مناظر اہل سنت حضرت علامہ مفتی محمد طفیل احمد رضوی نوری
مختصر حیات وخدمات : مناظر اہل سنت حضرت علامہ مفتی محمد طفیل احمد رضوی نوری کٹیہاری رحمۃ اللہ الباری
تاریخ ساز شخصیات میں ایک نام مناظر اھل سنت علامہ مفتی محمد طفیل احمد رضوی نوری رحمۃ اللہ علیہ کی ذات ہے، آپ علم و تقویٰ کے پیکر، ظاہری و باطنی فیوض و برکات کے درخشاں، درس و تدریس کے ماہر، صبر وقناعت کے بحر بے کراں، مسلک اعلیٰ حضرت کے پاسباں، وعظ وخطابت کے شہنشاہ، اخلاقی اوصاف سے پر اور مرجع‘ خاص و عام تھے آپ کی زندگی کا اکثر حصہ تعلیم وتدریس ، وعظ وخطابت، رشد وہدایت، ودیگر دینی خدمات میں صرف ہوا ۔
تاریخِ ولادت واسم گرامی ؛
آپ کی ولادت ٢١/صفرالمظفر ۱۳۸۰ھ مطابق ١٤ اگست ۱۹٦۰ء کو بروز یکشنبه ضلع کٹیہار (موضع آباد پور) پرمانک ٹولہ میں ہوئی ۔ اور والدین نے آپ کا نام (ایک صحابی رسول حضرت طفیل رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی نام) کے نسبت سے محمد طفیل احمد رکھا والدین کریمین ؛ آپ کے والد ماجد (جناب عین الدین مرحوم) شرافت، دیانت، پاکبازی اور مہمان نوازی میں مشہور تھے، دین دار اور صوم وصلاة کے سخت پابند تھے، نیز آپ کی والدہ ماجدہ بھی نہایت نیک، پاک سیرت عفیفہ، صوم و صلاة کی پابند تھیں۔۔۔ اور قدوة العارفین خواجہ وحید اصغر لطیفی قدس سرہ (تکیہ شریف رحمٰن پور) سے آپکے والدین بیعت تھے
آغاز تعلیم اور اس کے مراحل
آپ کی ابتدائی تعلیم مدرسہ رب البخش (آبادپور) میں مولوی نور عالم دیوبندی سے ہوئی۔۔۔ یہاں کچھ دن تعلیم حاصل کیا پھر آپ نے اعلیٰ تعلیم کیلئے اہل خانہ سے درخواست کی لیکِن اہل خانہ نے منع کر دیا اسی طرح معاملہ چلتا رہا ایک دن اتفاقاً ایک سنی عالم حضرت مولانا عبدالقادر رضوی شاگرد صدر العلماء غلام جیلانی میرٹھی علیھما الرحمہ (عرف حاسرو مقام تسلیا آبادپور) سے ملاقات ہوئی دوران گفتگو وہ سنی عالم یہ مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ آپکا چہرہ تو عالموں جیسا ہے، آپکو باہر تعلیم حاصل کرنا چاہیے،
چنانچہ یہ مشورہ آپ کے دل میں تیر کے مانند چبھ گیا پھر کیا ہوا یہی کہ اہل خانہ کو بتاۓ بغیر اس غربت کے عالم میں حصول علم کے لیے نکل پڑے،۔۔۔ اور مدرسہ یتیم خانہ سیوان جا پہنچے۔
تکمیل تعلیم ؛
اور کچھ عرصہ (مدرسہ یتیم خانہ سیوان) رہ کر مدرسہ فیض الرسول براؤں شریف (جو ایک عظیم درس گاہ ہیں) تشریف لے گیے وہاں اُس وقت (حضرت فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمۃ اللہ القوی کی ذات جلوہ گر تھیں) وہاں تقریبا دو سال علمی فیضان سے پر ہو کر جامعہ اشرفیہ مبارکپور میں داخلہ لیے اور حضرت شارح بُخاری مفتی شریف الحق امجدی و بحر العلوم مفتی عبد المنان اعظمی علیھما الرحمہ جیسی شخصیات سے شرفِ تلمذ حاصل کیا
بعد عالمیت وہاں سے بریلی شریف کی جانب رخ کیے (١٨جمادی الاول ١٤٠٢ھ بمطابق ١٤ مارچ ١٩٨٢ء بروز یکشنبہ 22 سال کی قلیل عمر میں) آپنے وہاں فضیلت کی تعلیم اعلی نمبروں سے کامیابی حاصل کی۔
تدریسی زندگی ؛
بعد فراغت درس تدریس کا آغاز آپنے مدرسہ انوارالعلوم جین پور (اعظم گڑھ اتر پردیش) سے کی نیز اپنے کرم فرما استاذ امام علم و فن حضرتِ خواجہ مظفر حسین رضوی پورنوی رحمۃ اللہ علیہ کے ایماء پر وہاں سے اپنے علاقے میں حُضور مفتی اعظم ہند نوراللہ مرقدہ کا قائم کردہ ادارہ (الجامعۃ النظامیہ فیض العلوم ملکپور دلکولہ: جو آبادپور سے تقریباً دو گھنٹے کا راستہ ہے) کی جانب رخت سفر باندھے اور یہاں کچھ عرصہ تک تدریس فرمائے
بعد ازاں مغربی بنگال (اشاپور و علی پور کلیاچک) میں تشریف لے گئے اور وہاں تقریباً سات برس تک مسلسل دینی خدمات انجام دیں اسی طرح آپ کا قائم کردہ (دارالعلوم جہانگیریہ منظر اسلام بچباری) میں تقریباً پچیس برس تک تدریس فرماتے رہے۔
مناظرہ وجامع خطاب ؛
مناظر اہل سنت ایک جامع الصفات شخصیت کے حامل تھے، بالخصوص آپ نے مناظرہ و جامع خطاب کے ذریعے بہت سے لوگ (جو دین وسنیت سے دیوبندیت کی طرف مائل ہو گیے تھے) آپ نے انھیں دین سے قریب کیا اور حکمت عملی، فہم و فراست کے بل بوتے سواد اعظم مسلک اہل سنت (مسلک اعلیٰ حضرت) کی سچی ترجمانی کی۔
تبلیغی دورے ؛
صوبہ بنگال وبہار اور جھاڑ کھنڈ، کے اکثر اضلاع جسمیں۔۔(شہر کلکتہ، سلی گڑی ، راج محل، مرشد آباد، بیربھوم، کشن گنج، کلیاچک، مالدہ، کٹیہار، رائے گنج، بنگلہ دیش بوڈر آتے ہیں) اور مختلف علاقوں کے چھوٹے بڑے دیہاتوں میں آپ نے تبلیغی دورے کیے۔
اخلاق و کردار ؛
آپ جہاں ایک باصلاحیت مدرس، مفتی، مناظر، مبلغ وخطیب تھے، وہیں آپ اخلاق کے دھنی بھی تھے، آپ کے حسن کردار کی وجہ سے آج بھی لوگ آپکو یاد کرتے رہتے ہیں، حتی کہ آپکے بعض متعلقین تو آپکی محبت میں باضابطہ روتے ہیں، نیز غیر مسلم بھی آپ کے اخلاق وکردار سے متأثر تھے، گویا آپ اخلاق نبوی ﷺ کے مظہر اتم تھے۔
تصلب فی الدین ؛
تصلب فی الدین یہ وہ عظیم وصف ہے جو مرد مومن کو بہت سے درجات و مناصب جلیلہ سے معراج کمال اللہ ورسول ﷺ کی محبوبیت تک پہنچا دیتاہے، چناں چہ مناظر اہل سنت کی زندگی کا جب ہم نے جائزہ لیا تو آپ‘ اس عظیم وصف کے سچے مصداق تھے۔
دارالعلوم جہانگیریہ منظر اسلام کا قیام ؛
یہ ادارہ آبادپور تھانہ کے قریب واقع ٢/کیلومیٹر کے فاصلے پر مقام بچباری میں قائم ہے، ادارے کی زمین کا کچھ حصّے بہار اور کچھ حصہ بنگال میں ہے۔۔نیز ادارے کو قائم کرنے کا سبب یہ بنا، کہ آبادپور کے گردونواح، بستیوں میں اس وقت باضابطہ طور پر اہل سنت والجماعت کا کوئی معیاری تعلیمی ادارہ نہ تھا جس کی بنا پر مناظراہل سنت نے اس ضرورت حال کو محسوس کیں اور آپ کی مسلسل جد وجہد نے ادارہ ھذا (سن ۱۹۸۹ء کو) قیام عمل میں لایا۔۔۔المختصر یہ کہ ادارے کی تعلیمی، تعمیری وترقی کیلئے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے پوری زندگی وقف کر دی۔
تصنیف وتالیف ؛
مناظر اہل سنت علیہ الرحمۃ کا زیادہ تر وقت تدریس وخطابت، بحث ومناظرہ اور دعوت وتبلیغ میں گزرا، لہذا آپ علیہ الرحمۃ کو تحریر و تصنیف کے لیے بہت کم اوقات میسر آیا اس کے باوجود آپ نے کئی یادگار تصنیفیں بھی چھوڑی لیکن افسوس! کہ کسی نے اسکو سرقہ بازی کر کے اہم درسی کتب کے (شرح و نوٹس) ضائع کر دیا، اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت نصیب فرمائے (آمین)
اجازت وخلافت ؛
چوں کہ آپ علیہ الرحمۃ کا دینی خدمات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکی تھی (خواہ درس وتدریس کی خدمات ہو، مساجد ومدارس کا قیام ہو، نیز قریہ قریہ، گاؤں گاؤں جا کر دین وسنیت کی تبلیغ کے حوالے سے ہو وغیرہ) لہذا آپ کو انعام‘ تو ملنا ہی تھا چناں چہ اسی دینی خدمات کے جذبے کو دیکھ کر تین بزروگوں نے آپ علیہ الرحمۃ کو اجازت وخلافت سے نوازا۔۔۔
وہ تین عظیم بزرگ یہ ہیں (۱) بقیة السلف حجة الخلف خلیفہ حُضور مفتی اعظم پیر طریقت حضرت علامہ مفتی عبدالخالق نوری پورنوی (سابق شیخ الحدیث منظر اسلام بریلی شریف) دامت برکارتہم العالیہ (۲) نبیرہ اعلٰی حضرت جگر گوشہ ریحان ملت، پیر طریقت تاج السنہ حضرت علامہ الشاہ محمد توصیف رضا خاں قادری بریلوی دامت برکاتہم الاقدس (۳) اور مناظر اعظم ہند فقیہ النفس خلیفہ حُضور مفتی اعظم حضرت علامہ مفتی مطیع الرحمن رضوی پورنوی دام ظلہ علینا
شرفِ بیعت ؛
آپ علیہ الرحمۃ ایسے ہستی سے بیعت ہیں جنہیں دنیا (شبیہ غوث اعظم، مرجع العلماء والمشائخ، امام العارفین، مجدّد ابن مجدّد شیخ الاسلام والمسلمین وغیرہ) القابات سے یاد کرتی ہے میری مراد حُضور مفتی اعظم ہند امام مصطفی رضا خان قادری نوری قدس سرہ القوی کی ذات ہے چنانچہ مناظر اہل سنت کو حضرت مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ الرضوان نے (۱۹۷۸ء میں) سلسلہ قادریہ، برکاتیہ رضویہ، نوریہ میں(دوران درس) داخل فرمایا۔
وصال شریف ؛
اور یہ تقویٰ و طہارت کا پیکر ، حسنِ اخلاق کا مظہر ، عشق و وفا کا چمکتا آئینہ، دین وسنیت كا رہنما ہمیشہ کیلیے ۲۲ ذی الحجہ(ولادتِ حُضور مفتی اعظم ہند) ١٤٣٧ھ بمطابق ٢٣ ستمبر ٢٠١٦ء بروز شبِ جمعہ ٣ بج کر ٢٥ منٹ پر بحالت علالت ذکرِ الٰہی کرتے ہوۓ اس دارِ فانی سے دارِ بقا کی جانب رحلت فرمائی۔ انالله وانا الیہ رٰجعون۔
جنازہ وآخری آرام گاہ ؛
اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپکو ہمہ گیر مقبولیت و شہرت عطا فرمائی چناں چہ آپ کا جنازہ بین ثبوت ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔۔۔۔۔نیز آپکی نمازِ جنازہ (مناظر اعظم حضرت علامہ مفتی مطیع الرحمن رضوی پورنوی دام ظلہ علینا) نے پڑھائی۔ اور ۔مدرسہ دارالعلوم جہانگیریہ منظراسلام بچباری (چانچل مالدہ بنگال) کے احاطے میں آپ ابدی آرام فرما ہیں۔
آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
اللہ تعالیٰ حضرتِ مناظر اہل سنت (مفتی طفیل احمد رضوی نوری قدس سرہ) کی درجات کو بلند فرمائے،اُن کے فیوض و برکات سے ہمیں مالامال فرمائے اور بالخصوص اُن کی دینی خدمات کو ہمارے لیے مشعلِ راہ بنائے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
از قلم: محمد توصیف رضا قادری علیمی
(بانی الغزالی اکیڈمی و اعلیٰ حضرت مشن، آبادپور تھانہ (پرمانک ٹولہ) ضلع کٹیہار بہار، الھند : متعلم دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی،بستی۔ یوپی
Pingback: غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے چند اہم ملفوظات وارشادات ⋆ شمیم احمد نوری مصباحی
Pingback: گیارہویں شریف کی برکتیں ⋆