کیا اسلام سائنس کا مخالف ہے

Spread the love

کیا اسلام سائنس کا مخالف ہے؟

اسلام اور سائنس کے تعامل پر خاصا مواد موجود ہے لیکن اسلام اور جدید سائنس پر مواد کی بہت کمی ہے۔ اسلام اور سائنس کے حوالے سے عام طور پر عہد وسطی کے فلسفی اور یونانی سائنس کے تناظر میں ابن سینا، الکندی، الجاحظ ،امام غزالی ،

رازی،زمخشری اور دیگر حکماء نے یونانی فلسفے اور اسلامی نظریۂ علم و فن پر خاصا ذخیرہ چھوڑا ہے، لیکن یہ جدید سائنس کے لیے ناکافی ہیں کیوں کہ سائنس نوے ڈگری بدل چکی ہے۔ پچھلے پچاس برسوں میں جدید سائنس اور اس کی جستجو میں غیر معمولی تبدیلی آئی ہے۔

اس تبدیلی کے پیش نظر سر دست ہماری مراد یہاں سائنس سے جدید اور بالخصوص جدید مغربی سائنس ہے،جس میں اس تیزی کے ساتھ ترقی ہوئی کہ جس دور میں یہ ترقی کر رہا ہے۔

اس اکیسویں صدی کو سائنس و ٹکنالوجی کا دور کہا جانے لگاہے۔ اس ترقی کے ساتھ ضروری تھا کہ اسلام جیسے عالمگیر اور آفاقی اور الٰہی مذہب کے ساتھ اس کا تعامل ہوتا اور ہوابھی۔ لیکن حرماں نصیبی کہیے کہ اس سائنسی دور میں امت مسلمہ دوسری قوموں سے پیچھے رہ گئی اور یہ سوال بار بار ابھرتا رہا ہے کہ کیا اسلام سائنس کا مخالف ہے؟۔

حالانکہ اسی طرح اس کا مذہب اور عقائد و ایمان سے بھی کوئی لینا دینا نہیں ہے۔نہ وہ ایمان کے لیے کسوٹی ہے اور نہ ہی ایمان کو اس کی ضرورت ۔سائنس محض ایک ٹول ہے،ایک آلۂ کشف وتحقیق اورایک وسیلۂ تحلیل و تجزیہ ہے

اور بس۔اسی طرح اسلام کا سائنس کے ساتھ صرف اتنا کام ہے کہ وہ اس کے صحیح استعمال کو یقینی بنانے کے لیے خدائی رہنمائی اور گائڈلائن فراہم کرتا ہے۔سائنس کوئی مذہبی نظریہ نہیں ہے کہ یہ کسی مذہب و ملت کی مخالفت کرے یا تائید و توثیق۔ بلکہ سائنس وہ خالص تجرباتی تحقیق و تربیت کا علم و ہنر ہے، جہاں ہر نظریہ کی تصدیق و تائید، تجربات کی روشنی میں کی جاتی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جہاں سائنس نے تمام شعبہ ہائے زندگی میں آسانیاں پیدا کی ہے، وہیں گوناں گوں سائنسی ایجادات و آلات نے فروغ اسلام کے لیے اور دعوت و تبلیغ کےلیے بھی نئے باب کھولے ہیں۔

بالخصوص اطلاعتی ٹیکنالوجی نے اس سمت میں ایک عظیم انقلاب برپا کیاہے۔ جس سے دین و سنت کی تبلیغ و اشاعت کے نت نئے امکانات پیدا ہوے ہیں۔ طباعت و اشاعت کے ساتھ ذرائع ابلاغ کی فراوانی اور سہولتوں نے قرآن و حدیث کے دعوتی کام کرنے والوں کے لیے بہتر سے بہتر آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔ نئے نئے آفاق واکیے ہیں ۔لیکن ساتھ میں کچھ نئے چیلنجز بھی جنم لیئے ہیں۔ جس سے کماحقہ نپٹنے کے لیے ہمیں دینی علوم و معارف کے ساتھ جدید سائنسی علوم میں زیادہ سے زیادہ مہارت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔‌

آج سب سے مؤثر ہتھیار ذرائع ابلاغ ہے آنے والے دونوں میں فتح و کامرانی کا معیار آتشی و آہنی ہتھیار نہیں ہے۔ بلکہ ذرائع ابلاغ کے مؤثر استعمال ہوں گی ۔ سپرپاور اور ترقی یافتہ ہونے کے لیے پہلے کی طرح افرادی قوت کی بھی ضرورت نہ ہو گی بلکہ سائنس اور ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) میں مہارت رکھنے والے اور مزید نئی ایجادات و اختراع کرنے والے انسانی ذہانت و فطانت کی ضرورت ہوگی۔یہ کونٹم تھیوری اور نینو ٹیکنالوجی کا دور ہے۔

اختراعی و ایجادی قوت جس کے پاس زیادہ ہوگی ،وہی زیادہ طاقتور ہوگا، وہی حاکم و فاتح ہوگا۔ (اس کی مثال موجودہ وقت میں یہودی ہیں، ہم مسلمان نہیں ہیں) مؤمنانہ فراست کا تقاضا تو یہ تھا کہ ان نادر اور کامیاب ایجادات کا سہرا ہمارے سر ہوتا (جو کبھی ہواکرتاتھا) اور مؤمن ہونے کی حیثیت سے ہم ہی سربلند اور حاکم وقت ہوتے (جیسا کہ قرآن پاک میں ایک مؤمن سے مطلوب ہے۔ وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (139) ترجمہ:

اور تم ہی حاکم رہوگے اگر ایمان والے ہو) لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوسکا۔ اگر ہم مؤمنانہ فراست کے ساتھ، قرآنی ہدایات کے مطابق ،قرآنی آیات و اشارات پر ریسرچ و تحقیق کرتے،تو بہت ممکن تھا کہ ہم اس سے بہتر ،اچھا،سستا،پائدار

(sustainable)اور نیچر و فطرت کو کم سے کم نقصان پہنچانے والے ، اخلاقی اور انسانی اقدارو روایات کے کماحقہ حفاظت و صیانت کے ساتھ مؤثر آلات و وسائل دنیا کو دے سکتے تھے۔جہاں ترقی ضرور ہوتی لیکن تلبیس نہیں ہوتی۔ہم سچ کو جھوٹ اور برائی کو فیشن کے نام پر آگے نہ بڑھاتے، ٹکنالوجی کے پیچھے کرپشن کو شہ نہیں ملتی۔اس لیے یہ سچ ہے کہ مسلمانوں کے زوال سے صرف ان کا ہی نہیں بلکہ دنیا کا بڑا خسارہ ہوا ہے۔

(اس موضوع پر ماذاخسر العالم بانحطاط المسلمین نامی ایک مستقل کتا ب۔ اردو میں اس کتاب کا نام ہے :انسانی دنیاپر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر) لیکن ہم نے ان علوم و فنون کو اس وقت شجرۂ ممنوعہ سمجھا جب ہمیں اس کو قبول (adopt) کرنا تھا۔ افسوس کہ ہم نے اپنی تحقیق وتجربے کا موضوع نوے فیصد صرف کفر و شرک اور گمراہی اور بدعت کو رکھا۔ نتیجتاً کفر و شرک اور گمراہی کے تیرو تفنگ سے ہم اس قدر چھلنی ہو ے کہ انتشار ہمارا نصیبہ اور زوال ہماری قسمت بن گئی ۔

ہم اتنے کمزور ہوئے کہ آج ہم سے سر اٹھا کر جینے کا حق بھی چھینا جا رہا ہے۔ ہمیں ہماری شریعت پر عمل کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ ہماری مسجدیں چھینی جا رہی ہیں ۔پورے طور پر امت کو بالعموم مسلمانان ہند کو بالخصوص عضو معطل بناکر رکھ دیا گیا ہے۔کوئی بھی کہیں سے بھی ہمارے خلاف ،ہمارے مذاہب و مقدسات کے خلاف کچھ بھی بکواس کرتا ہے۔ اور ہم اس کا کچھ بھی بگاڑ نہیں پاتے ہیں۔ابھی آپ نے دیکھا ہوگا کہ کیسے سویڈن میں ایک شخص نے سویڈن حکومت کی اجازت لے کر عین عید الاضحیٰ کے دن مسجد کے سامنے قرآن کی بے حرمتی کی۔ اور اسے جلایا ،لیکن دنیا تماشائی بنی رہی، اور ملک عزیز کے بڑے بڑے اسلام کے ٹھیکیداروں کے منہ سے آہ بھی نہ نکلی، احتجاج و مظاہرے تو دور کی بات ہے اور عملی اقدام تو بھول ہی جائیں۔

ہمارے اہداف ان حالات میں ہمارے سامنے چیلنجز تو بہت ہیں لیکن ان میں دو بہت اہم ہیں: (۱) پہلا یہ کہ ہمیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ “اسلامی احکامات و معتقدات” کو انسانی فطری تقاضوں اور ضرورتوں کی تکمیل و ارتقاءکے لیے(خواہ ان ضرورتوں کا تعلق سول لاء سے ہوں کہ کرمنل لا یا سوشل جسٹس،یا پھر بنیادی اسلامی عقائد و نظریات سے ) غیر متبدل،غیر متغیر اور بلا کم و کاست اپنی ماہیت و حقیقت کے لحاظ سے اصلی و فطری شکل و صورت میں پیش کرنا چاہیے۔بلکہ اسلامی احکامات و معتقدات میں تبدیلی کی کوشش،ایک طرح سے انسانی فطری تقاضوں کی تکمیل و ارتقاء کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا ہے۔لہٰذا اس کا ثبوت بھی ہمیں اصلی اور فطری صورت میں اسلامی احکامات کو پیش کرکے دینا ہوگا، جہاں کامل پاکیزگی اور صاف ستھرے کردار و عمل کا نہ صرف لحاظ رکھا گیا ہو بلکہ اسے عملی طور پر برتا بھی گیا ہو۔ساتھ ہی تفقہ فی الدین کے تقاضوں کی روشنی میں سائنٹیفک طریقے سے شرعی احکام و مسائل کو رکھا گیا ہو ۔ کیوں کہ صرف فقہی جزئیات کے ذریعے زبانی جمع خرچ سے موجودہ انفارمیشن کے زمانے میں ہم نہ کامیاب ہوسکتے ہیں اور نہ ہی اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو چھپا کر بار بار دنیا کو اپنی جھوٹی سربلندی کا جھانسا ہی دے سکتے ہیں۔

(٢) دوسرا یہ کہ ہمیں اس غلط نظریاتی مفروضہ سے باہر نکلنا ہوگا کہ سائنس اسلام مخالف ہے۔کیوں کہ اس میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ قرآنِ مقدس و احادیث کریمہ میں ان گنت مقامات پر سائنسی حقائق سے تعامل و تماثل اس بات کے بین دلیل ہیں کہ اسلام سائنس کو مفید شئی تسلیم کرتا ہے ۔چنانچہ قرآن و سنت مین جابجا سائنسی عناصر مثلا طبیعیات (physics)، ہیئت (astronomy)، تخلیقیات (cosmology)، کونیات (cosmogony) جغرافیہ (geography)، کیمیاء (chemistry)، آثارِ قدیمہ (archaeology)، طبقاتُ الارض (geology)، موسمیات (meteorology)، فنِ تعمیر (architectonics)، فلسفہ (philosophy)، اَخلاقیات (ethics)، نفسیات (psychology)، قانون (law)، تعلیم (education)، زبان و اَدب (literature)،معاشیات (economics)، تاریخ (histography)، عمرانیات (sociology) وغیرہ جیسے ماڈرن سائنسی عناصر کے

ساتھ تعامل اور ان علوم کے اجزاء ترکیبی کی طرف اشارات و کنایات کے غیرمعمولی شواہد موجود ہیں۔طوالت کا ڈر نہ ہوتا تو ہر ایک پر مثال کے ساتھ روشنی ڈالتا۔لیکن خیر اہل علم اس سے واقف ہیں۔ کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہمیں زمینی طور پر بھی سائنسی تجربات کے ذریعے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ قرآن کا ایک ایک حرف غیر متبدل ہے اس کے بعد ہم یہ کہیں گے کہ اللہ فرماتا ہے کہ ”لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَٰتِ ٱللَّهِ ” یہ طریقہ استدلال اہل علم کے درمیان زیادہ مؤثر ہے۔ اور یہ قرآن پاک کی ہی حقانیت کی واضح دلیل ہے۔

لیکن اس کے برعکس طریقے پر عمل کرنا یعنی محض دعوی کرنا اور دلیل نہ پیش کرنا اہل علم کا طریقہ نہیں ہے ۔مثلاً ایک غیر مسلم سائنسدان جب اپنی سائنسی تجربات کو قرآنی آیات سے ملا کر دیکھتا ہے تو پہلے وہ قرآن پاک کی حقانیت کو دیکھ کر حیرت زدہ ہوتا ہے اور پھر اسلام قبول کر لیتا ہے،کہ اسے اس کے سائنسی تجربات نے ہی بتایا کہ یہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور یہ کہ ساری کائنات کا خالق و مالک بھی صرف ایک اللہ ہی ہے،

جو اپنی ذات و صفات میں وحدہ لا شریک ہے۔اس لیے اس طور پر ہمیں اسلامیات کا مطالعہ کرنا اور نسل نو کو اس نہچ پر کام کرنے لائق بنانے کی ضرورت ہے۔دوسری جانب ایک مسلمان گھر میں پیدا ہونے والا مسلمان، مدارس اسلامیہ میں پڑھتا ہے۔ عالم فاضل مفتی اور محقق بنتا ہے۔

اور پھر جب اس کے تحقیقات و نظریات ہمارے سامنے آتے ہیں تو ہم انہیں ضال مضل اور کافر و مرتد کہتے ہیں اور یہ صرف اس لیے کہ ان کے نظریات ہمارے نظریات کے مخالف ہوتے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اسکول

، کالج اور یونیورسٹی میں پڑھنا اور ڈاکٹر، انجینیئر وغیرہ بنانا گمراہی کی دلیل نہیں ہے اور ٹھیک ایسا ہی مدارس اسلامیہ میں فقط قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کرنا اور مفتی و محقق بنانا ہدایت یافتہ ہونے کی سند نہیں ہے۔ نیز آج اگر مسلمانوں میں ہزاروں فرقے ہیں تو ان میں سے ہر ایک فرقہ اپنے آپ کو سب سے زیادہ صحیح سمجھتا ہے اور اپنے علاوہ سبھی فرقے کو گمراہ یا مرتد تصور کرتا ہے۔ اور یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ میں یہ کہوں کہ میں اپنے آپ کو سب سے زیادہ صحیح سمجھتا ہوں حالانکہ اصل یہ ہے کہ اس کا صحیح فیصلہ تو اللہ تعالی قیامت میں ہی فرمائے گا اور ہمیں واللہ اعلم بالصواب پر ہی عمل کرنا ہوگا۔ کہ کون صحیح ہے اور کون غلط ہے یہ ایک تشویش ہے۔ جو باقی رہنی چاہیے۔ جس کے لیے آقائےکریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے کثرت سے استغفار پڑھنے کی تلقین فرمائی ہے۔ حیاۃ المؤمن بین الخوف الرجاء کا محصول بھی یہی ہے۔ قرآن ہر انسان کے لیے ہدایت ہے۔

“ھدیً للناس” بے شک قرآن ہر شخص اور ہر زمانے کے لیے ہدایت ہے، اور اگر ایک سلیم الفطرت شخص خواہ وہ مفکر ہوکہ دانشور،سائنسدان ہو کہ پروفیسر یا پھر وہ مدارس اسلامیہ کے فارغ عالم و فاضل اور مفتی و قاضی ہوں، قرآن کا غیرجانبدرانہ مطالعہ کرے گا توہ وہ کلام الٰہی سے متاثر ہوے بغیر نہیں رہ سکتا اور زیادہ امکان یہ ہے کہ وہ ہدایت کو بھی پالے۔ اس کے لیے نہ مدارس میں پڑھنا شرط ہے اور نہ مرید ہونا اور نہ کسی مسلم گھرانے میں پیدا ہونا، بس پاکیزہ قلب و ذہن کے ساتھ قرآن کو سمجھ کر پڑھنا شرط ہے۔ یہ بات عام ہے اور سبھی انسانوں کے لیے ہے۔لیکن اس سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ میں عالم و فاضل یا پیرو مرید کے خلاف ہوں ، کیوں کہ اس کی بھی بڑی اہمیت ہے اور اس کے بھی اپنے فوائد ہیں ،اس کے فیوض و برکات کا زمانہ شاہد رہا ہے۔ اور آج بھی ہے۔ چنانچہ ایک مسلمان کو اپنی زندگی ان چار درجے میں گزارنی چاہیے جس کا حکم حدیثوں میں ملتا ہے۔ حدیث ملاحظہ کریں:

عن أبي بكرة قال : سمعت النبي – صلى الله عليه وسلم – يقول :اغْدُ عَالِمًا أَوْ مُتَعَلِّمًا أَوْ مُسْتَمِعًا أَوْ مُحِبًّا ، وَلَا تَكُنِ الْخَامِسَةَ فَتَهْلِكَ۔ (رواه الطبراني في الثلاثة والبزار ، ورجاله موثقون)

ترجمہ: ابوبکرہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوے سنا کہ: عالم بنو یا متعلم،سامع بنو یا اہل علم سے محبت کرنے والے،لیکن پانچواں نہ بنو کہ ہلاک ہوجاؤگے۔(کچھ رویتوں میں پانچواں سے مراد ہے۔ اہل علم و تقویٰ سے دشمنی کرنا۔) حدیث مذکورسے یہ پتہ چلاکہ اگر ہمیں کسی چیز کاعلم ہو تو ہم اسے دوسروں تک پہنچانے والے بنیں، اور اگر کسی چیز کا علم نہ ہو ، یا کوئی شبہ ہو تو طالب علم بن کر اہل علم سے رجوع کریں، اور یہ دونوں بھی نہ ہوسکے جیسے کہ عام عوام جن کو دین کی کوئی ٹھوس معلومات نہیں ہوتی، تو ان کے لیے یہ ہے کہ وہ یا تو علماء کی مجالس میں بیٹھیں اور دین کی باتیں سنیں، اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہوتو اہل علم و دانش سے محبت کرنے والے بن جائیں یعنی آنکھ بند کر کے ان کی تقلید کریں اور عقائد و معمولات میں جو وہ بتائیں ان پر یقین کریں۔

انسان اپنی دنیا کو بھی جنت بنا سکتا ہے جنت کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ وہاں جنتی کوجن چیز وں کی خواہش ہوگی اسے وہ اسی وقت مل جائے گی۔ ظاہر ہے کہ یہ اعجاز اور فضیلت صرف جنت کی ہے۔ لیکن سائنس کی ترقی نے ہمیں جنت کی خصوصیات کو سمجھنے میں مدد کی ہے مثلاً: یہ دنیا جو ترقی پذیر ہے، ہر طرح کے وسائل میں روز ترقی ہو رہی ہے۔ یہاں تک کہ ایک شخص جو کچھ بولتا ہے وہ تحریر کی شکل میں اور جو لکھتا ہے وہ تقریر کی صورت میں تبدیل ہو کر پوری دنیا میں آن واحد میں پھیل جاتی ہے اور پھر ہزاروں کلومیٹر دور دنیا کے کسی بھی کونے سے اسے دیکھا اور سنا جا سکتا ہے۔ صرف ایک انگلی کے اشارے پر ہوائی یا زمینی سفرکرنے والے کو مطلوبہ سہولیات مل جاتیں ہیں۔

ایک بٹن دباتے ہی اس کے سامنے میز پر من پسند مشروبات و ماکولات پیش کیے جاتے ہیں۔ اب تو ایسی بھی ٹکنالوجی آگئی ہے کہ آپ صرف دل میں ارادہ کریں کہ ہمیں ہزاروں میل دور بیٹھا فلاں شخص سے بات کرنی ہے۔ اور آپ اس سے اسی وقت مربوط ہو کر بات کر سکتے ہیں۔ کہنے کا مدعا یہ ہے کہ فنگر پرنٹ، چشم زدن پر کرنے والی ٹکنالوجی تو ہمارے ہاتھوں میں کب سے موجود ہے ،اب آرٹیفیشیل انٹیلیجنس کے بعد آپ کے حرکات و سکنات اور گفتار و کردار اور طریقۂ فکر و نظر کے مطابق ٹکنالوجی از خود کام کرے گی وہاں آ پ کو نہ چشم زدن کی حاجت اور نہ ہی فنگرپرنٹ اور ون کلک کی تکلیف۔آپ جہاں سے گزرتے ہیں وہاں کے لوکیشن کے حساب سے آپ کے فون پر آیڈ آنے لگتا ہے کل کو سہولیات بھی آنے لگے گیں۔آپ بس کسی ریسٹورینٹ یا مال سے گزرے وہاں کی ساری چیزں آپ کے سامنے آپ کی سابقہ پسند و ناپسند اور حرکت و عمل کے حساب سے آپ کے سامنے ہوگی ، بس آپ کو استعمال کرکے آگر بڑھ جانا ہے ، رقم کی ادائگی بھی از خود ہوجائے گی۔

کچھ دن پہلے تک ہم اس طرح کے معاملات کو خرق عادت سے تعبیر کرتے تھے اور آج ہم ان امور کو اللہ تعالی کی دی ہوئی صلاحیت کے صحیح استعمال سے حقیقت میں تبدیل ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ جسے ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کا کرشمہ کہہ سکتے ہیں۔ اگر یہ سب حقیقت ہے اور یقیناً حقیقت ہے تو ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ سائنس اسلام کا مخالف نہیں ہے بلکہ حقیقتِ اسلام کو سمجھنے کے لیے معاون و مددگار ہے۔اور اس سے انبیاء کرام کے معجزات اور اولیاء کرام کی کرامات کی اہمیت بھی کم نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کے سچے ہونے کے امکانات مزید قوی ہوجاتے ہیں ، کیوں کہ جب مصنوعی ذہانت (اے آئی) یہ سارے کام کرسکتے ہیں تو پھر اللہ کی بنائی ہوئی اصلی ذہانت کا عالم کیا ہوگا۔ ایک سائنس داں اپنے سائنسی علوم اور تجربات سے قرآن و سنت کو بہتر طریقے سے سمجھ سکتا ہے۔ اور انسانی زندگی کے لیے بہتر سے بہتر سہولیات کے آلات بھی ایجاد کر سکتا ہے۔یقینی طور پر یہ ہماری غلطی تھی یا ہے کہ ہم سائنس کو علم دنیا کہہ کر ٹھکرا رہے تھے یا ٹھکرا رہے ہیں اور نتیجتاً ہم غلاموں کے بھی غلام بنتے جا رہے ہیں۔ علم دین اور علم دنیا کی تفریق کو مٹا کر ہمیں ہر علم نافع کی تحصیل و ترویج و اشاعت کرنی چاہیے۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو ہر طرح کے علم نافع سے آراستہ و پیراستہ کرے۔ دنیا و آخرت کی عزت صرف اور صرف اسی میں ہے۔

مدّعا تیرا اگر دنیا میں ہے تعلیمِ دیں ترکِ دنیا قوم کو اپنی نہ سِکھلانا کہیں

وا نہ کرنا فرقہ بندی کے لیے اپنی زباں چھُپ کے ہے بیٹھا ہوا ہنگامۂ محشر یہاں وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے دیکھ! کوئی دل نہ دُکھ جائے تری تقریر سے محفلِ نَو میں پرانی داستانوں کو نہ چھیڑ رنگ پر جو اَب نہ آئیں اُن فسانوں کو نہ چھیڑ

محمد شہادت حسین فیضی 9431538584

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *