اعتراف و انحراف
اعتراف و انحراف
انس مسرور انصاری
اس مادّی کائنات میں انسان خداکی ایک افضل ترین مخلوق ہے لیکن چونکہ اس کاوجودگندے پانی کی حقیربوندسے ہوتاہے اورادنیٰ سے اعلاکی طرف مراجعت کرتاہے۔
اسی لیے قدرت نے اس کی فطرت میں متضاد اوصاف کوودیعت کیا ۔چناں چہ اگریہ پاکیزگی میں فرشتوں سے برترہے تومعصیت میں شیطان سے بھی بدتر۔
مختاربھی ہے مجبوربھی ۔قوی بھی ہے اورکم زور بھی ۔بداعمال بھی ہے اورخوش خصال بھی۔ قدرت نے اسے یہ اختیاربھی دیاہے کہ وہ خود جیسا چاہے ویسا اپنے آپ کو بنائے۔اس دنیامیں اس پرکوئی گرفت نہیں،کوئی پکڑنہیں۔قدرت نے اسے زندگی کی شاہراہ پرکھڑا کردیا ہے جہاں سے مختلف سمتوں میں راستے منقسم ہیں۔
انسان پرقدرت کایہ عظیم احسان ہے لیکن انسان کے حق میں قدرت کے احسانات و نوازشات کا سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوجاتابلکہ شاہراہِ زندگی سے مختلف سمتوں میں جانے والے راستوں کے انتخاب کے لیے قدرت نے انسان کوقوی ذہن اورادراک وعرفان کی بے حساب صلاحیتوں سے نوازہ اورانتخاب کی پوری پوری آزادی بخشی۔
انسان کومکمل اختیاردیاکہ جس راستے پر چاہے، جاسکتاہے لیکن اپنے نفع ونقصان کاوہ خودذمّہ دارہے۔یہ وہ مقام ہے جہاں انسان کوکسی رہنماکی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔کسی سہارے کی احتیاج ہوتی ہے۔
وہ کسی ماورائی طاقت سے امدادکاطالب ہوتاہے۔پہلے عرض کیاجاچکاہے کہ انسان متضاد خصوصیات کا مالک ہے۔جہاں وہ اتناقوی ہے کہ کائنات کی ہرشئے پر تصرفات کاحوصلہ رکھتاہے وہیں اتناکم زوربھی ہے کہ قدم قدم پراسے سہارے کی تلاش ہوتی ہے۔یہ سہاراخداکابھی ہوسکتاہے اورخودانسان کابھی۔!
حقیقت یہ ہے کہ زندگی کی شاہ راہ پرانسان کوبہرحال کسی نہ کسی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔یہاں ہمیں اس ماورائی طاقت کاادراک ہوتاہے جس نے انسان کی تخلیق کی اورجس کی مددسے ہم وجودکی اس منزل تک پہونچے ہیں اورجوکائنات کے میکانکی نظام کواس ترتیب اورتسلسل کے ساتھ چلاتی ہے کہ ہم اس میں کسی طرح نقص نہیں پاتے۔
کوئی عیب ہمیں نظرنہیں آتا۔وہ ماورائی ان دکھی طاقت جسے ہم خداکہتے ہیں۔جب خدا کا گیان حاصل ہوجاتاہے توہم اس سے مددمانگتے ہیں کیوں کہ انسانی زندگی کوئی آسان چیز نہیں ہے۔ہمیں قدم قدم پرخداکے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہم اس پراعتماد کرتے ہیں اوراسے راضی کرنے کے مختلف طریقے بروئے کارلاتے ہیں۔اسے قادرِ مطلق مان کراس کی مددسے ہم ان اشیاء پربھی تصرفات حاصل کرتے ہیں جوبظاہرہماری دست رس سے باہر ہوتی ہیں۔
خدا کے وجودکاادراک وعرفان نہ ہونے کی صورت میں یاادراک ہوتے ہوئے بھی اسے قادرِ مطلق نہ سمجھنے کی صورت میں انسان کے سامنے واحدراستہ یہ ہے کہ وہ اپنے دل ودماغ اورفکروتدبّرکواپنا سہارابنائے اورمادّی اسباب پربھروسہ کرے۔فطری اقتضابہرحال انسان کوکسی نہ کسی چیزکاسہارالینے اوراس پراعتمادقائم کرنے پر مجبورکرتاہے۔غورطلب یہ بھی ہے کہ انسان کوقد رتی ا ختیارحاصل ہوتے ہوئے بھی وہ بے اختیارہے ۔قدرت نے اس کے اختیارات پر مکمل کنٹرول رکھاہے ورنہ یہ دنیا کب کی جہنم بن چکی ہوتی۔ دل ودماغ اورتدبّرواسباب پرکوئی اختیار نہیں۔چنانچہ جب تدبیرواسباب ناکام ہوجاتے ہیں اورحصولِ مقاصدکے لیے مادّی اسباب فراہم نہیں ہوتے توانسان مجبوراوربے دست وپاہوکررجاتاہے۔تدبّرو تفکراوروسائل واسباب قابل اعتمادہوتے تودنیاکے بڑے بڑے مفکرین ومدبرین کبھی ناکام نہ ہوتے۔نپولین کو مسلسل فتوحات کے بعد کبھی شکست نہ ہوتی اورمغل سلطنت کوکبھی زوال نہ آتا۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اعلیٰ مرتبت انسانوں کی زندگی میں باربارایسے مواقع آتے رہے ہیں جب تمام ترتدبیروں نے ان کاساتھ چھوڑدیا اورسارے اسباب وعوامل ان کی دست رس سے باہرہوگئے۔در حقیقت انسان اتناکم زورہے کہ تدبیراوروسائل واسباب پربھی اسے اختیارحاصل نہیں۔یہ بھی قدرتی اشاروں کے محتاج ہیں۔اس کے باوجود انسان کوخودمختاری کادعویٰ ہے۔
خدا کی اس زمین پر خداپرست اورمادّہ پرست انسان ہمیشہ موجود رہے ہیں لیکن یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد مادّہ پرستی کوجس طرح فروغ حاصل ہوا،اس کی مثال نہیں ملتی۔اس کابہت برانتیجہ یہ سامنے آیا کہ انسانوں میں خودکشی کے رجحانات کوخوب تقویت ملی۔خودکشی کے عالمی اعدادوشماربتاتے ہیں کہ سکون وعافیت کی جستجو میں ناکامی کے سبب مادّہ پرست انسانوں میں منفی رجحانات کااضافہ شدت کے ساتھ ہواہے۔ چنانچہ مادّہ پرست انسان جب ناکام ومایوس ہوجاتاہے تواس کو تمام راستے مسدود نظرآتے ہیں اورخودکشی کے سواکوئی راستہ نظرنہیں آ تا۔زندہ رہنے کے لیے اس کے پاس کوئی سہارانہیں ہوتا۔کوئی امیدنہیں ہوتی۔کوئی چارہ نہیں ہوتا۔اس کے برعکس خداپرست انسان چوں کہ ناکامی و کام یابی کاسارا انحصاراپنے خداپررکھتاہے اس لیے جب بھی وہ اپنے مقصدمیں ناکام ہوتاہے توخداکے وجودکا ایقان وعرفان اسے ہرکوشش کے بعد ایک اورکوشش پرآمادہ رکھتاہے۔
چوں کہ اس کاایمان واعتماداقتدارِاعلاپرہوتاہے۔اسے یقین ہوتاہے کہ حاکمِ کُل خداہے جوقادرِ مطلق ہے ۔اس لیے اس کاکام کوشش وتدبیرہے۔اس کاخداجب چاہے گا اس کی مطلوبہ چیز اسے فراہم کردے گا۔خداکی حاکمیت کایقین واعتراف اس کاسب سے بڑاسہاراہوتا ہے جوخدا پرست انسان کوکبھی مایوس نہیں ہونے دیتا۔جب کہ مادّہ پرست انسان کی تمام تدبیروں کاسرچشمہ مادّہ ہوتاہے جومجبورِ محض ہے۔
ایسے شخص کی زندگی کاانحصاراتفاقات پرہوتاہے۔اتفاق سے وہ کامیاب ہوتاہے اوراتفاقات ہی پروہ جیتا ہے۔ جب اتفاقات اس کا ساتھ نہیں دیتے تو وہ آندھی میں تنکے کی طرح بے وزن و بے وقارہوجاتاہے ہے۔یہ وہ مقام ہے جہاں حالتِ مایوسی میں خودکشی کے سوازندگی کے لیے کوئی متبادل راستہ نہیں ہوتا۔خد انکار اور اس سے انحراف اصل میں باطل کااقرارواعتراف ہے اور خداکا اقرارواعتراف اصل میں فطرت کا اقرار و اعتراف ہے اورفطرت وہ چیزہے جس کے بغیر حرکت وعمل اورکسی طرح کی زندگی کا تصور محا ل ہے۔
انس مسرورؔانصاری
قومی اردوتحریک فاؤنڈیشن
سکراول،اردوبازار،ٹانڈہ۔
امبیڈکرنگر۲۲۴۱۹۰۔
(یوپی)
رابطہ۔9453347784
Pingback: کچھ تبسم زیریلب ⋆ انس مسرور انصاری
Pingback: تعریف کا جادو ⋆ انس مسرورانصاری
Pingback: آم کی چٹنی ⋆ اردو دنیا انس مسرورؔانصاری
Pingback: بک رہا ہوں جنوں میں قسط دوم ⋆ اردو دنیا
Pingback: کڑوا شربت ⋆ اردو دنیا انس مسرورانصاری
Pingback: ہملٹن کا سفرنامۂ ہند اوراورنگ زیب عالمگیر اردو دنیا انس مسرورؔانصاری
Pingback: چند ریان کے کام یاب سفر پرایک نظم ⋆ انس مسرور انصاری
Pingback: نعت رسول مقبول در صنعت غیر منقوطہ ⋆ انس مسرور انصاری
Pingback: جنگ آخر جنگ ہے ⋆ اردو دنیا
Pingback: اکبر الہ آبادی ⋆ اردو دنیا