یوم جمہوریہ اور پامال ہوتے جمہوری اقدار،بازیافت کیسے ہو
یوم جمہوریہ اور پامال ہوتے جمہوری اقدار،بازیافت کیسے ہو؟
از: محمد عارف رضا نعمانی مصباحی
یوم جمہوریہ ہندوستانی تاریخ کا ایک عظیم دن ہے جس کی تاریخی حیثیت کو ہر ہندوستانی سال بھر میں ایک بار ضرور یاد کرتا ہے۔اس کی حیثیت کچھ یوں ہے کہ ۲۶؍جنوری ۱۹۵۰ء کو قانون ساز اسمبلی کے ذریعے تیارکردہ آزاد ہندوستان کے آئین کا نفاذعمل میں آیا۔ہندوستان کیآئین کوجمہوری ممالک کاسب سے طویل آئین ہونے کا شرف حاصل ہے۔جس میں مختلف طبقے اورمختلف رنگ و نسل اور مذہب کے لوگوں کے حقوق ذکر کیے گئے ہیں۔
جمہوری ملک میں شہریوں کومختلف قسم کے حقوق حاصل ہوتے ہیں،جس کی بنا پروہ مکمل آزادی کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکیں،مثلاً:اظہار رائے کی آزادی،اپنے اپنے مذاہب و عبادات پر عمل کرنے کاحق،تعلیم حاصل کرنے کاحق،ووٹ ڈالنے کا حق،آئینی چارہ جوئی کا حق،اپنے مذہب کے مطابق شادی بیاہ کرنے کا حق اور اس کے علاوہ بھی بہت سے حقوق آئین کی رو سے شہریوں کو حاصل ہوتے ہیں۔یہی آئین، جمہوری طرز حکومت کو آمریت سے ممتاز کرتا ہے۔آئین ہی جمہوریت کی شان ہے، آئین ملک کو آزاد،سیکولر اور جمہوری ملک بناتا ہے جہاں عوام کے تئیں انصاف، مساوات اور حریت کو یقینی بنایا جاتا ہے۔
ان تفصیلات کے باوجود آج یقین کرنا مشکل ہوتا جا رہاہے کہ یہ وہی ہندوستان ہے جس کا خواب جنگ آزادی کے جیالوں نے دیکھا تھا۔جنہوں نے اپنی گراں قدر جانوں کا بیش قیمتی نذرانہ پیش کرکے وطن عزیز کو گوروں کی وحشت اثر حکومت سے آزادی کا پروانہ دلایاتھا۔کیسی کیسی مشقتیں جھیلی تھیں؟کیسے کیسے ظلم و استبداد کا سامنا کیا تھا؟اپنوں اور غیروں کی کتنی مخالفتوں کا سامنا کیا تھا؟اتنی قربانیاں دینے کے باوجود آج وطن عزیز فرقہ پرستوں کیناپاک عزائم کی زد میں ہے۔جس آزادی کے خوابوں کی تعبیر ہمارے اجداد نے سچ کر دکھائی،آج پھر اس ملک کو آمریت کا سامنا ہے۔ جس ریاست کا کوئی مذہب نہیں تھا آج اسے ایک خاص مذہب کے رنگ میں رنگنے کی تیاریاں زوروں پر ہیں۔اس کے تئیں ہر طرف کوششیں عروج پر ہیں،ہرسمت اس ملک کو ہندو راسٹر بنانے کے نعرے گونج رہے ہیں۔حد تو تب ہوگئی جب رائے پور چھتیس گڑھ کے ایک ڈھونگی بابانے لوگوں سے کہا کہ ’’تم میرا ساتھ دو،میں تمہیں ہندو راسٹر دوں گا‘‘یہ سننے کے بعد آپ کو یاد آیا ہوگا کہ یہ جملہ نیتا جی سبھاش چندر بوس کے مشہور مقولے کی طرز پر کہا گیا ہے جوصرف سرخیاں بٹورنے اور ملک میں نفرت کی بھٹی کو ہوا دینے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔یہ جملہ آئین کی روح کو سخت ٹھیس پہنچانے والاہے۔دیکھا جائے تو گزشتہ چند سالوں سے ملک کو ہندوراسٹر بنانے کی مہم زورپکڑ لی ہے۔
متعدد جگہوں پرمسلمانوں سے ترک موالات کے اعلانات بھی ہوئے ہیں،عہد بھی لیا گیا اور پوسٹر بھی لگائے گئے ہیں۔نفرت کے مظاہرے ہوئے،لاک ڈاؤن میں تو آدھار کارڈ دیکھ کر سامان خریدے گئے،بعض سبزی اور پھل والوں کو تو بھگا دیا انھیں اپنا سامان بیچنے نہیں دیا۔یہ اس ملک میں ہو رہا ہے جہاں ہر کسی کو اپنی مرضی سے خریدنے بیچنے کا حق حاصل ہے۔گزشتہ دس سالوں میں کھلے عام آئین ہند کی جتنی پامالی کی گئی ہے اتنی ستر سالوں میں نہیں کی گئی۔آئین ہندکے کھلے عام نذر آتش کیے جانے کے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں۔عدلیہ خاموش ہے۔فرقہ پرست سانڈ کی طرح کھلے عام گھوم رہے ہیں کوئی لگام کسنے والا نہیں۔
۱۳؍اگست ۲۰۲۲ء کو ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں یہ سرخی تھی کہ ’’ہندو راشٹرکے مسودے میں دہلی کے بجائے وارانسی کو دارالحکومت بنانے کی تجویز دی گئی ہے۔‘‘اس خبرکو پڑھ کر یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ آخر ہو کیا رہا ہے؟یعنی ہندوراسٹر کا مسودہ بھی تیار ہو رہا ہے جو الٰہ آباد کے ماگھ میلہ ۲۰۲۳ء کی ایک دھرم سنسد میں پیش ہونا ہے۔یہ بھی طے ہوگیا کہ کاشی کو دار الحکومت بنایا جائے گا۔ یہ بھی واضح کر دیا گیاکہ ہر ذات کے لوگوں کو ملک میں رہنے کی سہولت اور تحفظ حاصل ہوگا اورلیکن دوسرے مذہبی عقائد کے لوگوں کو ووٹ دینے کی اجازت نہیں ہوگی۔اس میں خاص طور پر مسلمان اور عیسائی شامل ہیں جوحق رائے دہی سے محروم رہیں گے۔غور کریں تو سمجھ میں آئے گا کہ یہ سب ایک آزاداور جمہوری ملک میں ہو رہا ہے جس ملک کا کوئی مذہب نہیں ہے،اب اس پر مذہبی رنگ چڑھایا جارہا ہے۔جس کے خطرناک نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔ اقلیتی طبقہ بسوں ٹرینوں میں سفر کرتے ہوئے محفوظ نہیں ہے کہ کب انھیں ہراساں کیا جائیاور وہ تشدد کا شکار ہو جائیں،کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ہر جگہ انھیں پہچان کر ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ایسی ذہنیت رکھنے والے وطن عزیز کو قعر مذلت میں ڈھکیل دینا چاہتے ہیں اوراقتدار کی کرسی پر بیٹھنے والوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ایسے شرپسندوں کو کھلی چھوٹ دی جا رہی ہے،ان کی پشت پناہی ہو رہی ہے اسی لیے ایسوں کے خلاف زبانیں نہیں کھل رہی ہیں۔جو ملک اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرتا تھا اب اسی ملک میں خوف اور ہراس کا ماحول پیدا ہو رہاہے۔
