رمضان المبارک میں احتساب اعمال

Spread the love

رمضان المبارک میں احتسابِ اعمال

(حافظ)افتخاراحمدقادری

ماہ رمضان المبارک کی اہمیت کا اندازہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب ہم اپنی گزشتہ گیارہ مہینے کی معصیت پسند زندگی پر ایک نگاہِ احتساب ڈالیں اور اپنے اعمال کے ایک ایک گوشے کی تلاشی لیں اگر ہم احتسابِ اعمال کے لیے مستعد ہوکر بیٹھ جائیں تو معلوم ہوجائے گا کہ ہماری عملی زندگی کا کوئی گوشہ اور ہمارے دامنِ حیات کا کوئی تار ایسا نہیں جو معصیت کی گندگی اور آلودگی سے پاک ہو

ہمیں اپنی زندگی کے دامن پر ایسے بدنما دھبے نظر آئیں گے اور ہمارے عمل کے گوشے ایسے گندے اور تاریک دکھائی دیں گے کہ ہماری روح اور ہمارا قلب ان کی صفائی کے لیے بے چین ہوگا- روح کی اس بے چینی اور قلب کے اس اضطراب کو دفع کرنے کے لیے الله رب العزت نے ماہ رمضان المبارک عطا فرمایا ہے

غور وفکر کا مقام ہے کہ گیارہ مہینے گناہوں بھری زندگی کو چھوڑ کر دوسری زندگی میں جانا پڑے تو گیا گزرے گی- ہر سال رحمت و مغفرت والے ماہ رمضان المبارک کا آنا الله رب العزت کا احسان عظیم ہے

یہی وہ ماہ مبارک ہے جس میں الله رب العزت نے دنیا کی ہدایت و سعادت کے لیے قرآنِ مجید نازل فرمایا اگر اس ماہِ مبارک میں اور کچھ بھی نہ ہوتا تو اس ماہِ مبارک کی بزرگی اور برتری کے لیے صرف اسی قدر کافی تھا کہ خدا کے آخری پیغام قرآنِ مجید کے نزول کے لیے اس ماہ مبارک کو منتخب کیا گیا

لیکن اس ماہِ مبارک کی فضیلت صرف اسی بات پر منحصر نہیں بلکہ اس کے فضائل و برکات بے شمار ہیں- یہ ایسا ماہِ مبارک ہے جس میں رحمت و راحت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتاہے

جس ماہِ مبارک میں بہشت کے دروازے کھول دیے جاتے اور بھڑکتی ہوئی دوزخ کو بند کردیا جاتا ہے اور شیاطین مقید اور پابند سلاسل کردئیے جاتے ہوں تو اس ماہِ مبارک کی فضیلت و بزرگی کو ہر شخص سمجھ سکتا ہے

یہ ساری فضیلت و بزرگی اسی لیے ہے کہ یہ ماہ مبارک روزوں کے لیے مخصوص ہے جو اس قدر بزرگ و برتر عبادت ہے کہ الله رب العزت نے اس عبادت کی نسبت اپنی طرف فرما کر اپنے دست قدرت سے جزائے بے کراں عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے

حدیثِ پاک میں ہے کہ الله رب العزت نے فرمایا ہے:

روزہ خاص میرے لیے ہے اور اس کی جزاء میں ہی دوں گا- روزہ کی قدر و قیمت معلوم ہو جانے کے بعد ہمارا فرض ہے کہ ہم ہمہ تن الله تعالیٰ کی عبادت میں مصروف ہو جائیں اور ان شرائط کے ساتھ روزہ رکھ کر خوش نودئی الٰہی حاصل کریں جن پر روزوں کے فوائد و ثمرات کا مدار ہے تاکہ ہم متقی اور پرہیز گار بن جائیں اور ہمارے قلوب و نفوس کا تزکیہ ہوجائے

حضرتِ ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے:

حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب ماہِ رمضان المبارک شروع ہوتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ایک روایت میں ہے: جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، دوزخ کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں اور شیطان زنجیروں میں جکڑ دیے جاتے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں

حضرتِ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ الله علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں ،،آسمان کے دروازے کھول دیے جانے کا مطلب ہے میرے در سے رحمتوں کا نازل ہونا، بغیر کسی رکاوٹ کے بارگاہِ الٰہی میں اعمال کا پہنچنا، دعاؤں کا قبول ہونا اور جنت کے دروازے کھول دیے جانے کا معنیٰ ہے نیک اعمال کی توفیق اور حسنِ قبول عطا فرماتا ہے اور دوزخ کے دروازے بند کئے جانے کا مطلب ہے روزہ داروں کے نفوس کو ممنوعات شرعیہ کی آلودگیوں سے پاک کرنا، گناہوں پر ابھرنے والی چیزوں سے نجات دینا اور دل سے لذتوں کے حصول کی خواہشات کا توڑنا اور شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیے جانے کا مطلب ہے برے خیالات کے راستوں کا بند کردینا- ( اشعتہ اللمعات)

حضرتِ ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے: حضورِ اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: رمضان المبارک کی آخری رات میں اس امت کی مغفرت ہوتی ہے عرض کیا گیا کیا وہ شب قدر ہے؟ فرمایا نہیں لیکن کام کرنے والوں کو اس کی مزدوری پوری دی جاتی ہے جب کہ وہ پورا کام کرلے

حضرتِ سلمان فارسی سے روایت ہے: شعبان کے آخری دن میں حضورِ اکرم صلی الله علیہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا جس میں آپ نے فرمایا: اے لوگو! ایک عظیم المرتبت اور برکتوں والا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے جس میں ایک رات ایسے بھی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے

اس کے روزے بھی فرض فرمائیں ہیں اور اس مہینے کی عبادات کو سب سے افضل قرار دیا ہے جو بھی مسلمان اس مہینے میں کوئی نفلی عبادت کرتاہے تو اس کی برکتوں سے اسے فرض کے برابر ثواب دیا جاتاہے اور اگر کوئی فرض عبادت کرتا ہے تو ستر فرضوں کے ثوابات سے نواز دیا جاتا ہے- (غنیتہ الطالبین)

حضرتِ ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے: رسولِ خدا صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ماہِ رمضان المبارک کی رات کو آسمان و جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں پھر آخر ماہِ رمضان تک بند نہیں کئے جاتے اور بندہ مومن خواہ مرد ہو یا عورت اس ماہِ مبارک کی راتوں میں نمازیں پڑھتا ہے تو الله تعالیٰ ہر سجدے کے عوض ایک ہزار سات سو نیکیاں اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیتا ہے اس کے لیے جنت میں سرخ یاقوت کا ایسا مکان تعمیر فرماتا ہے جس کے ہزار ایسے دروازے ہوتے ہیں

جن کے پٹ سرخ یاقوت سے مرصع ہوتے ہیں اور جس شخص نے اول سے آخر تک اس ماہِ مبارک میں روزے رکھے تو الله رب العزت اس کے تمام گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے اور ان روزوں کو دوسرے ماہِ رمضان المبارک کا کفارہ بنا دیتا ہے اس کے لیے ہر روز جنت میں ایک ایسا محل تعمیر کیا ہے جس کے ایک ہزار سونے کے دروازے ہوتے ہیں اس کے لیے ستر ہزار فرشتے صبح وشام اس کے انتظار میں ہوتے ہیں اور ہر سجدے کے بدلے اسے اتنا تناور سایہ دار درخت عطا فرماتا ہے کہ کوئی سہسوار اس کے نیچے سو برس تک چل کر بھی مسافت طے نہ کرسکے

مذکورہ بیانات سے یہ حقیقت خوب روشن ہوگئی کہ ماہ رمضان المبارک امت محمدیہ پر رب تبارک وتعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اس میں یہ امت بے شمار انعامات و اکرامات سے نوازی جاتی ہے پھر بھی اگر کوئی اس ماہ مبارک کی عزت و احترام نہ کرے اور اس کے احترام میں اور زیادہ نیکیوں کی طرف راغب نہ ہو اور گناہوں سے بچنے کا التزام نہ کرے تو یہ بہت بڑی محرومی ہوگی- اس ماہِ مبارک کی عزت الله رب العزت کو کتنی محبوب اور اس کی بارگاہ کا پسندیدہ عمل ہے اس کا اندازہ اس واقعے سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے:

شہر بخارہ میں ایک مجوسی کا لڑکا ایک دن ماہ رمضان المبارک میں مسلمانوں کے بازار میں کھانا کھا رہا تھا کہ باپ نے بیٹے کو زوردار طمانچہ مارا اور سخت ناراضگی کا اظہار کیا

بیٹے نے کہا ابا جان آپ بھی تو رمضان المبارک میں کھاتے پیتے ہیں؟ اس پر باپ نے کہا واقعی میں بھی کھاتا پیتا ہوں اور روزہ نہیں رکھتا ہوں مگر چھپاکر گھر میں کھاتا ہوں مسلمانوں کے سامنے نہیں کھاتا ہوں اور میں اس ماہِ مبارک کا احترام کرتا ہوں

کچھ دنوں کے بعد اس مجوسی کا انتقال ہو گیا تو بخارہ میں ایک نیک آدمی نے اسے خواب میں دیکھا کہ وہ جنت میں ٹہل رہا ہے انہوں نے مجوسی سے پوچھا! تو جنت میں کیسے داخل ہوگیا جبکہ تو آتش پرست تھا؟

اس نے کہا بیشک میں مجوسی تھا مگر جب میری موت کا وقت قریب ہوا تو ماہ رمضان المبارک کے احترام کی برکت سے الله تعالیٰ نے مجھے ایمان لانے کی توفیق بخشی اور میں مسلمان ہوکر مرا یہ جنت رمضان المبارک کے احترام میں اسلام لانے پر الله نے مجھے عطا فرمائی- ( نزھتہ المجلس)

آمد رمضان پر استقبالیہ خطبہ:

جس دن رمضان المبارک کا چاند طلوع ہونے کی امید ہوتی اور شعبان المعظم کا آخری دن ہوتا تو حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم مسجدِ نبوی میں صحابہ کرام کو جمع فرماکر خطبہ ارشاد فرماتے جس میں رمضان المبارک کے فضائل و وظائف کو اجاگر فرماتے تاکہ اس کے شب و روز سے خوب فائدہ اُٹھایا جائے اور اس میں غفلت ہرگز نہ برتی جائے اس کے ایک ایک لمحہ کو غنیمت جانا جائے

حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم کے فرمودہ خطبے کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے: اے لوگو! ایک بہت ہی مبارک ماہ تم پر سایہ فگن ہونے والا ہے اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے الله رب العزت نے اس کے روزوں کو فرض اور رات کے قیام کو نفل قرار دیا ہے

جو شخص کسی نیکی لے ساتھ الله رب العزت کی طرف قرب چاہے اس کو اس قدر ثواب ہوتا ہے گویا اس نے دوسرے ماہ میں فرض ادا کیا- جس نے رمضان المبارک میں فرض ادا کیا اس کا ثواب اس قدر ہے گویا اس نے رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں ستر فرض ادا کئے

وہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے- وہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کا مہینہ ہے- اس مہینے میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتاہے- جو اس میں کسی روزہ دار کو افطار کرائے اس کے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں اور اس کی گردن آگ سے آزاد کردی جاتی ہے اور اس کو بھی اس قدر ثواب ملتا ہے

اس سے روزہ دار کے ثواب میں کچھ کمی نہیں آتی- اس پر صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین نے عرض کیا اے الله کے رسول صلی الله تعالیٰ وسلم! ہم میں سے ہر ایک میں یہ طاقت کہاں کہ روزہ دار کو سیر کرکے کھلائے اس پر آپ نے فرمایا:

یہ ثواب تو الله رب العزت اسے بھی عطا کرے گا جو ایک کھجور ایک گھونٹ پانی یا ایک گھونٹ دودھ پلادے

جس نے کسی روزہ دار کو افطاری کے وقت پانی پلایا الله رب العزت روز قیامت میرے حوض کوثر سے اسے وہ پانی پلائے گا جس کے بعد دخول جنت تک پیاس نہیں لگے گی

یہ ایسا مہینہ ہے جس کا اول رحمت ہے اور اس کے درمیان میں بخشش ہے اور اس کے آخر میں آگ سے آزادی ہے جو شخص اس میں اپنے غلام کا بوجھ ہلکا کرے الله رب العزت اس کو بخش دیتا ہے- (مشکوٰۃ شریف، صفحہ/ 174)

کریم گنج_پورن پور_پیلی بھیت_مغربی اتر پردیش

iftikharahmadquadri@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *