موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
راجہ محمود آباد عالی جاہ محمد امیر محمد خان کا سانحۂ ارتحال
از: فرحان بارہ بنکوی
اس دنیائے فانی میں ہر شے فنا اور ہر جان جاں آفریں کے سپرد ہونے کے لیے ہی ہے۔ ہر ذی روح کو راہئ ملک عدم ہونا ہی پڑتا ہے اور یہ ایک مسلمہ اور اٹل حقیقت ہے۔
اس کرۂ عرض پر کسی شے کو دوام اور کسی ذی روح کو حیات جاودانی اور عمرِ خضر نہیں عطا ہوئی ہے؛ البتہ کسی کی عمر کم ہوتی ہے تو کسی کی مدتِ حیات دراز ہوتی ہے؛ لیکن رفتہ رفتہ ’’زندگی‘‘ منزلِ آخرت کی طرف رواں رہتی ہے، آہستہ آہستہ زندگی کی قلابیں موت سے ملنے لگتی ہیں، اور بالآخر موت انسان کو اپنی آغوش میں لے کر اور تھپکی دے کر سلا دیتی ہے۔ انسان اس قلیل العمری اور مختصر سے زمانۂ حیات کے باوجود لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیتا ہے۔ اپنے اخلاق، عادات و اطوار، خوش خُلقی، زبان کی حلاوت و شیرینی، گفتگو بہ خندہ پیشانی و دیگر صفاتِ حسنہ کی بنا پر دلوں کو جیت لیتا ہے۔ اپنی کرم گستری کی بنا پر لوگوں کا محبوبِ نظر اور ان کا مربی و سرپرست بن جاتا ہے۔
انہیں مذکورہ صفات کے حامل عالی جناب ’’محمد امیر محمد خان‘‘ راجہ صاحب محمود آباد تھے؛ گرچہ بندۂ راقم کی راجہ صاحب محمود آباد کی زیارت اور شرفِ لقا کی دیرینہ خواہش تھی، جو شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکی؛ چنانچہ جب اُس ستودہ صفات کی جدائی اور فرقت کی جاں کاہ خبر موصول ہوئی تو رنج قلوب پر حاوی، دل خون کے آنسو رونے کے در پے اور ماحول ماتم کناں ہو گیا: ع
غم تو ایسا ہے کہ دل آنکھ سے کٹ کٹ کے بہے
آج کے دن ہر ذی شعور افسردہ و رنجیدہ ہے کہ جس ذات کا سایہ ’’سایۂ پدی‘‘ کے مثل ان کے سروں پر تھا، وہ آج ان کے سروں سے جاتا رہا۔ جو عظیم ذات عوام اور بالخصوص اہلِ محمود آباد کے لیے ہمہ تن متفکر و کوشاں رہتی تھی اور ان کی خیر خواہی کے تئیں ایوانِ سیاست تک نمائندگی کرتی رہی ہو، اس کا سایہ سر سے اٹھ جانا کسی قیامت سے کم نہیں۔
جو ذاتِ عالی اہلِ علم کے لیے پیکر خلوص و محبت ہو اورجس کے وجودِ مسعود سے تمام انسان بہرہ ور ہو رہے ہوں، جس کی علم دوستی کا نہ جانے کتنے تعلیمی اداروں کے قیام و بقا اور تعمیر و ترقی میں کلی اور کتنی ہی دانش گاہوں میں جزوی طور پر نمایاں کردار رہا ہو۔ اس کی علم دوستی کی زندہ مثالیں ’’مدرسۃ الواعظین‘‘، ’’مدرسہ سراج العلوم کتری کلاں‘‘، ’’کالون انٹر کالج محمود آباد‘‘ اور اس جیسی نہ جانے کتنی تعلیم گاہیں ہیں، جو آج اپنے سرپرست سے محروم ہو گئی ہیں۔
راجہ صاحب محمود آباد جناب ’’محمد امیر محمد خان‘‘ عرف ’’سلیمان میاں‘‘ کی ولادت ۳۰؍ نومبر ۱۹۴۳ء مطابق: یکم ذی الحجہ ۱۳۶۲ء کو اپنے آبائی قلعہ محمود آباد میں ہوئی۔ آپ کی پرورش اپنے والد بزرگوار خان بہادر راجہ محمد امیر احمد خان بن مہاراجہ محمد علی محمد خان کے سایۂ شفقت میں ہوئی۔
آپ نے تعلیم و تربیت کے مدارج والدِ برزگوار کی سرپرستی میں طے کیے؛ چنانچہ آپ کے تعلیم گاہوں میں لا مارٹنیئر کالج لکھنؤ، کیمبرج یونیورسٹی لندن، امپیریل کالج لندن بہ طورِ خاص قابل ذکر ہیں۔ آپ نے حصول تعلیم کے بعد کیمبرج یونیورسٹی میں ہی بہ طورِ استاد تدریسی خدمات انجام دیں۔
آپ نے محمود آباد کی عوام کی نمائندگی اور ان کے حقوق کی بازیابی کے واسطے محمود آباد حلقۂ اسمبلی سے کانگریس پارٹی کے ٹکٹ پر ۱۹۸۵ء اور ۱۹۸۹ء میں انتخاب میں حصہ لیا اور صوبائی اسمبلی میں نمائندگی کے فرائض انجام دیے۔
حکومتِ ہند نے قانونِ تحفظ ۱۹۶۲ء کے تحت آپ کی املاک ’’املاکِ دشمن‘‘ کے تحت اپنے قبضہ میں لے لی؛ چنانچہ ۱۹۷۳ء میں راجہ صاحب نے اپنی آبائی جائداد کے حصول کے لیے تگ و دو شروع کی اور ۳۰؍ برس جفا کشی اور مقابلہ آرائی کرتے رہے۔ ایک اندازے کے مطابق راجہ صاحب کی اثاثوں کی مالیت ۵۰؍ ہزار کروڑ سے زائد ہے۔
بہر حال راجہ صاحب جیسی عظیم شخصیت اپنے محبین و مخلصین کو داغ مفارقت دے گئی۔ فرشتۂ اجل نے ان کی روح قفس عنصری سے قبض کرکے عالم بالا میں پہنچا دی؛ کیوں کہ ’’اِذَا جَآءَ اَجَلُہُمْ لَا یَسْتَأْخِرُوْنَ سَاعَۃ وَلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ‘‘ فرمان برحق ہے۔
راجہ صاحب محمود آباد کی عمر تقریباً ۸۰؍ برس کو پہنچی اور آپ نے اپنی آخری سانس محمود آباد ہاؤس، قیصر باغ لکھنؤ میں ۴؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کی شب میں ۲؍ بجے لی اور اگلے روز ۴؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کی شام ۴؍ بجے کربلا محمود آباد میں تدفین عمل میں آئی۔ آپ کی دو نمازِ جنازہ ادا کی گئیں، پہلی نمازِ جنازہ شیعہ عالمِ دین مولانا سید حمید الحسن صاحب اور دوسری نمازِ جنازہ سنی عالم دین مولانا فضل المنان رحمانی صاحب (امام ٹیلے والی مسجد) نے ادا کرائی۔
آپ کی وفات سے علاقے میں سوگ کا سا عالم ہے اور ہر شخص اپنے مربی و سرپرست کے داغِ مفارقت دے جانے سے ذاتی خسارہ و نقصان محسوس کر رہا ہے۔
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے