یوم بِہار، اور بہار کا ماضی، حال، مستقبل
یوم بِہار، اور بہار کا ماضی، حال، مستقبل۔
آج دریائے گنگا کے پاک اور وسیع و عریض دامن میں آباد ایک مردم خیز سرزمین جسے ہم اور آپ صوبہ بہار کے نام سے جانتے اور پکارتے ہیں یوم تاسیس ہے،
یعنی آج ہی کے دن صبح آزادی سے 35 سال قبل 22مارچ 1912 میں ریاست بہار نے بنگال سے الگ ہو کر ایک علیحدہ ریاست کا درجہ حاصل کیا۔
اور پھر یہاں بھی باقاعدہ حکومتیں قائم ہونے لگیں، پھر بعد میں 1935 میں بہار سے الگ ہو کر اڑیسہ اور 2000 میں جھارکھنڈ بنا۔ اس طور سے بنگال سے بہار اور بہار سے پھر اڑیسہ و جھارکھنڈ ریاستیں قائم ہوئیں، ویکیپیڈیا کے مطابق صوبہ
بہار 1756ء میں بنگال میں شامل کیا گیا، 1803ء میں برطانوی راج کا تسلط ہوا، اور 22 مارچ 1947 کو ایک خودمختار ریاست بن گیا جس کے پہلے وزیراعظم بنے محمد یونس، اسطرح بہار کی دوسری زندگی کا ابتداء ہوئی،
لیکن اس وقت ہمارا موضوع یوم بہار اور اس کی حرماں نصیبی ہے۔
چنانچہ جب ہم تاریخ کے دریچوں سے ماضی میں جھانکتے ہیں تو آنکھیں چکاچوند رہ جاتی ہیں کہ کیا واقعی موجودہ بہار وہی بہار ہے جو تاریخ کے ان صفحات نے اپنے اندر چھپا رکھا ہے،
کیا موجودہ بہار واقعی اتنا تابناک تھا جتنا کہ ان لفظوں سے بنایا گیا، کیا نالندہ کی یونیورسٹی،
شیخ شرف الدین یحییٰ منیری کی پسند، سلطان اورنگ زیب علیہ الرحمتہ کا پوتا شاہ عظیم کا عظیم آباد (پٹنہ)، شیر شاہ سوری کا مزار، جمہوریت کا موجد ویشالی، اشوک کی پھلواری، پٹنہ کا گول گھر،سکھوں کے دسویں گرو گروگوند کی جائے پیدائش،
گاندھی نیل کھیتی کی ستہ گرہ، گاندھی کے قتل کی سازش اور بطخ میاں کے ذریعے ناکامی، مولانا مظہر الحق، بدھ،مہاویر،گرو گووند سنگھ،مخدوم بہاری،جئے پرکاش نرائن علامہ سید سلیمان ندوی، سر فخرالدین وغیرہ سب اسی بہار کی پہچان ہیں؟
یک گونہ حیرت ہوتی ہے اور سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے کہ اللہ رب العزت ایسی زرخیز زمین پر ہمیں پیدا کیا، یقیناً لکھنؤ کی اپنی ایک شان ہے، دلی کی پہچان ہے،
حیدرآباد کا وقار ہے، بنارس کا معیار ہے مگر اس دوڑ میں تو بہار بھی پیچھے نہیں ہے، اور تمام چیزیں اسی ایک سرزمین میں جمع ہیں، چنانچہ جب آپ کو لکھنؤی تہذیب کی تلاش ہو تو یہاں کے شہروں کی گلیوں میں ٹہلئے اور اگر اردو زبان کی تلاش ہو تو جہاں تک میں نے دیکھا ہے آپ سرکاری اور پرائیوٹ اداروں کو دیکھ سکتے ہیں،
خصوصاً ارریہ ضلع اور پورنیہ ضلع میں تو ہم نے کئی سرکاری عمارتوں پر ہندی کے ساتھ اردو زبان میں بھی نام وغیرہ دیکھے، جو کہ باقی صوبوں میں ندارد ہے، بہار کی دوسری سرکاری زبان کا درجہ جسے حاصل ہے وہ یہی اردو زبان ہے،
بہار کے عوام (عوام مذکر ہی مستعمل ہے،لیکن مشہور مونث ہے) بڑے جذباتی ہوتے ہیں، صوبہ بہار کے لیے یہ فخر کی بات ہے کہ اس کی تاریخ قدیم ہندوستان کے ساتھ ساتھ قائم ہے، اس کی پیٹھ پر کئی ایک حکمران ہوئے، جن کی وجہ سے زمانے کے لحاظ سے ترقی بھی ہوتی رہی،
لیکن افسوس اس کا ماضی جتنا تابناک،روشن اور واضح ہے حال و مستقبل اتنا ہی تاریک بھی، چنانچہ صبح آزادی کے بعد بہار میں جو شام ہوئی تھی وہ اب تک اسی حالت پر ہے، بلکہ اب تو مزید تاریک تر ہوگئی ہے،
چونکہ بہار مرکزی حکومت کے بننے پر ایک اہم رول ادا کرتا ہے اس لیے سیاسی بازی گروں کی وعدہ بازی نے بھی اس کی روح کو خوب مجروح کیا ہے،
بہار کے لیے یہ بھی ماتم کی بات ہے کہ اس کی زمین تو بڑی زرخیز ہے مگر یہاں کے رہنماؤں نے اس کی ناقدری بھی بہت کی ہے، جس کی وجہ سے بہار باقی صوبوں سے پسماندگی میں بہت زیادہ ہے،
اور تعلیمی معیار بھی اسی بنیاد پر متزلزل ہے، ایک رپورٹ کے مطابق تو ملک کا سب سے کمزور، غریب، ان پڑھ صوبہ ہونے کا اعجاز بد بھی اسے ہی حاصل ہے، لیکن اب الحمدللہ حالات بدل رہے ہیں، لوگ بیدار ہو رہے ہیں، حکومتیں متحرک ہو رہی ہیں،
تعلیمی تناسب بہتر ہو رہا ہے، ابھی 21 مارچ کو ہی انٹر میڈیٹ امتحان کا رزلٹ آیا جس میں کل 13 لاکھ سے زیادہ بچوں نے شرکت کی اور 10 لاکھ سے زیادہ کامیاب ہوئے، سڑکیں،
تالاب، پل، سیلاب، غربت، صحیح علاج یہ وہ مدعے ہیں جس کی طلب باشندگانِ بہار کے لیے اہمیت کا حامل ہیں، سرکار کوشش کر رہی ہے، بہار کو خصوصی درجہ دئیے جانے پر کاروائی چل رہی ہے،
بہار کی ایک خاص خاصیت یہ بھی ہے کہ پورے ملک میں اتنی بولیاں نہیں بولی جاتیں جتنی ایک صوبہ بہار میں، اس لیے بہار کے باشندے جب دیگر صوبوں میں جاتے ہیں تو ان کی پہچان ہی الگ ہوتی ہے، جو کہ بعضے معیوب ہے،
یعنی چونکہ بہار کا اکثر حصہ دیہات پر مبنی ہے اس لیے دیہادیت اور بدوی خاصیت زائل نہیں ہوتی، اس لیے بہار کے لوگوں کو خصوصاً تعلیم و تعلم سے منسلک افراد کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ بساط بھر ہر لحاظ صوبہ کو توانائی بخشنے کی کوشش کریں۔ یقیناً بہار ملک عزیز ہندوستان کا ایک اہم حصہ ہے اسکے بغیر ملک کی تاریخ نامکمل ہے۔