مولانا مدنی کی تقریر کا تجزبہ
مولانا مدنی کی تقریر کا تجزبہ
تحریر : توصیف القاسمی
مسجد جھیل پیاؤ ( آئی ٹی او ) میں جمعیت علماے ہند کا ایک تربیتی پروگرام 30/ نومبر 2023 بروز جمعرات کو منعقد ہؤا جس میں دہلی و ہریانہ کی جمعیت کے ضلعی صدور و عہدے داران اور مساجد کے ائمہ کرام کافی تعداد میں موجود تھے۔ ضروری معلوم ہوتاہے کہ سب سے پہلے تربیتی پروگرام پر مختصر تجزیہ کیا جائے اور پھر مولانا ارشد مدنی صاحب کے خطاب کا تفصیلی جائزہ لیا جائے ۔
ناظم عمومی کی طرف سے کہاگیا کہ تمام ضلعی صدور کو دو دو منٹ دیے جائیں گے جس میں آپ حضرات کو عزائم ، مشکلات اور تاثرات رکھنے ہیں اور بس ! اس کے علاوہ نہ آپ کو ہماری تعریف کرنی ہے اور نہ وعظ ونصیحت کرنی ہے نہ ہی احتساب کرنا ہے ۔
کمال دیکھیے تمام حضرات نے ”مجھے بہت خوشی ہے “ سے بات شروع کی اور ”دعائیہ کلمات“ پر بات ختم کردی ، عزائم مشکلات اور تاثرات نہ جانے کہاں گم ہوگئے ، ویسے دو منٹ کا ٹائم دینا برکت کے لئے تو صحیح ہے مگر عزائم مشکلات اور تاثرات بتانے کے لیے یقیناً ناکافی ہے ۔
یہ صورتحال بتلاتی ہے کہ ارکانِ جمعیت کو کچھ نہیں معلوم ؟ نہ ان کو مسائل کا ادراک اور نہ ہی حل کا ، نہ ان کو وہ ڈھنگ معلوم ہے جس پر عمل کر کے کام کیا جائے ؟
پورے تربیتی پروگرام میں تین مسائل کی باز گشت بار بار سنائی پڑی ، زیادہ سے زیادہ مکاتب قائم کرو ، ووٹوں کے تعلق سے بیداری لائی جائے ووٹر آئی ڈی کارڈ میں اپنے نام کا اندراج کریں ، نوجوانوں کو نشے سے بچایا جائے ۔
بھارتی مسلمانوں میں مکاتب دو طرح سے چل رہے ہیں مساجد میں یا پھر محلوں میں قائم چھوٹے چھوٹے مدارس میں ، مکاتب کی مذکورہ دونوں ہی قسمیں مذہبی ضرورت کے تحت خودکار طریقے سے رواں دواں ہیں ۔ جمعیت علمائے ہند نے کونسے مکاتب قائم کیے ہیں ؟ کہاں قائم کیے ہیں ؟
جمعیت علمائے ہند کتنے مکاتب کا مکمل خرچ اٹھارہی ہے ؟
کچھ معلوم نہیں ہوسکا ۔ پورے تربیتی پروگرام میں ایسا کچھ نہیں بتایا گیا کہ مکاتب کیسے قائم کریں اور کہاں حقیقی ضرورت ہے کہ اس علاقے میں قائم کیے جائیں؟ ۔
پورے تربیتی پروگرام میں ووٹ بیداری یا ناموں کے اندراج کے تعلق سے ایسی کوئی تربیت نہیں دی گئی کہ آپ کو اس طرح سے یہ کام کرنا ہے ؟ ہاں مولانا شبیر احمد صاحب بنگلوری نے اہم نکات ضرور بتلائیں ہیں مگر یہاں جس طرح کا مجمع تھا اسکو پروجیکٹر پر کرکے دکھانا تھا ناکہ زبانی بیان ۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ موضوع ضلعی صدور یا روایتی علماء کرام کا نہیں ہے بلکہ ان نوجوان علماے کرام کا ہے جو انگلش زبان و ادب اور کمپیوٹر کی لائن کا تجربہ رکھتے ہیں ۔ نوجوانوں کو نشے سے بچایا جائے ، مگر کیسے ؟
جب یہ تربیتی پروگرام تھا تو ضروری تھا کہ اس سوال کا تفصیلی جواب دیا جائے ۔ میں نے آج تک کسی عالم دین کو یا جمعیت کے ممبر کو نہیں دیکھا کہ وہ نشے میں دھت مسلم نوجوانوں کے پاس گئے ہوں ، ان کی کاؤنسلنگ کر رہے ہوں ، ان کو موافق ماحول دے رہے ہوں ، ان کا علاج کرارہے ہوں ، یا جمعیت نے اپنے نشہ چھڑانے کے مراکز قائم کئے ہوں ؟
کن مسلم علاقوں میں نشے کا زور ہے ؟ جمعیت علمائے ہند نشے خلاف کس طرح کی بیداری مہم چلاتی ہے یا ارکانِ جمعیت کو چلانی چاہیے ایسا کوئی لائحہ عمل سامنے نہیں آیا ۔
مسلمانوں میں ایسے بہت سے افراد مل جائیں گے جن کی شراب تبلیغی جماعت نے چھڑائی ہے مگر ارکانِ جمعیت نے کتنے لوگوں کی شراب چھڑائی ہے اور کس طرح چھڑائی ہے ؟ اس کا کوئی رکارڈ یا سسٹم سامنے نہیں آیا ۔
قارئین کرام! آئیے اب حضرت مولانا سیّد ارشد مدنی صاحب کے اہم خطاب کا تجزیہ کرتے ہیں ، مولانا مدنی صاحب کا مکمل خطاب پانچ بنیادی نکات پر مشتمل تھا ، مکاتب قائم کرو ، اس نکتے کے تعلق سے بات ہوچکی ۔
دوسرے زیادہ سے زیادہ لڑکیوں کے اسکول و کالج بناؤ ، مولانا نے اس نکتے پر کافی زور دیا اور بار بار دیا ، مولانا نے جنوبی بھارت کے مسلمانوں کی اس تعلق سے کافی تعریف بھی کی کہ ان لوگوں نے اپنے اسکول و کالجز قائم کیے ہیں وہ لوگ قابل مبارک باد ہیں
جب کہ شمالی بھارت کے مسلمانوں کے شعور پر اظہارِ افسوس کیا اور کہا کہ شمالی بھارت کے مسلمانوں کے پاس دولت کی کمی نہیں ہے شعور کی کمی ہے ، دولت کو صحیح مصرف میں استعمال کرنے کا شعور نہیں ۔
یہ قدم بہتر تو ہے مگر اس قدم کے پیچھے جو ذہن کارفرما ہے یعنی مسلم بچیوں کے مرتد ہونے کا خدشہ وہ ”کوا کان لے گیا والا مسئلہ“ ہے ، الگ اسکول و کالج کی سوچ کے بارے میں ماہرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس طرح مسلمانوں کے اسکول مقابلہ آرائی کی فضاء سے محروم ہوجائیں گے جوکہ بہتر کارکردگی کے لیے بہت ضروری چیز ہے ۔
تیسرا نکتہ جو مولانا نے بتلایا ہے وہ یہ کہ تمام سیاسی پارٹیوں نے متحدہ طور پر مسلمانوں کو کنارہ کیا ہے ۔
بہت بہتر ہؤا کہ مولانا کی زبان یہ سچ سامنے آیا اور یہ ہی ”سچ“ بنیاد ہے مسلم سیاسی پارٹی کے وجود میں آنے کی ، مگر کمال دیکھیے جمیعت علماے ہند پوری طاقت سے مسلمانوں کی سیاسی پارٹی کی تشکیل کی مخالفت بھی کرتی ہے ، وہ مسئلے کی تشخیص تک پہنچ جاتی ہے مگر حل کی مخالفت کرتی ہے ۔
چوتھا نکتہ یہ تھا کہ لوجہاد کا کوئی تعلق اسلام سے نہیں ہے یہ فرقہ پرستوں کی طرف سے پھینکا ہؤا تیر ہے جس کی آڑ میں یہ لوگ خود مسلم بچیوں کو پھنسا رہے ہیں ۔
پانچواں نکتہ ، مولانا ارشد مدنی صاحب نے اپنے خطاب میں اسرائیل اور حماس کا تذکرہ بھی کیا اور کہا کہ حماس دہشت گرد تنظیم نہیں ہے بلکہ مجاہدین آزادی ہیں ، اس جنگ میں اب تک چودہ ہزار شہید ہوگئے کوئی گھبرانے کی بات نہیں ، آزادی حاصل کرنے کے لئے قربانی دینی ہی پڑتی ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ فلسطین کے حوالے امت مسلمہ کا یہ ہی جائز موقف ہے اور ہمارا ملک بھارت بھی اسی موقف کا حامل ہے ، مگر مولانا مدنی صاحب نے حکومت ہند کی طرف سے غزہ پٹی کی جو امداد کی گئی ہے اس کی تعریف و حمایت میں بخل سے کام لیا ہے ، بہتر ہوتا اس معاملے میں مولانا مدنی دل کھول کر بی جے پی حکومت کی تعریف کرتے ، حقیقت تو یہ ہے کہ مذکورہ معاملے میں تمام بھارتی مسلمان ہی کم ظرف ثابت ہوئے ہیں اور ان کی مذہبی و سیاسی قیادت مودی حکومت کا متحدہ طور پر کما حقہ شکریہ ادا نہیں کرسکی
حیرت ہے کہ وہ قائدین جن کے ناموں کے ساتھ ” زمانہ شناس “ کا لقب چسپاں رہتا ہے جن کے بارے میں خیال ہے کہ ”وہ عصریات کے ماہر ہیں“ وہ بھی اس معاملے میں مکمل طور پر خاموش رہے اور بی جے پی حکومت کا شکریہ ادا نہ کرسکے ۔
تحریر : توصیف القاسمی (مولنواسی) مقصود منزل پیراگپوری سہارن پور موبائل نمبر 8860931450