جھوٹی دھن
جھوٹی دھن
جب مدہم مدہم سی اجلی کرنیں اپنے شباب پر ہیں ،رات کی ہلکی پھلکی سی کالی گھٹائیں زوال پذیر ہورہی ہیں ؎ ننھی ننھی سی تتلیاں اپنی دبی دبی سی بانہوں کو جان بخش رہی ہیں ،ستارے الوداعی تحیت کے بعد جانے کو ہیں
تمام پھول پودے اپنے گلے سے لباسِ شبنم اتار کر پھینک رہی ہیں ،کھوئے ہوئے مسافروں کو ان کی منزل مقصود سر چشم نظر آہی ہے ،آفتاب کی پر امید شعائیں ایک نئی آہ کی معیت میں ابھر کر زمانے کو بھر پور رنگ ہبا کر نے کے انتظار میں قطاریں بنائے کھڑی ہیں اور زمانے والے ایک نئی صبح کے منتظر ہیں اور اپنی روز مرہ کی زندگی سے ملاقات کر رہے ہیں ،ننھے ننھے بچے تبسم آمیز نگاہوں کو اٹھائے نئی شرارتوں کا ذخیرہ کھولنے کے منصوبے بنارہے ہیں
اور کسان اپنے کھیت اور کھلیان کی جانب خوشی کے ساتھ بڑھنے ہی والے ہیں تبھی گاؤں کے بیچ وبیچ والے گھر کی چھت سے بابورام انگڑائی لیتے ہوئے جاگتے ہیں اور بنا کسی دیری کے ماں کے پاس چائے کی درخواست لے کر پہنچ جاتے ہیں مگر ماں کہتی ہے ’’بیٹا ابھی تو سب لوگ سو رہے ہیں تمہاری بہن اورمیں ہی سو کے اٹھے ہیں ابھی ہم گھر کا سارا کام ختم کر لیں پھر چائے بناتے ہیں تب تک تم بھی منہ وغیرہ دھو لو ‘‘…
بابو رام نے نا چاہتے ہوئے بھی امی کی بات کو مان لیا کیوں کہ اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی اور دوسرا چارا نہیں تھا ۔ وہ سیدھا غسل خانے کی اور بڑھا اور معمول کے مطابق چائے پی کر کالج چل دیا حالاں کہ اس کے دیر تک سونے کی وجہ سے کافی تاخیر ہو چکی تھی مگر مسئلہ تو اٹینڈینس کا تھا نہ اسی لیے اسے نہ چاہتے ہوئے بھی کالج جانا پڑا ۔
کالج میں معمول کے مطابق شروعاتی دو گھنٹیوں میں اسے باہر کھڑا رہنا پڑا پھر انگلش کی گھنٹی میں اسے اندر کی اور داخلہ ملا … یہ سب باتیں تو ٹھیک ہیں مگر پچھلے کچھ دنوں سے بابو رام کے دماغ میں چند مسئلے ،وسوسے اور اچمبے میں ڈال دینے والے خیالات کافی پریشان کر رہے تھے ۔
اسے بار بار اس کے بابا کا خیال آتا رہتا تھا جن کا انتقال پچھلے سال کے ہندو مسلم فرقہ وارانہ تشدد میں ہوگیا تھا ۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ مسلمانوں کے محرم کے ایام بڑے زور وشور سے چل رہے تھے اور وہ دسواں دن تھا محرم کا آج مسلمانوں کی ایک بڑی بھیڑ ماتم مناتے ہوئے ،ہاتھ میں تلوار اور خنجر لیے ،بڑے بڑے حسینی علم لیے ،نعرے کی زور میں سینہ تان کے چلتے ہوئے اللہ اکبر اللہ اکبر کے کی صدائیں بلند کرتے ہوئے بازار سے نکل رہی تھی
اسی اثناء میں اچانک چند ہندو شرر پسندوں کی ایک جماعت نے ماحول خراب کرتے ہوئے مسلمانوں کی جماعت سے لڑ پڑے اور پھر معاملہ خانہ جنگی میں بدل گیا دیکھتے ہی دیکھتے دونوں فریقوں کے بہت سے لوگ شہید ہو گئے حالاں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا ۔
اسی بیچ بابو رام کے پتا جی بھی بازار گئے تھے تاکہ بابورام کے لیے نئی کتابیں اور گھر کی چند ضرورت کی اشیاء خرید لائیں مگر اس فتنہ وفساد میں بابور ام کے پتا جی جو بے قصور تھے ان کی موت ہو گئی جب تک پولیس آئی تب تک بہت دیر ہوچکی تھی جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتا آرہا ہے ۔
بہر حال دونوں جانب سے بہتوں کی گرفتار ی بھی ہوئی اور پھر ماحول ٹھنڈھا ہو گیا مگر جب بابورام اور اس کی ماں کو اس کے پتا جی کو پتا چلا تو بابو رام کو بہت بڑا صدمہ پہنچا اور دل ہی دل میں دونوں فریقوں کو برا بھلا کہنے لگا مگر اس کی رائے مسلمانوں کے زیادہ خلاف تھی کیوں کہ یہ ایک فطری بات ہے’’ جب مرنے والا ہندو تو مارنے والا ضرور مسلمان یا غیر ہندو ہی ہوگا ‘‘حالاں کہ جب فساد اور فتنہ کا ماحول ہوتا ہے تو یہ سب باتیں فضول ہوتی ہیں کیوں کہ بہت سے لوگ ایسے ہی مارے جاتے ہیں بنا ان کا مذہب جانے یا بوجھے ۔
بہر حال اب بھی بابو رام کے من میں ایسے بہت سارے سوالات تھے جن کا جواب بہت ضروری تھا ۔ وہ اکثر یہ خیال کرتا تھاکہ مسلمان غلط ہیں وہ دوسروں کی جان کی سلامتی نہیں چاہتے بس یہی خیال اسے اندر ہی اندر اور برا بناتا جارہا تھا ۔ایک لمحے کو یہ بھی سوچتا تھا کہ غلطی تو ہندؤں کی بھی تھی مگر پھر اپنے بابا کا خیال آتے ہی اسے مسلمان ہتھیارے نظر آنے لگتے تھے ۔
کیسے کیسے کرکے اس کی کلاس ختم ہوئی تو اس کے دوست راجن نے اس سے ملاقات کی اور دونوں چائے پینے کے لیے ٹپری پہنچ گئے چائے کے بعد دونوں نے ایک ایک سیگریٹ لی اور کش پہ کش لگاتے گئے یہاں تک کہ راجن کے پاپا نے انہیں اس حال میں رنگ ہاتھوں پکڑ لیا ۔ دونوں وہاں سے جان بچاتے ہوئے بھاگے ۔
راجن نے اپنی راہ لے لی اور بابو رام نے اپنی …بابو رام ابھی اسکول سے تھوڑی ہی دورپہنچا تھاکہ اس کے خالو مل گئے خالو نے بابو کو آواز دی ’’ارے بابو کہاں ؟ کیسے ہو بیٹا ‘‘…’’میں ٹھیک ہوں خالو ،ابھی جلدی میں ہوں پھر ملتا ہوں‘‘بابونے ڈرتے ڈرتے کہا کیوں کہ ابھی وہ جان بچا کر بھاگ ہی رہا تھا کہ اس کے خالو مل گئے اوریہ بابو کے لیے ایک نئی مصیبت تھی مگر نہ پسندیدگی کے باوجود اسے خالو سے ملنا پڑا کیوں کہ حالات کیسے بھی ہوں رشتے دراوں سے بنا کر رکھنے میں ہی بھلائی ہے ۔
بہر حال بابو خالو کے پاس گیا، دونوں قریب کے ایک ہوٹل پہنچے۔’’دیکھو بیٹا تمہاری ماں اور تمہاری حالت مجھ سے چھپی نہیں ہے ۔میں جانتا ہوں کہ تمہارے پاپا کے جانے کے بعد تم دونوں لوگ کافی اکیلا پن محسوس کرتے ہو مگر یہ ہمیشہ یاد رکھنا کہ تمہارا یاک خالو بھی ہے جو تمہارے دھک سکھ میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہے ‘‘… شکر یہ خالو …بابو رام نے کہا ۔خالو نے دھیرے سے کہا ’’اچھا سنو بابو !‘‘…ہاں خالو’’بابو نے جواب دیا …کیا ہوا خالو آپ نے آواز دھیمی کیوں کر لی ؟‘‘۔کچھ نہیں بیٹا ایک بات بولنی تھی ذرا ضرور ی بات ہے …خالو نے کہا ۔ٹھیک ہے بتائے خالو …
’’دیکھو بیٹا مجھے معلوم ہے کہ تمہارے پتا جی کو مارنے والے مسلمان ہی تھے ۔اور یہ لوگ کسی کے سگے نہیں ہوتے ۔اسلام تو دھرم ہی ایسا ہے جو لوگوں کو مارنے اور کاٹنے پر ابھارتا ہے ۔ارے یہ دھرم پھیلا ہی تلوار کی نوک پہ ہے ۔سمجھے ۔آج کل ہمارے ہندوستان میں ان مسلمانوں نے بہت کہرام مچا کر رکھا ہے ۔دیکھو دنیا میں سینکڑوں مسلم ممالک ہیں مگر کیا ہندؤں کے لیے کوئی خاص ملک ہے ؟ہندوستان تو ہندؤں کا ہے مگر یہاں سب لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں اس لیے ہم سمجھوتا کرتے ہیں مگر اب ہمیں سمجھوتے سے کام نہیں چلانا بلکہ ہمیں جاگنا ہوگا ۔
ان مسلمانوں کو پاکستان میں ہونا چاہیے کیوں کہ ملک کے بٹوارے کے وقت مسلمانوں کے لیے تو پاکستان دیا گیا تھا تو آخر یہ لوگ ہندوستان میں کیا کر رہے ہیں ؟
بابورام یا د رکھو اگر ہم آج نہیں جاگے تو یہ لوگ آنے والے دنوں میں ہمیں بہت گہرہ نقصان پہنچائیں گے ۔ ہمیں اب تیار ہو جانا چاہیے ورنہ تمہاری ہی طرح بہت سارے بابو رام کو اپنے پتا کی چتا کی جلانا پڑیگا …سمجھے کہ نہیں بابو رام ؟…خالو کی یہ سب بات بابو رام کے لیے در اصل بڑے دنوں سے اس کے دماغ میں چل رہے سوالوں کا جواب لگ رہا تھا ۔ایک حساب سے بابو رام کے وسوسے اب ختم اس غلط بیانی کی وجہ سے اسے اچھے لگ رہے تھے اب وہ بہت کچھ سیکھ چکا تھا اور بہت کچھ کر نے کے منصوبے بنا رہا تھا ۔
اس واقعے نے بابو رام کو مکمل طور پر فرقہ وارانہ تشدد کے منصوبے تیار کرنے میں مصروف کر دیا تھا وہ ہر وقت اور لمحہ صرف اس بات کے بارے میں سوچتا رہتا تھا کہ اسے اپنے بابا کا بدلہ لینا ہے اور ان مسلمانوں کی بربادی کی چاہت کو پورا کرنا ہے ۔…
یہ ایک الگ بات ہے کہ اس کے خالو نے اس کو مسلمانوں کے تعلق سے غلط معلومات دی تھی یعنی کہ جب بھی کوئی آدمی کسی دوسرے آدمی کو غلط معلومات بتاتا ہے یا پھر یوں کہہ لو کہ اسے مس انفورمیشن دیتا ہے تویہ معلومات ایسے انداز میں بتائے جاتے ہیں کہ جس سے سننے والے کو بہت اطمینان ملتا ہے اسے اس کی باتیں میٹھی دھن کی طرح حقیقی معلوم ہوتی ہیں حالاں کہ ان کا حقیقت سے دور دور تک کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے ۔
بہر حال یہ جھوٹی دھن انسان کواس قدر بہکا دیتی ہیں کہ پھر اس کے بعد انسان کوکوئی دوسری راہ نظر نہیں آتی ہے سوائے اس کے وہ اس جھوٹی دھن کا دیوانہ بن جائے ۔
تقریبا دو دن بابو رام اس بات کے بارے میں مسلسل سوچتا رہا پھر اس نے اپنے دوستو ں کو بھی اسی طرح سے مخاطب ہوتے ہوئے ساری بات بتادیا اور انہیں بھی اپنے گھنونے کام میں شامل کر لیا اسی طرح اس کے دوستوں نے اپنے دوستوں کوبتایا اور انہیں بھی شامل کر لیا یہاں تک یہ جھوٹی دھن کا ایک گروہ بن کے تیار ہو گیا جو اب کچھ الگ اور خراب کرنے کے انتظار میں تھے ۔
تقریبا تین ماہ بعد جب مسلمانوں کا تہوار ’’عید میلاد النی ﷺ‘‘آیا مسلمان اپنی ریلی نکال کر خوشی کا مظاہرہ کر نے کے لیے بازار میں داخل ہوئے ،ہر طرف خوشی کا ماحول تھا ،سارے لوگ مدح النبی میں مشغول تھے تبھی اس فتنہ انگیز اور اندھی تقلید کے قائلین کی جماعت میں سے ایک بندہ بندوق نکال کر ریلی میں گھسا اور سیدھا فائرنگ کیا جس کے بعد اچانک سارا ماحول خوشی سے افراتفری میں تبدیل ہوگیا ۔ ہر کوئی اپنی جان بچا کر بھاگنے لگا ۔پھر اس گروہ کے تمام لوگ فتنے میں ملوث ہوگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے سارا ماحول خون سے لت پت ہوگیا جس کا نتیجہ یہ ہواکہ بہت سے لوگ شہید ہوگئے جن میں اکثر تعدا د مسلمانوں کی تھی اور کچھ فتنہ پسندوں کی بھی تھی مگر کم تھی۔
اچانک پولیس نے اپنا کام شروع کیا اور تمام لاشوں کو جمع کرنے لگے تبھی دیکھنے والوں نے دیکھا کہ ان لاشوں میں ایک لاش بابورام کی بھی تھی ۔جس کے پہنچان کافی دیری سی ہوئی کیوں کہ اس کے چہرے کو کسی نے بہت برے طریقے سے زخمی کیا تھا ۔
یعنی مالحاصل یہ ہوا کہ جنگ نہ تو کسی بھی چیز کا حل تھا نہ ہے اور نہ ہی آنے والے دنوں میں ہوگا ۔اور جو لوگ دوسروں تک غلط میسیج یا مس انفورمیشن پہنچانے میں لگے ہوئے ہیں انہیں اس کام سے باز آجانا چاہیے ورنہ تو بہت بڑا خسارہ لازم آئے گا ۔
جس طرح بابو رام کے ساتھ ہوا اب اس کی ماں اس دنیا میں اکیلی رہ گئی تھی کوئی پرسانِ حال نہ تھا اور اب اس کی ماں کے زندگی دو بھر سی ہو گئی تھی ۔ بہر حال کہنے کی بات بس اتنی سی ہے کہ ہمیں کسی کی غلط بیانی پر اندھی تقلید میں ہاں نہیں بھرنا چاہیے بلکہ اس کی مکمل جانکاری حاصل کرکے پھر حقیقت سے واقفیت حاصل کرنا چاہیے پھر اسے قبول کرنا چاہئے ورنہ تو اس سے ہر کسی کا صرف اور صرف خسارہ ہی ہونے والا ہے ۔
سیف علی شاہ عدمؔ بہرائچی
متعلم جامعہ دارالہدی اسلامیہ
Pingback: آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا ⋆ سیف علی شاہ عدمؔ بہرائچی