اصلاح معاشرہ کی تحریکات ناکام کیوں
اصلاح معاشرہ کی تحریکات ناکام کیوں ؟
حافظ شہنواز احمد سلفی
یہ ایک عظیم اور ناقابل انکار حقیقت ہے کہ معاشرے کی اصلاح کے لیے اصلاح معاشرہ کی تحریکات بڑا اہم حصہ ہوتی ہیں ، امت میں جاری و ساری مختلف قسم کی تعلیمی و دعوتی ، اصلاحی ، و تجدیدی سرگرمیوں کا اور ان سرگرمیوں کے بغیر کوئی بھی معاشرہ اپنے تخصصات و تشخصات کے ساتھ باقی رہے یہ بات تقریباً نا ممکن ہے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا
اس لیے امت میں جہاں دعوتی و اصلاحی کاموں کا وجود ناگزیر ہے وہیں پر وقتاً فوقتاً اصلاح معاشرہ کی تحریکات کا سلسلہ بھی انتہائی ضروری ہے تا کہ امت مسلمہ اپنے تشخصات اور تخصصات کے ساتھ زندہ و باقی رہے ۔
اور یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ وقفے وقفے سے بعض نیک اور صالح عناصر اس تحریک کو لے کر اٹھتے ہیں تاکہ معاشرے میں در آنے والے فتنے امت میں برپا ہونے والی خرابیاں جو اسلامی عقائد اور دینی اعمال اور شرعی اخلاق کو اپنی لپیٹ میں لے کر بےجا رسومات بدعت و خرافات اور شرک کے دل دل میں اس کو پھنساتے جاتے ہیں
اس کا سد باب ہو اور امت اس شاہراہ پر قائم ہو جائے جو اس کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی اور سمجھائی ہے مگر حیرت ناک طریقے پر یہ بات بھی محسوس کی جاتی ہے کہ عام طور پر یہ تحریکات بہت جلد ناکامی کا شکار ہو جاتی ہیں اور پھر لوگ اس کو اس قدر جلد طاق نسیان پر رکھ دیتے ہیں کہ حیرت بالائے حیرت کے سوا کوئی تاویل و توجیہ ممکن نظر نہیں آتی ہے آخر اس قدر اہم اور ضروری کام ناکام کیوں ہو تے جا رہے ہیں؟ ۔
آخر اس اہم کام میں لوگوں کو ناکامی ہاتھ کیوں لگ رہی ہے؟
میں نے جہاں تک اس سوال پر غور کیا ہے تو اس کے چند وجوہات مجھے سمجھ میں آئی ہیں جو میں اس تحریر میں پیش کرنےکی کوشش کر رہا ہوں
اس کو بھی پڑھیں : حضرت اُم حکیم بنت حارث رضی اللہ عنہا
ناکامی کی پہلی وجہ
ایک وجہ یہ ہے کہ اس تحریکات کو لے کر اٹھنے والے اس کے داعی و محرک کو خود اپنی کوششوں پر اور یہ خود اپنی دعوت پر مطلوب یقین نہیں رکھتے ہیں ان کی دعوت تو یہ ہے کہ امت کی صلاح و فلاح کام یابی و کامرانی کا راز اس طریقے اور اس منہج پر ہے جو اس کو شریعت نے دی ہیں مگر خود ان کو اپنی دعوت پر مکمل بھروسہ اور یقین نہیں ہوتا ہے جیسا کہ ہونا چاہیے تھا
لہذا یہ حقیقت ہے کہ اگر داعی کو خود اپنی دعوت پر یقین نہ ہو تو وہ دعوت کبھی بھی موثر نہیں ہو سکتی ہیں اس کا ناکام ہونا طے ہے ۔
اسی لیے ہمیشہ دین کے کام یاب داعی وقائد وہ لوگ ہوئے جن کو اس دعوت ربانی پر پورا پورا یقین تھا اور وہ جب اس کو لے کر اٹھے تو پوری دنیا میں انہوں نے انقلاب برپا کر دیا پورے عالم میں ان کی آواز پھیل گئی اور لوگ جوق در جوق اسلام میں آتے گئے اور صحیح منہج کو اختیار کر کے اپنی آخرت کو سنوارتے گئے ۔
ناکامی کی دوسری وجہ
ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ داعی اور تحریکات کو لے کر اٹھنے والے کو اس دعوت پر یقین تو ہوتا ہے مگر وہ خود اس پر عامل نہیں ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں دعوت کا اثر ختم ہو جاتا ہے اور تحریکات ناکام ہو جاتی ہیں کیوں کہ داعی و محرک خود غیر شرعی ، امور میں مبتلا ہو غیر شرعی طور طریقے ، فکر ،اخلاق تہذیب و ثقافت سے متاثر ہو
جب داعی خود اپنی دعوت پر عمل نہیں کرے گا معاشرے کی اصلاح و درستگی سے قبل اپنی اصلاح و درستگی کی فکر نہیں کرے گا تو دوسروں پر اس کا کیا اثر چھوڑے گا ۔
لہذا تحریک کو لے کر وہ اٹھا ہے اس کے قانون اور اصول و ضوابط پر وہ خود عمل پیرا نہیں ہوگا تو اس کی دعوت ناکام ہو جائے گی اور سارے نکات دھرے کے دھرے رہ جائیں گے ۔
ناکامی کی تیسری وجہ
ان اصلاحی تحریکات کے ٹوٹ جانے اور ناکام ہوجانے کے پیچھے ایک تیسری وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ معاشرے کے اندر کچھ شر پسند عناصر اور مفسد ذہن رکھنے والے لوگ جو ہمیشہ تخریب کاری میں لگے رہتے ہیں وہ یہ نہیں چاہتے کہ اصلاح کی تحریکیں معاشرے میں اٹھیں یا پروان چڑھے کیوں کہ اس سے ان کے نقل و حرکت پر قد غن لگتی ہے
لہذا ایسی تحریکات ان کے لیے سوہان روح بن جاتی ہیں لہذا وہ اپنی پوری کوشش کرتے ہیں کہ یہ اصلاحی تحریکیں معاشرے میں پاؤں نہ پسارے اس لیے وہ سازش میں لگ جاتے ہیں اور اسے ناکام بنانے کے لیے غلط ہتھکنڈے اختیار کرتے ہیں جس سے اصلاحی تحریکیں عوام الناس میں اپنا اعتماد کھو بیٹھتی ہیں اور ناکامی کا شکار ہوجاتی ہیں اس لیے ایسے لوگوں کو تحریک سے جوڑنے کی کوشش اور انہیں مطمئن کرنے کی ضروری سعی کرنی چاہیے یا یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ان کی بات کا کوئی اثر معاشرے پر نہ پڑے ۔
ناکامی کی چوتھی وجہ
عموما یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ اس قسم کی تحریکات کی ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں مال داروں کو سرپرست قرار دیا جاتا ہے ایک مفکر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ سرپرست دینے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے مال داروں سے تحریک کو مدد ملتی ہے مالی منفعت ہوتی ہے اور کام کو آگے بڑھانے میں تعاون ہوتا ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مال داروں کی بھی ہر تحریک کو ضرورت ہے اور اللہ نے ان کو مال دے کر ان سے یہی چاہا بھی ہے کہ وہ اپنا مال دینی و اصلاحی تعلیمی، و دعوتی، تحریکات و سرگرمیوں میں لگائیں
مگر یہاں ایک بات پر توجہ ضروری ہے وہ یہ ہے کہ مال داروں میں سے جو حضرات تحریک سے عقیدتا وہ عملا متفق ہوں وہ تو سرپرست ہو سکتے ہیں تاہم دینی تحریکات کے لیے سرپرستی علما ہی کے شایان شان ہوتی ہے مگر محض مال داری کو بنیاد بنا کر سرپرست قرار دینے کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ تحریک ٹوٹ جاتی ہے کیوں کہ عقیدتا یا عملا اتفاق نہ ہونے سے یا تو پہلا سبب رونما ہوگا یا دوسرا سبب واقع ہوگا ۔(نقوش خاطر جلد اول صفحہ ۳۶)
ناکامی کی پانچویں وجہ
ایسی تحریکیں جب بھی وجود میں آتی ہیں تو اس میں مقدم شادی بیاہ اور اس میں ہونے والے غیر شرعی امور اور بے جا رسومات کی اصلاح سب سے مقدم مانی جاتی ہے اور ایمان و عقیدے کو درکنار کر دیا جاتا ہے جب کہ یہ ترتیب اصلاح نبوی ترتیب سے ہم آہنگ نظر نہیں آتی کیوں کہ نبوی ترتیب اور طریقہ یہ ہے کہ وہ اولا ایمان اور عقیدے پر محنت کرتے ہیں یقین بناتے ہیں اللہ پر توکل اور اعتماد کا درس دیتے ہیں آخرت کی فکر پیدا کرتے ہیں
جب انسان اپنے ایمان میں عقیدے میں پختگی لے آتا یقین و اعتماد کی پختگی دنیا کی بےثباتی اور آخرت کی پائیداری پر پورا بھروسہ کر لیتا اور فکر و طلب آخرت میں راستی کا حامل ہو جاتا تو اس کو عمل و اخلاق سے گزارتے تھے محرمات سے بچنے کی تلقین کرتے تھے رسومات اور رواجات کی برائی اس کے دل میں بٹھاتے تھے۔
لیکن آج ہمارے معاشرے کی حالت یہ ہے کہ لوگوں کا ایمان اور عقیدہ انتہائی کمزور ہو گیا ہے اور لوگ اپنے عقیدے میں ضعف کے شکار دن بدن ہوتے چلے جا رہے ہیں، دنیا کے حسن و جمال پر فریفتہ ہیں آخرت سے بے خبر ہیں ، موت کو بھلا چکے ہیں، قبر و حشر کی منزلیں ان کے لیے ایک کہانی کا درجہ رکھتی ہیں ایسی صورت حال میں ان کو یہ کہا جائے کہ رسم و رواج کو چھوڑو اور ان برائیوں سے بچو تو اس پر کاربند ہونا بڑا مشکل ہے۔
لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے اصلاح کے کاموں میں یہ ہونا چاہیے کہ ان تحریکات کو لے کر اٹھنے والے لوگ سب سے پہلے ایمان اور عقیدے کی اصلاح کریں یہ بتائیں کہ ایمان اور عقیدے پر ہی کام یابی اور کامرانی کا راز مضمر ہے اگر ایمان اور عقیدے میں بگاڑ ہو گیا تو کوئی بھی عمل عند اللہ مقبول نہیں ہوگا
لہذا پہلے ایمان و عقیدے کی اصلاح کرنے کی کوشش کریں تو تحریکات کام یاب ہوں گی ان حضرات کو چاہیے کہ ایسا اصول بنائیں کہ پہلے عقیدے اور ایمان کی دعوت لوگوں کو دی جائے گی ورنہ اس کی مثال ایسی ہے جیسے خون کی خرابی والے مریض کو جب پھوڑے نکلنے لگے تو ڈاکٹر نے اوپر اوپر لگانے کے لیے مرہم کا انتخاب کیا اور اس کو لگانے سے اس جگہ کا پھوڑا تو مندمل ہو گیا مگر خون کی خرابی نے دوسری جگہ سے پھوڑا نکال دیا
یہی حال ہوتا ہے اس تحریک کا جس میں ایمان اور عقیدہ بنایا نہ جائے دنیا کی بےثباتی ہے آخرت کی پائیداری اللہ پر یقین اور توکل جنت کی طلب اور دوزخ کا خوف پیدا نہ کیا جائے اور صرف عمل و اخلاق پر ابھارا جائے تو یہی ہوگا کہ تحریک کی وجہ سے ایک رواج تو ختم ہوگا ایک بدعت تو مندمل ہوگی لیکن وہ خود کوئی اور رسم یا رواج یا بدعت پیدا کر لے گا۔
خلاصہ تحریر یہ ہے کہ اصلاحی تحریکات کو کام یاب بنانے کی فکر کی جائے اور ان اسباب پر غور کیا جائے جس کی وجہ سے یہ ناکام ہوتی ہیں ۔
حافظ شہنواز احمد سلفی
بگھونویاستاد مدرسہ محمدیہ سلفیہ ماری پور مظفر پور بہار