ناموسِ رسالت میں توہین و گستاخی اور ہماری اخلاقی ذمہ داریاں
ناموسِ رسالت ﷺ میں توہین و گستاخی اور ہماری اخلاقی ذمہ داریاں
غلام مصطفیٰ رضوی
نوری مشن مالیگاؤں
موجودہ دور میں ہر طرف اسلام دُشمن مشنریاں مسلمانوں کا ایمان کمزور کرنے کے لیے جی جان سے لگی ہوئی ہیں۔یہود و نصاریٰ کے ساتھ ساتھ مشرکین کی بھی ریشہ دوانیاں عروج پر ہیں۔ جس کے چند پہلو اس طرح اُبھر کر سامنے آرہے ہیں:
[۱] اقتدار کے نشے میں حکومت کی شہ پر ہند میں لگاتار رسول اللہ ﷺ کی بے ادبی و توہین کی جا رہی ہے، جو توہین کرتا ہے وہ باطل کی صفوں میں ہیرو بنا دیا جاتا ہے۔کتنے ہی لیڈروں نے ارتکابِ توہین کیا اور قانونی کارروائی تک نہیں ہو سکی۔
[۲] مشرکین کے مذہبی پیشواؤں کے ذریعے بھی لگاتار توہین آمیز باتیں سامنے آرہی ہیں۔ حالیہ واقعہ میں درجنوں مقامات پر عاشقانِ رسول نے ایف آئی آر درج کروائی لیکن شاتم کی گرفتاری محض خانہ پری محسوس ہو رہی ہے- جب کہ سخت دفعات کا اطلاق لازمی تھا- ایسا لگتا ہے کہ توہینِ رسالت کا معاملہ سوچی سمجھی سازش ہے جس میں اقتدار اعلیٰ شریک و سہیم ہے-
[۳] عالمی سطح پر مستشرقین یورپ، لبرلز، ملحدین کی جانب سے پے در پے اسلامی قوانین، شعائر، سیرت پر حملے ہوتے رہے ہیں۔ ان سے متاثر ہو کر دانش وروں کا ایک طبقہ بھی سامنے آیا جو آزادیِ اظہار رائے کی آڑ لے کر توہین کو جواز فراہم کرنے کی کوشش میں لگاتار سرگرم ہے۔ یہ کیسی آزادیِ اظہار رائے ہے کہ محسن انسانیت ﷺ کے احسانات بھلا کر ان کے تاباں کردار پر حملے کیے جائیں، ان کی پاکیزہ حیات پر جنبش لب کشائی کی جائے اور اسے آزادیِ اظہار کا نام دیا جائے! یہ محض اسلام دشمنی کا بدترین اظہار ہے اور آزادیِ اظہارِ رائے کا ڈھکوسلا۔
[٤] ایک شخص رسول اللہ کی توہین کرتا ہے اور قرآن مقدس پر اعتراض، پھر یہاں کا گودی میڈیا اسے پسند کرتا ہے- X پر اسلام دشمن اس کی تائید کر کے حق پر حملے کرتے ہیں- مرتکب شخص بعد میں خانہ پری کے لیے معذرت چاہتا ہے لیکن اس کے مقاصد اور مہم کامیاب ہو چکے ہوتے ہیں-
[٥] فلسطین میں لگاتار مسلمانوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے اس درمیان مساجد، ثقافتی آثار چن چن کر تاراج کیے گئے۔ وہاں پر قرآن مقدس کی بے حرمتی کی گئی۔ پھر عالمی طاقتوں کا اس بات کا اظہار کہ یہ معرکہ تہذیبوں کا تصادم ہے؛ یہ بھی اسلام دشمنی کا برملا اظہار ہے۔ اس پر مسلم مملکتوں کی مجرمانہ غفلت؛ اسلام دشمن عناصر سے مرعوبیت کی غماز ہے-
اسلام کے بڑھتے ہوئے سیلِ رواں سے مغربی قوتیں اور اسلام دشمن لابی حواس باختہ ہے۔ یہاں ہند میں بھی لگاتار اسلامی قوانین کے خلاف بل پاس کرنا، قوانین کا اجرا، مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر حملہ، اسلامی پردہ کے خلاف زہر افشانی، بھگوا دہشت گردی یہ سب رسول اللہ ﷺ سے بغض و اسلام سے حسد کے نتائج ہیں۔ بہر کیف! ان تمام محرکات کے نتیجے میں نہ ہی اسلامی رخ پر دھول جمے گی نہ ہی اسلام کے بڑھتے ہوئے سیلِ رواں میں کوئی رکاوٹ آئے گی۔ بلکہ وادیاں نغماتِ توحید و رسالت سے گونج رہی ہیں۔
ماہِ میلادِ نبی ﷺ ابھی ابھی گزرا۔ جس میں رسول اللہ ﷺ کی ولادت پاک کا عظیم لمحہ عطا ہوا۔ جب کہ اگلا میلاد پاک ١٥٠٠ سالہ میلاد ہوگا؛ جسے تحفظ ناموس رسالت کے لیے پورے سال اہتمام کے طور پر منایا جانا چاہیے۔ ان نکات کو مدنظر رکھ کر اس لمحۂ مبارک کو ہم حوصلہ افزا نتائج میں تبدیل کر سکتے ہیں:
[۱] اظہارِ محبت رسول ﷺ سے نسلوں کے دل و دماغ میں عشق رسول ﷺ کی تپش پیدا کریں۔
[۲] گھر گھر درودو سلام کی محافل سجائیں اور محبتِ رسول ﷺ پروان چڑھائیں۔
[۳] سبز گنبد سے مرصع طغرے احترام سے لگائیں کہ اس سے بھی مشرکین اور رسول اللہ ﷺ کے گستاخ جلتے ہیں۔
[٤] مطالعۂ سیرت کا ذوق پروان چڑھائیں۔ گھر گھر سیرتِ مصطفیٰ ﷺ از علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی کا درس دیں۔ انفرادی و اجتماعی طریقے سے کتاب کی خواندگی کریں۔
[۵] نعت رسول ﷺ پڑھیں پڑھائیں، بچوں کو سکھائیں۔ عربی زبان میں مقبول اسلامی نغمہ قصیدۂ بردہ شریف اور اردو زبان میں اعلیٰ حضرت کا سلام ’’مصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام‘‘ بچوں کو رٹائیں کہ محبت رسول ﷺ کا نقش دل و دماغ پر بچپن سے ہی ثبت ہو۔
[٦] بیواؤں، غریبوں، ناداروں اور مریضوں کی ہمیشہ مدد کریں۔ نوری مشن سے اس سمت بعض مواقع بالخصوص عیدمیلادالنبی ﷺ پر فوڈ پیکج تقسیم کیے جاتے ہیں؛ اس طرز کے کام انفرادی و اجتماعی طور پر انجام دیے جائیں۔ کسی کی مدد کی جائے تو مکمل عزت و تکریم کے ساتھ کہ دل پر بار نہ گزرے۔
[۷] مستحق و نادار مریضوں کے علاج مکمل عزت کے ساتھ کروائے جائیں۔ انھیں سہارا دیا جائے۔
[۸] مسلم معاشرے میں برائیوں کے خاتمہ کی تدابیر اختیار کی جائیں۔ نشہ سے نوجوانوں کو بچایا جائے۔ بری عادتوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ غریب بچیوں کے رشتہ کے لیے اصحابِ ثروت و اصحابِ رسوخ از خود حصہ لیں؛ کہ فتنۂ ارتداد کی سازشیں ناکام ہوں-
[٩] بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو دینی تقاریب پر تنقید کرتے ہیں؛ شرک و بدعت جیسے حکم لگاتے ہیں؛ ایسے کم فہم افراد کو تنقید سے گریز کرنا چاہیے، یہ دیکھنا چاہیے کہ ہر روز توہین رسالت کا ماحول گرمایا جا رہا ہے جس کے سدِ باب کے لیے محبت رسول ﷺ کا اظہار سنہرا موقع ہے کہ اس کے لیے مختلف تدابیر شرعی احاطے میں کرنا سعادت مندی ہے-
[۱٠] بھوکوں کو کھانا کھلائیں کہ یہ بہت پسندیدہ عمل ہے۔ اسی عمل کی تقویت کے لیے بزرگوں نے لنگر و نیاز کا مزاج دیا کہ یہ مبارک عمل پروان چڑھے۔ یوں بھی اس ماہ ربیع الآخر میں نیاز غوثیہ کا رواج ہے-
[۱١] طلبہ کو حصولِ علم میں مدد دیں۔ یوں ہی اشاعتِ علم دین کے مراکز کو تقویت دیں۔ طلبہ کی کفالت کریں۔ تعلیمی اشیا سے مدد کریں۔ تعلیمی مصارف کا بار اُٹھائیں۔
اظہارِ محبت رسول ﷺ کا تقاضا ہے کہ ناموسِ رسالت ﷺ کی نسبت سے احترام و ادب بڑھانے والے معاملات انجام دیں۔ اسلامی احکام پر عمل کریں۔
اپنی تہذیب، تمدن و ثقافت پر ناز کریں۔ مغربی کلچر کو حقیر جانیں۔ نمازوں کی پابندی کریں۔ فرائض و واجبات پر عمل کریں۔ ایک دوسرے کے حقوق ذمہ داری سے ادا کریں۔ کسی سے قرض لیا ہو تو اولین فرصت میں واپس کریں۔ معاملات درست رکھیں۔ کسی کا مالِ ناحق لیا ہو تو لوٹا دیں۔ یاد رکھیں اخلاقی خوبیاں ہوں گی تو آپ کی زندگی ایک خوبصورت زندگی ہو گی ورنہ آپ آئیڈیل نہیں بن پائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نیک اعمال کرنے اور لوگوں کو نیک راہ پرچلنے کی تلقین کی توفیق ب خشے آمین؎
زہے عزت و اعتلائے محمد ﷺ
کہ ہے عرش حق زیر پائے محمد ﷺ
خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم
خدا چاہتا ہے رضائے محمد ﷺ
(اعلیٰ حضرت)