعطیل کے دنوں میں صبح و شام ملازموں کی موجودگی کے باوجود خود آگے بڑھ کرلائٹیں روشن و گل کرنا ان کی فطرت ثانیہ ہے، چونکہ مولانا کے ذمہ ایک بورڈنگ کی ذمہ داری بھی ہے تو ان کی بورڈنگ کے طلباء بتاتے ہیں مولانا ہمارے لیے ہر اعتبار سے مشفق و مربی ہیں،
ہر وقت و مصیبت اور ضرورت کے وقت حاضر رہتے ہیں، کسی کا قول ہے کہ ”اگر آدمی کی حقیقت جاننا چاہتے ہو تو اس کے گھر میں برتاؤ کو دیکھو“ (غالباً حدیث کا مفہوم ہے) اس سے بڑھ کر بہترین اور کیا مثال ہو سکتی ہے۔ تقریباً تمام مدارس کے طلباء کا یہ حال ہے کہ وہ آپس میں اساتذہ کو مختلف کسوٹیوں پر رکھتے ہیں، (اب پتہ نہیں یہ ان کے لیے مناسب ہے یا نہیں لیکن اگر مولانا نسیم صاحب کی مانیں تو یہ طلباء کے حق بالکل مفید نہیں ہے،)
تو مولانا منور علی صاحب کے بارے میں تمام طلباء متفقہ طور پر تعریف کے جملے باندھتے ہیں چاہے وہ درجہ میں تعلیم کی بات ہو، یا باہر راہ چلتے کی ملاقات ہو، یا بورڈنگ میں نگرانی کا معاملہ، طلباء ہر جگہ انہیں نہایت شفیق و کریم پاتے ہیں اور یہی ایک کامیاب استاذ کی علامت بھی ہے۔ گذشتہ سالوں میں مولانا سے ہمیں پہلی مرتبہ پڑھنے کا اتفاق اس سال پہلی مرتبہ ہوا،
وہ بھی تفسیر کا عظیم گھنٹہ، مولانا جب قرآن کا درس دیتے تو عجیب کیفیت ہوتی، کئی اشکالات سوال سے پہلے ہی رفع ہوجاتے، اور پڑھانے میں ایسا تسلسل ہوتا کہ درمیان جب کوئی اچانک سے روک دیتا تو مولانا کی ہمت کمزور ہو جاتی ہے، اور ایسا ضعف کی وجہ سے ہوتا، مولانا ہر سوال کرنے والے کو اپنے انداز میں ایسا جواب دیتے کہ جواب بھی مل جاتا اور طلباء کو ہنسی کا موقع بھی، کئی مرتبہ تو کلاس میں طلباء خوب قہقہہ لگا کر بھی ہنس چکے ہیں،
درس طلباء بالکل چوکنا بھی رہتے تھے کہ پتہ نہیں کب کس سے اور کیا سوال کر لیں اور نہ بتا پانے کی صورت بانر بندر جیسے کلمات سن کر طلباء کے لیے ہنسی کا ذریعہ بن جائیں، مولانا کی ایک خاص عادت یہ ہے کہ آپ غصہ بھی ہوتے ہیں تو جھلکتا نہیں ہے کہ آپ غصہ میں ہیں
بعض اوقات کلاس میں کسی کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے کی نوبت آ بھی جاتی تو وہ منظر بھی الگ ہی (ڈانٹ کھانے والے ساتھی کے علاوہ کے لیے) پرکشش و لطف اندوز ہوتا۔ اب اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ مولانا کی شخصیت کیسی عظیم شخصیت ہے، بس پڑھانے کی دھن ہے، تعلیمی اوقات کے ضیاع سے نفرت ہے، دفتری معاملات میں دخل اندازی سے بیزار ہیں، کتب خانہ کی ایک ایک کتاب پر گہری نظر ہے
اس لئے اگر یہ کہہ دیا جائے پورے مدرسے میں آپ سے بڑھ کر علم کتاب میں کوئی ماہر نہیں ہوگا تو بالکل غلط نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر موضوع اور ہر فن کی کتابوں کی جانب فوراً ہی رہنمائی فرماتے، اور طلباء کو تذبذب و کشمکش سے بچا لیتے۔ آپ چونکہ معہد کے قدیم اساتذہ میں سے ہیں اس لیے تقریباً ہر موضوع پر کتابیں پڑھانے کا شرف حاصل ہو چکا ہے البتہ امسال آپ کے زیر درس یہ چند کتابیں رہیں
(۱) تفسیر قرآن مجید
(۲) ہدایہ
۳) منثورات
(۴) قصص النبیین
خامس مولانا نے معہد میں طویل عرصہ گذارا ہے، اس لیے معہد کے نشیب و فراز کو مولانا سے بہتر شاید ہی کوئی جانتا ہو، چنانچہ ایک مرتبہ پوچھنے پر بتایا کہ جب وہ یہاں آئے تھے تو ہر طرف جنگل ہی جنگل تھے، نئی بلڈنگ کی عمارت تصور میں بھی نہیں تھی،
مدرسے تک آنے کے لیے راستہ بھی سخت دشوار گذار تھا، پھر زمانہ بدلتا گیا، لوگ بدلتے گئے، ترقی ہوتی گئی، تو بارہ تیرہ سال قبل نئی بلڈنگ کی عمارت وجود میں آئی، پانچ چھ سال قبل اسٹاف کوارٹر کی عمارت۔ اسطرح گویا کہ معہد مولانا کی نظر میں ایسا ہے جیسے ایک بچہ اپنے دادا دادی کے سامنے کھیلتے کھیلتے کٹریل جواں ہوتا ہے۔
اللہ رب العزت نے آپ کو نہایت فرمانبردار اولاد سے بھی نوازا ہے، جن میں ذکور و انوث دونوں ہیں، ان میں سے ایک عبدالقادر سے تعلقات بہتر ہیں، جوکہ بس ایک سال جونئیر ہیں، اللہ رب العزت نے انہیں بھی خوب خصوصیات سے نوازا ہے، پڑھنے کا ذوق رکھتے ہیں،
جمعیۃ الاصلاح کی سرگرمیوں میں اس قدر حصہ لیتے تھے کہ ان کے لیے ہمیشہ میری زبان دعا گو رہتی ہے، مضامین و مقالات بھی لکھتے ہیں، تقریری صلاحیت بھی رکھتے ہیں، اللہ رب العزت استاذ محترم مولانا منور علی صاحب کا سایہ ہم پر تا دیر سلامت رکھے، اور ان سے خوب خوب فائدہ اٹھانے کی توفیق بخشے
آمین یا رب العالمین۔ قارئین یہ چند مختصر باتیں تھیں جو فی الوقت ذہن میں آتی گئیں اور نقش ہوتی گئیں۔ جاتے جاتے ایک کام اور لیتے جائیں کہ آپ بھی مولانا کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں جو اس تحریر میں درج ہونا چاہیے تو ہمیں بتائیں، نیز کوئی خاص واقعہ ہو تو بطور تبصرہ کے درج کر دیں۔ اظفر منصور 87389168543