کم سن نونہالوں کے کانوں میں زہر گھولا جارہاہے۔انھیں نفرت کرنا سکھایا جارہا ہے۔یہ انتہائی نفرت کا زہر آنے والی نئی نسلوں کو اپنی چپیٹ میں لے رہا ہے۔نفرت کی آندھیوں سے فضا مسموم ہو رہی ہے۔جسے جلد از جلد ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہندو تنظیموں کے ذریعے ملک بھر میں مختلف مساجد کو منہدم کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں،کہیں کہا جا رہا ہے کہ یہ رہائشی املاک پر بنائی گئی ہیں،کہیں کہا گیا کہ یہ پارک کی جگہ پر بنائی گئی ہے،کہیں مساجد کے سامنے نفرت انگیز نعرے بازی کی جا رہی ہے۔ ایسی ایسی باتیں کرکے مسلمانوں کو پھنسانے اور بے دست و پا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ایسے واقعات انجام دے کر آئین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔
جمہوریت کے چاروں ستون’’مقننہ، ایگزیکٹو، عدلیہ اور میڈیا‘‘کو آزاد اور مضبوط کرنے کی کوشش ہونی چاہیے تاکہ جمہوریت کو مستحکم کیا جاسکے۔ان کے بغیر ہم جمہوری ملک نہیں بنا سکتے۔ میڈیا کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے کیونکہ یہ جمہوریت کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ حکومت اور عوام کے درمیان ایک رابطہ ہے۔جمہوریت کی مضبوطی کا انحصار ان میں سے ہر ستون کی مضبوطی پر ہوتا ہے۔جمہوری ملک میں میڈیا کا آزاد ہونا ہی جمہوریت کو مضبوط بناتا ہے۔لیکن میڈیا کی حکومتی ایوانوں پر دریوزہ گری،جمہوریت کے قتل کے مترادف ہے۔آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملک کے حالات کیا ہیں،اقلیتی طبقات کیسی زندگی گزار رہے ہیں،ملک کے شہریوں کے بنیادی حقوق بھی چھینے جارہے ہیں۔
میڈیا حکومت سے عوامی رابطے کی ایک کڑی تھا،اسے اپنا کام کرنا چاہیے تھا لیکن میڈیا ہے کہ ایک چپ،سو چپ کی قسم کھالی ہے چاہے ملک میں کچھ بھی ہو جائے۔وہیں باتیں نشر کی جائیں گی جو حکومت کی منشا کے مطابق ہے۔نیوز چینلوں پرہر وقت ہندو مسلم ہی کیا جا رہا ہے اورمیڈیا کی یہ حالت ہو چکی ہے کہ جس کو چاہے مجرم بناکر پیش کر دے اور جس کو چاہے بے گناہ ثابت کردے۔جس کو چاہے اوج پر پہنچا دے،جس کو چاہے زمین پر۔جب جمہوریت کے ستون ہی چرمرا جائیں گے تو جمہوریت کی عمارت کیسے مستحکم رہ سکتی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ ایک تعداد ہیجن کو اب جمہوریت ایک آنکھ نہیں بھاتی، بس ہندوراسٹر کی رٹ ہی لگائے رہتے ہیں،ایسے میں ملک کے بڑے بڑے نیتا خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں،جیسے کچھ ہو ہی نہیں رہا ہے۔ اقلیت محفوظ نہیں ہے۔اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے اور اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری بنائے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی کوشش بھی ملک کو تقسیم کر دے گی۔کیوں کہ ملک اپنے شہریوں کی کوششوں سے ترقیاتی منازل طے کرتا ہے۔بھاسکر ڈاٹ کام پر شائع ایک رپورٹ کے مطابق ملک ہندوستان میں آٹھ سالوں میں مسلمانوں کے خلاف پانچ ہزار بار اشتعال انگیزی کی گئی۔
جس میں پیغمبر اسلام کے خلاف نازیبا کلمات بھی شامل ہیں۔کیا یہ اعداد وشمار قابل گرفت نہیں ہیں۔کیا کسی جمہوری ملک میں اس قسم کے استحصال ہو سکتے ہیں۔ایسے واقعات کے تئیں بس چندتنبیہات کو کافی سمجھا جاتا ہے۔جسے سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔
اس وقت ایک بڑا سوال ہے جمہوریت کے تحفظ کا،جس کے پیچھے طاغوتی طاقتیں برسرپیکار ہیں اور اسے ختم کردینا چاہتی ہیں۔ جمہوری اقدار کی حفاظت کرنے والے ملک کی جمہوریت اب خطرے میں نظر آرہی ہے۔ہر چہار جانب حقوق کا استحصال کیا جارہا ہے کیوں کہ شہریوں کے بنیادی حقوق تک محفوظ نہیں ہیں۔جگہ جگہ ہندو مسلم فساد کرائے جارہے ہیں،اشتعال انگیزیاں کی جا رہی ہیں۔ ایسی صورت میں ملک کا امن و امان خطرے میں پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔بچپن میں اسکول میں ہم ۱۵؍ اگست اور۲۶؍جنوری پر’’ایک بنیں گے،نیک بنیں گے‘‘ کا نعرہ خوب لگاتے تھے اور اس سے ہمیں نیک بننے کا درس بھی ملتا تھا۔لیکن موجودہ دور میں نفرتوں کا بازار گرم ہے اور شہریوں کی ذہنیت بدلی جا رہی ہے۔جمہوریت کا گلا گھونٹ کر اس کے نام پر ڈکٹیٹر شپ والی اقتدار لانے کی تیاری چل رہی ہے، ہمیں اس سے آگاہ ہوناہوگا۔اس کے لیے ہمیں زیادہ سے زیادہ تعلیم کے میدان میں آگے آنا ہوگا۔ کیوں کہ تعلیم ہی ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعے ہم عالم کے منظر نامے کو تبدیل کر سکتے ہیں۔
یوم جمہوریہ آتا ہے اور چلا جاتا ہے، ہمیں چاہیے کہ اس دن کی اصلیت کو جانیں اور جس کی بنا پر اس کواہمیت حاصل ہے اس کو اجاگر کریں۔ہندوستان کے قانون کو جانیں،دستور ہند کو جانیں،لوگوں کے اندر اس کے تئیں بیداری پیدا کریں اور اس کے مطابق حکومت سے اپنے حقوق کا مطالبہ کریں۔اپنی جان کے تحفظ اور معاشرے کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔حکومتی اعلیٰ عہدوں پر اپنے نوجوانوں کو فائز کریں۔یہ ساری چیزیں تعلیم کے بغیر ناممکن ہیں۔ساتھ ہی حکومت ایوانوں میں اپنی نمائندگی کو مضبوط کریں۔ایسی نمائندگی جو ایمان داری اور جرأت مندی پر مبنی ہو،تبھی قوم کو آگے بڑھا سکیں گے۔
ملک کو آزاد کرانے میں اور آزاد ملک کے دستور کو بنانے میں جن لوگوں نے حصہ لیا ہے اس دن ان کو یاد کریں۔غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ملک کو آزاد کرانے والی شخصیات کو نہ ہم صحیح طریقے سے جانتے ہیں، نہ ہی ہندوستان کی دستور سازشخصیات کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ہمیں ان کواوردستور سازی کے لیے کی گئی ان کی کوششوں کو جاننا چاہیے تاکہ ہم بھی اپنے ملک و ملت کے تئیں فکر مند ہو سکیں اور آنے والی نسلوں کی صحیح رہ نمائی کر سکیں۔
ہماری زندگی تبھی کام یاب ہوگی جب ہم ملک و ملت کے لیے نفع بخش ہو سکیں گے۔
از: محمد عارف رضا نعمانی مصباحی
ایڈیٹر: پیام برکات، علی گڑھ
رابطہ: 7860561136