نشانے پر تبلیغی جماعت اور سعودی گورنمنٹ

Spread the love

تحریر: جاوید اختر بھارتی نشانے پر تبلیغی جماعت اور سعودی گورنمنٹ

نشانے پر تبلیغی جماعت اور سعودی گورنمنٹ


اگر کسی ایسے ملک میں تبلیغی جماعت پر پابندی عائدکرنے کی بات کہی گئی ہوتی یا تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہوتا جہاں غیر مسلموں کی حکومت ہوتی تو کچھ دیر تک سوچا جاتا کہ انہیں مسلمانوں کے خلاف اور مسلمانوں کی تنظیموں کے خلاف بولنے کی عادت ہے

لیکن سعودی عرب جو کہ آج بھی دعویٰ کرتا ہے کہ ہمارے یہاں اسلامی حکومت ہے اور اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر نظام چلتا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تبلیغی جماعت غیر اسلامی ہے؟۔

اگر غیر اسلامی ہوتی تو نماز کے لیے کیوں بلاتی، مساجد کو آباد کرنے کا پیغام کیوں دیتی، لوگوں کو نیک اعمال کرنے کے لیے زور کیوں دیتی جب کہ یہ پوری طرح واضح ہے کہ تبلیغی جماعت سب سے زیادہ نماز کی پابندی پر زور دیتی ہے پھر اچانک سعودی حکومت نے ایسا قدم کیوں اٹھایا کہ خود مسلمانوں نے سعودی حکومت کے فیصلے کی مذمت کرنا شروع کردیا

اور دوسری بات یہ بھی ہے کہ ہندوستان میں سعودی عرب کے سفیر کیوں یہ کہہ رہے ہیں کہ بہت جلد سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہو جائے گا اور یہی نہیں بلکہ بہت سے علما و خطبا یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ سعودی حکومت نے ایسا کوئی نہ تو فیصلہ کیا ہے اور نہ کوئی اعلان کیا ہے کہ تبلیغی جماعت پر پابندی عائد کی جا تی ہے

یہاں ایک بات اور قابل ذکر ہے کہ جب سعودی حکومت نے تبلیغی جماعت کے خلاف سعودی عرب کے ائمہ مساجد سے خطبہ دینے کو کہا تو اس کے بعد جو پہلا جمعہ آیا تو امام حرم شیخ ماہر المعیقلی نے خطبہ دیا مگر اس میں تبلیغی جماعت کے خلاف کوئی بات نہیں کہی اسی وجہ سے بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ سعودی حکومت کو بدنام کرنے کے لیے یہ پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے

مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سعودی حکومت کے حوالے سے اخباروں میں تبلیغی جماعت کے خلاف فیصلہ لیے جانے کی خبر بھی آچکی ہے اور سوشل میڈیا پر مسجد قباءکے امام کو خطبہ دیتے ہوئے اور خطبے کے دوران تبلیغی جماعت کا ذکر کرتے ہوئے سنا بھی گیا ہے اور دیکھا بھی گیا ہے

بہر حال یہ تو آنے والا وقت بتائے گا کہ حقیقت کیا ہے مگر فی الحال پوری دنیا کے مسلمانوں کو محتاط انداز میں رد عمل کا اظہار کرنا چاہیے کیوں کہ سعودی حکومت کا نظریہ و موقف بڑی تیزی کے ساتھ تبدیل ہورہاہے بلکہ یوں احساس ہوتا ہے کہ امریکہ کو خوش رکھنے کے لیےسعودی حکومت کسی بھی حد تک جاسکتی ہے

اسرائیل کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھانا، سینما گھروں کی تعمیر کرانا، عورتوں کو ڈرائیوری کے لیے چھوٹ دینا، سیر و تفریح کے مراکز کھولنا یہ سب کس کے اشارے پر ہورہاہے اور کسے خوش کرنے کے لیے کیا جارہاہے پوری دنیا کا مسلمان سینہ ٹھوک ٹھوک کر کہتا ہے کہ

مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ یہ دونوں مقام پوری دنیا میں سب سے مقدس مقام ہیں مکہ مکرمہ میں امام الانبیاء کی ولادت ہوئی اور مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہے اور مدینہ منورہ میں امام الانبیاء آرام فرما ہیں ۔

اور وہیں پر گنبد خضریٰ ہے اور مسجد نبوی ہے اور اسی بنیاد پر سعودی عرب کو قابل احترام مانا جاتا ہے لیکن افسوس کہ اسی ملک میں فحاشی کے اڈے کھولے جائیں فلموں کی شوٹنگ کرائی جائے، موسیقی کی بزم سجائی جائے اور یہ سارے کام وہاں کے حکمرانوں کے ذریعے کرائے جائیں تو پھر پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے آج نہیں تو کل مسلہ کھڑا ہوسکتا ہے

اس لیے کہ اسرائیل اور مغربی ممالک مذہب اسلام کی شبیہ کو بگاڑنے کی دن رات کوشش کر رہے ہیں جو شکل وصورت سے نیک مسلمان نظر آتا ہے اسے نفرت و تعصب کا شکار بنایا جاتا ہے اب ایسے حالات میں تبلیغی جماعت کے خلاف بھی قدم اٹھا نا وہ بھی سعودی حکومت کے فرمان سے تب تو یہ یہود ونصاری کا تعاؤن ہی کرنا ہوا وہ تو چاہتے ہی ہیں کہ پوری دنیا کا مسلمان رنگینیوں میں ڈوب جائے

رب کے قرآن اور نبی کے فرمان سے دور ہو جائے، نہ کوئی دین اسلام کی بات بتانے والا رہے اور نہ کوئی دین پر عمل کرنے والا رہے مگر سعودی حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ کا وعدہ جھوٹا نہیں ہوسکتا

اور اللہ نے اپنے محبوب سے وعدہ کیا ہے کہ اب قیامت تک تمہارے ہی دین کا ڈنکا بجے گا اس لیے سعودی حکومت اپنے رویے سے باز آئے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچا نے والے فیصلوں کو رد کرے اور مکمل طور پر اسلامی نظام قائم کرے تاکہ عالم اسلام کا سر فخر سے اونچا ہو۔

راقم الحروف کی تحریر کو مکتب فکر و مسلکی بنیاد پر نہ دیکھا جائے بلکہ وقت اور حالات کے تناظر میں غور کریں اور فیصلہ کریں کہ تبلیغی جماعت کا دائرہ وسیع کرنا چاہیے کہ نہیں؟ صرف کاندھے پر بوریہ بستر لے کر چلنا یہی پہچان ہے اور ایک بار نہیں درجنوں بار تبلیغی جماعت کے لوگوں سے راقم الحروف کا سابقہ پڑا ہے

اس میں علماےکرام نہیں ہوتے ، مسلے مسائل کی معلومات رکھنے والےنہیں ہوتے ، بس نماز پڑھنے کے لیےکہا جاتا ہے مگر نماز درست کیسے ہوگی یہ نہیں بتایا جاتا ۔

آج نہیں تو کل یہ دن تو دیکھنا تھا یا دیکھنا ہی ہے کہ تبلیغی جماعت جسے عالمی سطح کی تنظیم کہا جاتا ہے اور اس تبلیغی جماعت نامی تنظیم کا کوئی مدرسہ نہیں، کوئی اخبار نہیں، کوئی میڈیا چینل نہیں ،، ۔

اگر مدرسہ ہوتا تو آپ اس میں تعلیم دیتے نماز کی درستگی کا کورس چلاتے مشق کراتے ان سارے پروگراموں کی رپورٹ اپنے روزنامہ یا ہفت روزہ یا ماہنامہ میں شائع کرتے اپنے نیوز چینل پر پروگراموں کو چلاتے تو پوری دنیا دیکھتی مگر ایسا کوئی انتظام نہیں۔

یہ بات اچھی طرح یاد رکھنا چاہیے کہ اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ گھوڑا سے قاصد خط لے کر کسی کو دینے جائے گا ،، اب تو پل پل کی رپورٹ دنیا کے کونے کونے میں پہنچتی ہے اب انٹرنیٹ کا زمانہ ہے، فیکس و ای میل کا زمانہ ہے اور سوشل میڈیا کا زمانہ ہے

اب ضرورت اس بات کی ہے کہ جلسہ کراؤ تو اس جلسے کی رپورٹنگ کے لیے پریس کے نمائندوں کو مدعو کرو اس لیے نہیں کہ تمہارے جلسے کی خبر شائع ہوگی تو بڑا نام ہوگا،، نہیں بلکہ اس لیےکہ جلسے میں کیا بولا گیا اور چار دن سے لے کر چالیس دن کے چلے میں کیا پیغام دیا گیا وہ اخبار میں شائع ہو اور نیوز چینل پر چلے تاکہ کوئی کسی طرح کا الزام نہ لگا سکے اور کسی طرح کا غلط سوال نہ کھڑا کر سکے،،۔

اور کوئی مخالفت کرے بھی تو دفاع کرنے کے لیےاور اپنے کو صحیح ثابت کرنے کے لیے آپ کے پاس اسی اخبار اور نیوز چینل کی رپورٹ ثبوت کی بنیاد بنے اور یہ بھی یاد رہے کہ اب قدم قدم پر سوال وجواب ہونے والا وقت آگیا ہے

اور ایسا ہوتے ہوئے دیکھا بھی جارہا ہے اگر ان ساری باتوں کو نظر انداز کریں تو یاد رکھیں کل تبلیغی جماعت کے نام پر بھی اعتراض ہوسکتا ہے اور سوال کھڑا ہو سکتا ہے کیوں کہ تبلیغ اور اصلاح میں فرق ہے تبلیغ دین کی ہوتی ہے،،۔

اور ہم دین میں داخل لوگوں کو دین پر عمل کرنے کے لیےبلاتے ہیں تو یہ تبلیغ نہیں بلکہ یہ اصلاح معاشرہ ہے اب چاہے اسے کمیٹی کا نام دیں یا مہم کا نام دیں

 
تحریر: جاوید اختر بھارتی
سابق (سکریٹری یو پی بنکر یونین)
محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی 

 مضامین کو بھی پڑھیں

 تحریر میں حوالہ چاہیے تو تقریر میں کیوں نہیں 

ہندوستان کی آزادی اور علامہ فضل حق خیر آبادی 

 مذہبی مخلوط کلچر غیرت دین کا غارت گر

قمر غنی عثمانی کی گرفتاری اور تری پورہ میں کھلے عام بھگوا دہشت گردی 

محبت کریں پیار بانٹیں

ایک مظلوم مجاہد آزادی

عورتوں کی تعلیم اور روشن کے خیالوں کے الزامات

سیاسی پارٹیاں یا مسلمان کون ہیں محسن

شوسل میڈیا بلیک مینگ 

ہمارے لیے آئیڈیل کون ہیں ؟ 

  قمر غنی عثمانی کی گرفتاری اور تری پورہ میں کھلے عام بھگوا دہشت گردی 

 اتحاد کی بات کرتے ہو مسلک کیا ہے

خطرے میں کون ہے ؟

افغانستان سے لوگ کیوں بھاگ رہے ہیں 

 مہنگی ہوتی دٓاوا ئیاںلوٹ کھسوٹ میں مصروف کمپنیاں اور ڈاکٹرز

۔ 1979 سے 2021 تک کی  آسام کے مختصر روداد

کسان بل واپس ہوسکتا ہے تو سی اے اے اور این آر سی بل کیوں نہیں

ہوائی جہاز ٹکٹ آن لائن بک کرتے ہوے کیسے بچت کریں

ہندی میں مضامین کے لیے کلک کریں 

हिन्दी में पढ़ने क्लिक करें

 

 

4 thoughts on “نشانے پر تبلیغی جماعت اور سعودی گورنمنٹ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *