تذکرۂ اسلاف بارہ بنکی

Spread the love

تذکرۂ اسلاف بارہ بنکی

تعارف و تبصرہ: ڈاکٹر محمد طارق ایوبی
نام کتاب: تذکرہ اسلاف بارہ بنکی
مؤلّف: فرحان بارہ بنکوی
صفحات: 320
قیمت: 450

مطبوعہ: نعمانی پرنٹنگ پریس، لکھنؤ
ملنے کے پتے بہت سے درج ہیں؛ اس لیے مؤلف کے موبائل نمبر پر اکتفا کی جاتی ہے: 9935499983

تذکرہ و سوانح ایک فن ہے، اور یہ فن نہایت محنت و تحقیق طلب ہے۔ اب اگر کوئی نوجوان اس میدان میں قدم رکھتا ہے تو واقعی یہ بڑے حوصلہ کی بات ہے۔ برادرم فرحان بارہ بنکوی نے مشاہیرِ بارہ بنکی کا تذکرہ مرتب کرنے کی سعی مشکور کی ہے۔ ممکن ہے کہ اہل علم و ادب کے لیے ان کا نام نیا ہو؛ مگر اس سے قبل بھی ان کی نگارشات شائع ہو چکی ہیں۔ اسی کتاب کے پشت پر لکھے ان کے تعارف سے آگاہی ہوئی کہ ان کی اور بھی کتابیں پہلے طبع ہو چکی ہیں۔ موصوف دار العلوم دیوبند سے فارغ ہیں۔ لکھنے پڑھنے سے شغف رکھتے ہیں۔ تعلیم و تعلّم، تدریس و تحریر ان کی زندگی کا مشغلہ ہے۔ ان کی یہ کاوش ان کے تعارف کا بہترین ذریعہ ہے۔

اس سے ان کی محنت و جستجو اور ذوقِ تصنیف و تالیف کا پتہ ملتا ہے۔ ۳۲۰؍صفحات کی اس کتاب میں انھوں نے پانچویں صدی ہجری سے پندرھویں صدی ہجری تک کی ۱۷۰؍شخصیات کا تذکرہ جمع کر دیا ہے۔ اس اعتبار سے کتاب کو اختصار و جامعیت کی خصوصیت حاصل ہو گئی ہے۔ آخر میں ماخذ و مصادر کی ایک طویل فہرست درج ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنّف نے ان تذکروں کو جمع کرنے کے لیے بڑی محنت کی ہے۔

آغازِ سفر اور عین جوانی میں اس طرح کی تحقیقی کتاب پیش کرنے پر جواں سال مصنّف لائقِ صد مبارک باد ہیں۔
کتاب میں سب سے پہلے ضلع بارہ بنکی کے صوفیا و اولیا کا تذکرہ ہے پھر علما و قضاۃ پھر شعرا و ادبا کا ذکر ہے۔

آخر میں چودہویں اور پندرہویں صدی کی ملّی، سماجی اور سیاسی شخصیات کا ذکرِ خیر ہے۔ کتاب کی تصنیف میں عام اور روایتی ڈھب اپنایا گیا ہے؛ چناں چہ آغازِ کتاب میں دعائیہ کلمات، کلماتِ عالیہ، تائیدی کلمات، کلماتِ بابرکت، تشجیعی کلمات، منظوم تأثر وغیرہ کی طویل فہرست ہے؛ حالاں کہ ایسی تحقیقی کتب ایک فنّی اور موضوعی مقدمہ یا کسی ایک باکمال مؤرخ و تذکرہ نویس و ادیب کے پیشِ لفظ سے شروع ہو جاتی ہیں، انھیں اس طرح کی تحریروں سے بلا وجہ بوجھل نہیں بنایا جاتا۔ تائیدوں کی ضرورت تو مختلف فیہ فقہی مسائل میں پڑتی ہے۔ مستند و محقق تاریخی مواد میں اس کی کیا ضرورت!

مصنّف نے کتاب کا نام ’’تذکرۂ اسلافِ بارہ بنکی‘‘ رکھا ہے، راقم کو اس نام پر دو اشکال ہیں۔ ایک تو ’’تذکرہ‘‘ کے ہمزہ پر اور دوسرے ’’اسلاف‘‘ پر۔ راقم کی نظر میں اگر اس کا نام ‘‘تذکرہ مشاہیرِ بارہ بنکی’’ یا اس طرح کا کوئی اور نام ہوتا تو زیادہ بہتر تھا؛ اس لیے کہ لفظ اسلاف کا یہاں لغوی اعتبار سے استعمال تو درست معلوم ہوتا ہے؛ لیکن اصطلاحی طور پر سلف و اسلاف میں اسلام کی ابتدائی مقدس ہستیوں یا توسع سے کام لیجیے تو گزرے ہوئے بزرگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

اسلاف میں چرکپن اور ہر قبیل کے سیاست دانوں کا تذکرہ ممکن نہیں۔ لفظ ’’اسلاف‘‘ لفظی اور اصطلاحی استعمال میں ایک عظمت و تقدس رکھتا ہے، جس سے چشم پوشی ممکن نہیں۔ عام طور پر شعرا و ادبا کے لیے بھی یہ استعمال نہیں ہوتا؛ بلکہ متقدمین کا لفظ مستعمل ہے؛ کیوں کہ اساطین بھی مدلول کے اعتبار سے عظمتِ فن کی قید لگاتا ہے۔ رہ گئی تذکرہ کی ’’ہ‘‘ پر ہمزہ کی بات، تو راقم کے ناقص فہم و مطالعہ میں تذکرہ بمعنیٰ سوانح مستعمل ہے۔ راقم نے ’’تذکرہ شعرائے فلاں‘‘، ’’تذکرہ علمائے فلاں‘‘ پڑھا ہے۔

خود اس کتاب میں جن چند کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے، ان میں سے ایک ’’تذکرہ شعرائے اتر پردیش‘‘ ہے، جس کو بار بار بدونِ ہمزہ لکھا گیا ہے۔ تذکرہ یہاں بطور مبتدا مستعمل ہے، اس لیے ہمزہ کی ضرورت نہیں، مضاف مستعمل ہوتا تو ہمزہ درست تھا؛ لیکن یہاں مضاف کے طور پر استعمال کی گنجائش نہیں۔ اس کے علاوہ اگر کوئی اور حکمت و راز ہو تو راقم سطور کی کوتاہ بینی اور کم علمی پر محمول کیا جائے اور راقم کو بھی اس سے مطلع کر دیا جائے۔

مصنّف کا یہ احساس بالکل درست ہے کہ ’’لیکن یہ عجب انگیز بات ہے کہ یہ خطہ جس قدر مردم خیز ہے، اسی قدر مؤرخین و تذکرہ نویسوں نے اس علاقے کی تاریخ اور یہاں کی سر برآوردہ شخصیات کے حالات کو سپردِ قرطاس کرنے میں انتہائی درجے کی غفلت اور بے اعتنائی برتی ہے۔ اسی بے توجہی اور بے التفاتی کی وجہ سے ’’بارہ بنکی‘‘ کی تاریخ اور اس خطۂ زرخیز کی قد آور شخصیات اور اسلاف و مشاہیر کے تعارف پر باضابطہ کوئی تفصیلی کتاب و رسالہ نہیں ملتا؛ جب کہ ’’بارہ بنکی‘‘ ہمیشہ سے سربرآوردہ شخصیات کا مرکز اور علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے اور اگر کہیں جزوی طور پر کسی علاقے یا شخصیت کے بارے میں کچھ تحریری طور پر ملا تو وہ اس قدر نادر و نایاب ہے کہ عوام کی رسائی تقریباً اس تک محال ہے؛ چناں چہ اسی بے توجہی اور بے اعتنائی کی وجہ سے اس خطۂ ارض کی علمی، دینی اور ادبی تاریخ پر نا واقفیت اور کم علمی کا ایک نہایت دبیز پردہ پڑا ہوا ہے اور ’’بارہ بنکی‘‘ کی تاریخ و شخصیت سے عوام تو کیا، خواص بھی ناواقف ہیں۔…….اور اگر تذکرہ نویسوں یا سوانح نگاروں نے اس خطّے کی شخصیات پر قلم اٹھانے کی زحمت گوارا فرمائی بھی تو اس قدر اجمالی پیش کیا کہ جس میں ان کے ابتدائی نقوش نظر ہی نہیں آتے۔‘‘ (ص: ۲۵

-۲۶)
واقعہ یہ ہے کہ اس طرح کی نا انصافی برتی گئی ہے اور کیوں نہ برتی جاتی جب کہ خود بارہ بنکی کے لوگوں نے اس جانب توجہ نہیں کی، تو پھر دوسروں کی بے اعتنائی سے کیا شکوہ؟ کچھ شخصیات پر مستقل کتابیں مل جاتی ہیں۔ عمومی تاریخ کے لیے ’’چودھری سیدعلی محمد زیدی‘‘ کی ’’تاریخ بارہ بنکی‘‘ تک خواص کی رسائی ہو جاتی ہے؛ لیکن اہم تاریخی شخصیات اور زمانہ ساز مشاہیر کا مجموعی تذکرہ نہیں ملتا، اس پہلو سے عزیزم محمد فرحان انصاری کی اس قلمی خدمت کو اوّلیت و تقدم کا درجہ حاصل ہے، ابتدائے سفر میں اگر کچھ کمیاں ہیں تو خلوص و شوقِ طلب سے انھیں دور کیا جا سکتا ہے۔ سیکھتے سیکھتے ہی انسان سیکھ پاتا ہے۔ چلنے والے کو ہی ٹھوکر لگتی ہے۔ گھٹنوں کے بل چلنے والا طفل نہیں گرتا۔ راقم کو احساس ہے کہ تمام تر جد و جہد کے باوجود برادرم فرحان نے عجلت سے کام لیا ہے۔ بعض ایسی کمیاں چھوڑ دی ہیں، جن کی طرف اشارہ ضروری ہے۔ آپ نے اوپر منقول اقتباس میں ملاحظہ کیا کہ مصنف کو تذکرہ نویسوں کے اختصار کا شکوہ ہے؛ جب کہ اس کتاب کا قاری بھی یہی شکوہ کر سکتا ہے اور آگے بڑھ کر اسے تضاد قرار دے سکتا ہے

گرچہ وجہِ تالیف اور غرضِ کتاب میں انھوں نے اپنے اختصار کی وضاحت بھی کر دی ہے؛ لیکن یہ سطریں پڑھ کر سوال تو پھر بھی پیدا ہوگا۔ یقیناً یہ انٹرنیٹ کا زمانہ ہے اور اس سے بڑی سہولیات ہو گئی ہیں، لیکن مجھے حیرت ہے کہ پروفیسر شارب ردولوی جیسے مستند ناقد کی نظر ان حوالوں کی طرف کیوں نہیں گئی، جن پر راقم کی نظر پڑی، ان کو قندیل آنلائن، ڈیلی آگ، قومی آواز ڈاٹ کام کے حوالوں پر اعتراض کیوں نہ ہوا؟

یا پھر انھوں نے بھی بہت سے بڑوں کی طرح بغیر پڑھے تبرکاً ایک تحریر لکھ دی؟ برقی حوالوں کو بہرحال تحقیق کی دنیا میں ثانوی حیثیت حاصل ہے، ان میں بھی جو تحقیقی مواد شائع کرنے والی سائٹ ہیں، ان کے حوالوں کو ہی اعتبار حاصل ہے۔ اب اگر نیوز، پورٹل کو شخصیات کے تذکرہ میں مرجع بنایا جائے تو یہ بڑی نامناسب بات ہے اور اس صورت میں جب کہ بنیادی مراجع دسترس میں ہوں مزید نامناسب ہے۔ میرے چچا مرحوم جو رئیس الشاکری کے نام سے معروف ہوئے، یہ ان کا قلمی نام تھا، اصل نام رئیس احمد تھا۔ ان کے کلام کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں، جو دستیاب ہیں اور ریختہ پر بھی موجود ہیں۔ ہر مجموعہ پر سوانحی خاکہ ہے؛ لیکن پھر بھی مصنف نے قندیل آنلائن ڈاٹ کام کے حوالے سے معلومات نقل کی ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مولانا کے والد کا نام منظور احمد ’’قدوسی‘‘ لکھ دیا ہے، اور اس طرح گویا نسب ہی تبدیل کر دیا ہے؛ جب کہ مولانا ہمیشہ مولانا منظور احمد لکھا کرتے تھے، قدوسی نسبت ہمارے پورے خاندان میں کوئی نسبت ہے ہی نہیں۔ اس طرح عم مکرم کا تذکرہ علما کے ضمن میں کیا گیا ہے؛ جب کہ وہ نعت گو شاعر کی حیثیت سے معروف ہوئے۔

یہ الگ بات کہ بنیادی طور پر وہ ندوہ سے فارغ التحصیل تھے؛ لیکن ان کا تعارف ہمیشہ بحیثیت شاعر ہی ہوا۔ شعرائے بارہ بنکی میں ان کا ذکر نہ ہونا فن اور شخصیت کے ساتھ نا انصافی ہے۔
شاہ معین الدین احمد ندوی مرحوم کے نامِ نامی سے کون واقف نہیں، ہندوستان کے مرکز علم و دانش دار المصنفین اور اس کے مشہور زمانہ رسالہ ’’جمعارف‘‘ کے مدیر سے علومِ اسلامیہ سے شغف رکھنے والا نا واقف ہو، اس کا گمان بھی گناہ لگتا ہے۔

میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے کتاب میں شاہ صاحب کا تذکرہ نہ پایا۔ صفحہ ۱۹۳؍ پر چودھری محمد علی ردولوی کا تذکرہ ہے، جو چودھری صاحب ردولی کی پہلی شخصیت ہیں جن کی حیات و خدمات پر بارہ بنکی کے ہی ڈاکٹر انور حسین صاحب نے پی ایچ ڈی کی۔ ڈاکٹر صاحب کا تھیسس کتابی صورت میں شائع بھی ہوا اور دستیاب بھی ہے؛ لیکن چودھری صاحب کے تذکرہ میں اس کا ذکر تک نہیں ہے کہ ان کی حیات و خدمات پر پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی لکھا گیا ہے، جو بہر حال حیرت انگیز ہے۔

کتاب کی زبان کہیں بڑی نکھری ہوئی ملتی ہے، کہیں قدیم رنگ نظر آنے لگتا ہے۔ کہیں ایسی بھدی زبان نظر آتی ہے کہ ’’مولانا…..تلاشِ مرشد کے چکر میں مبتلا تھے‘‘ (ص:۱۱۲) کہیں مولویانہ رنگ ایسا غالب ہوتا ہے کہ ’’اسلاف‘‘ میں مذکور چرکپن کا تذکرہ بھی پڑھیے تو لگتا ہے کہ کسی با کمال بزرگ کا تذکرہ ہے۔ پروف و تلفظ اور زبان کی غلطیوں سے ہم صرفِ نظر کر رہے ہیں؛ لیکن ضخیم کو ’’زخیم‘‘ لکھے جانے پر ماتم کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ موصوف مصنف عالم ہیں، مدرسہ کے فارغ ہیں، عربی سے واقف ہیں، اس لیے یہ سوال بھی واجب ہے کہ جب نزہۃ الخواطر اصل عربی کتاب موجود و دستیاب ہے اور لکھنؤ ’’بارہ بنکی‘‘ سے دور بھی نہیں، تو پھر اس کے اردو ترجمہ کو مرجع کیوں بنایا، اصل کتاب سے رجوع کیوں نہ کیا۔ کتاب پڑھ کر یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ جس کا تذکرہ مفصل ملا، اس کا ذکر مفصل ہے۔

جس کا ذکر مختصر ملا، اس کا مختصر تذکرہ کر دیا گیا۔ جہاں سے بھی حوالہ ملا قبول کیا، اور جہاں سے معلومات نقل کی گئیں، اس کی زبان و ترتیب اور ذیلی عناوین میں اسی طرح کا تنوع بھی در آیا ہے؛ حالاں کہ تذکرہ و سوانح میں تذکرہ نویس اور سوانح نگار کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے۔ اس کی ہر بات سند سمجھی جاتی ہے اور اگر مواد معدوم ہو تو مرجعیت بھی حاصل ہو جاتی ہے؛ اس لیے بہت پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے۔ میں نے ایک سوانحی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک اصولی بات لکھ دی تھی، یہاں اسے نقل کیے دیتا ہوں:
’’ہمارے سوانحی ادب کا یہ المیہ بھی ہے کہ عام طور پر اس موضوع سے متعلق جو کتاب بھی اٹھائیے اور اسے پڑھیے تو محسوس ہوگا کہ کسی فرشتہ کی سیرت وسوانح ہے جو انسان کا روپ لے کر کچھ دن کے لیے دنیا میں آیا تھا اور مقررہ مدت گزار کر رخصت ہوگیا۔ اس پہلو سے ہمارے بڑے بڑے مصنّفین و اہل قلم بھی محتاط نہ رہ سکے ہیں تو بعد میں آنے والوں سے شکوہ کیا؟

حالانکہ یہ حقیقت ہمارے سامنے پیش نظر رہنا چاہیے کہ نبی ﷺ کے سوا کوئی کامل نہیں اور کوئی نقائص سے پاک نہیں۔ نقائص سے پاک ہونا انسانی صفت نہیں، ہاں نقائص کو درکنار کرتے ہوئے اور نفس پر غلبہ حاصل کرکے جامع الکمالات ہوجانا انسانی کرامت ہے۔ اس قبیل کی سوانحی کتب کے مطالعہ سے اگر کسی انسان کی فرشتہ صفت تصویر قاری کے ذہن پر نقش ہوجائے اور پھر آئندہ کبھی اس کی انسانی فطرت کے بعض مظاہر کا ذکر چھڑے تو انسان کے دل و دماغ پر منفی اثر پڑتا ہے؛ اسی لیے ان سوانحی کتب کا مرتبہ ہی کچھ اور ہوتا ہے جن میں اس اعتراف و حقیقت کے ساتھ تحلیل و تجزیہ ہوتا ہے اور پھر کمالات و خصوصیات کو وضاحت کے ساتھ اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ عام لوگ اسے انسانی معاشرہ کے لیے بہترین نمونہ سمجھ کر قبول کرسکیں۔

دینداری کو اس طرح اپنا سکیں جیسے وہ ان کی اپنی ہی چیز ہو جو ان سے کھو گئی ہو، نہ کہ وہ اسے مشکل ترین امر سمجھ کر اس سے بدک جائیں۔‘‘ (دیکھیے: ماہنامہ ندائے اعتدال، علی گڑھ دسمبر-جنوری ۲۰۲۱ء، ص: ۸۶)
بہر حال یہ کتاب ہمارے سوانحی ادب میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔ جواں سال مصنف نے بڑی قیمتی معلومات کو یکجا کر دیا ہے۔ خوبیاں اور خامیاں اپنی جگہ، تاہم کتاب دیکھ کر یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ عزیزم میں حوصلہ بھی ہے، لگن بھی، جذبہ بھی ہے، ہنر بھی، مزاج میں ذرا پختگی اور استقامت آ جائے تو مستقبل میں وہ اس کتاب کو اعلیٰ معیار کی تحقیقی کتاب کی صورت میں پیش کر سکتے ہیں۔ بجا طور پر انھوں نے وطنِ مالوف کی شخصیات کا تذکرہ جمع کرکے ہم سب پر احسان کیا ہے۔ اگر واقعی وہ اس سلسلے میں سنجیدہ ہیں تو انھیں از سرِ نو ایک خاکہ بنانا چاہیے اور بارہ بنکی کے اہل علم کے مشورے سے اس کام کو کر ڈالنا چاہیے۔ راقم سطور نے اپنے قلمی سفر کے آغاز میں یہ خطّہ بنایا تھا، بعض بزرگوں سے بھی تذکرہ کیا تھا اور تحریری طور پر بھی اس کا اظہار کیا تھا کہ ’’بارہ بنکی کی علمی و ادبی تاریخ‘‘ کےنام سے راقم ایک سلسلہ لکھنا چاہتا ہے۔

کئی سال تک یہ عزم جوان رہا؛ لیکن قلمی سفر جیسے جیسے آگے بڑھا، فکری و تجزیاتی موضوعات سے دل چسپی بڑھتی گئی، نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے بہت کچھ لکھنے کا موقع دیا؛ لیکن یہ خواب بس خواب ہی رہا۔ حسنِ اتفاق کہ سال ڈیڑھ سال قبل برادرم فرحان بارہ بنکوی نے اطلاع دی کہ وہ اس طرح کا کام کر رہے ہیں تو خوشی و مسرت کی انتہا نہ رہی۔ میں نے ان سے بھی غالباً اپنے خاکہ کا ذکر کیا، یہاں بھی عرض کر دوں کہ وہ رابطے میں تھے، پھر بھی انھوں نے ہم سے عمّ مکرم کے متعلق استفسار نہ کیا؛ ورنہ کم از کم وہ ’’قدوسی‘‘ لکھ کر نسب تبدیل کرنے کی غلطی سے بچ جاتے۔
ہمیں امید ہے کہ برادرم فرحان اس کتاب کو آئندہ تین جلدوں میں تقسیم کریں گے۔ پہلی جلد میں علما، فضلا، صلحا و اولیا کا تذکرہ ہوگا۔ دوسری جلد میں شعرا، ادبا اور صحافیوں کا تذکرہ ہوگا۔ تیسری جلد ملّی، سماجی، سیاسی شخصیات کے تذکرے پر مشتمل ہوگی۔ علما کی خدمات، تصانیف کا تذکرہ، شعرا کا مختصر سا نمونۂ کلام، ادبا کی نثر کے اقتباسات سے ان کے تذکرے کو مفصل و مستند اور مکمل کیا جائے گا۔ اس طرح یہ کام یہ وقیع علمی کارنامہ شمار ہوگا۔ وسائل کی بابت نہیں سوچنا چاہیے جب کام ہوتا ہے تو وسائل بھی مل ہی جاتے ہیں۔ کہیں سے اس کو بطور پروجیکٹ بھی منظور کرایا جا سکتا ہے، بارہ بنکی کی ہی کسی ادبی تنظیم کو اس کے لیے سرمایہ کی فراہمی کی ذمہ داری دی جا سکتی ہے؛ لیکن کام ہو تو بہرحال کام کی طرح ہونا چاہیے؛ تاکہ تاریخ مکمل ہو جائے اور تمام قابلِ ذکر شخصیات کا احاطہ ہو جائے۔ بارہ بنکی کے دامن میں بہت سے خمارؔ و بمبوقؔ ہیں جن کا مفصل تذکرہ ادبی دنیا کو نئی روشنی عطا کرے گا۔

زیرِ نظر کتاب کے ساتھ جواں سال مصنف کی اس کاوش کا بھر پور استقبال کیا جانا چاہیے اور کسی اچھی ادبی مجلس میں ان کی اس خدمت کا بھرپور اعتراف کیا جانا چاہیے کہ انھوں نے ہم سب کی طرف سے فرضِ کفایہ ادا کیا ہے اور ایک بڑی کمی کو پورا کیا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *