امریکا سے مہاراشٹر تک سیاست کے بدلتے رنگ
تحریر محمد زاہد علی مرکزی چیئرمین تحریک علمائے بندیل کھنڈ
جیسے انسانی بدن کی بقا کے لیے روح ضروری ہے ویسے ہی کسی بھی قوم کی بقا و وجود کے لئے سیاست ضروری ہے، سیاست قوم کی روح کی حیثیت رکھتی ہے، جیسے روح نکلتے ہی انسان ختم ہوجاتا ہے ویسے ہی کسی قوم کے ہاتھوں سیاسی امور نکل جانے سے اس قوم کی بھی موت ہو جاتی ہے ۔ یہ بات مزید سمجھنا چاہیں تو نازی جرمنی میں یہودیوں کی حالت کا مطالعہ کریں ۔ سیاست ختم، قوم ختم ، انسان سیاست سے دور نہیں رہ سکتا اس پر سیاسی اثرات مرتب ہوتے ہی ہیں، براہ راست آپ کو بھلے ہی محسوس نہ ہو، کون ایسا ہے جو آتی جاتی حکومتوں اور ان کے فیصلوں سے متاثر نہ ہو، ڈیزل پٹرول، کھانے پینے کی چیزیں روزہ مرہ کے ضروری سامان سب کا تعلق سیاست سے ہے، گیس کے دام کب بڑھیں گے اور شکر کی قیمتوں میں کب اضافہ کرنا ہے یہ سب حکومت کے اشاروں پر ہی ہوتا ہے – حکومت کا اثر افغانستان کو ساری دنیا دہشت گرد کہتی رہی، تمام پابندیاں عائد رہیں لیکن جیسے ہی وہ حکومت میں آئے بہت سے ملکوں نے قبول کیا اور بہتوں نے دہشت کرد لکھنا چھوڑ دیا، حکومتی کام ناجائز بھی ہوں تو جائز ہوجایا کرتے ہیں جیسے اسرائیل کا فلسطین میں اور روس کا یوکرین میں، جرمنی کا یہودیوں پر ظلم حکومتی سطح پر جائز سمجھا جاتا رہا ہے /جاتا رہے گا – امریکی سیاست میں ٹرمپ کی واپسی اور مسلمانامریکی الیکشن سے ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ دنیا میں جارحانہ سیاست پسند کی جارہی ہے، ایسا پہلے بھی ہوتا آیا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے، فی الحال آپ میانمار (برما) کو دیکھ لیں، بھارت کی بی جے پی حکومت کو دیکھ لیں، ترکی میں طیب اردوغان کو دیکھ لیں، امریکا میں ٹرمپ کی واپسی کو دیکھ لیں، یہ سب جارحانہ تیوروں والی حکومتیں ہیں، امریکا جیسے ملک میں اگر لوگ جارحانہ سیاست پسند کر رہے ہیں تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ انسان کس قدر جلد جارحانہ رویوں کی طرف مائل ہوتا ہے، ٹرمپ کی ہار پر ہم نے دیکھا تھا کہ لوگ مشتعل ہوگئے تھے اور” کیپٹل ہل کا ہنگامہ” ساری دنیا نے دیکھا تھا، ان لوگوں کو اکسانے کا الزام ٹرمپ پر ہے اور ٹرمپ پر کئی ریاستوں میں مقدمات بھی چل رہے ہیں ۔ خیر! تب نہ سہی، آج ٹرمپ کی واپسی ہو گئی ہے اور یہ واپسی جارحانہ الیکشن کیمپین کا نتیجہ ہے، ٹرمپ نے جس قدر جارحانہ تیور اپنائے ہیں آج تک امریکی تاریخ میں ایسا کسی صدر نے نہیں کیا، ڈونلڈ ٹرمپ نے اکتوبر میں دائیں بازو سے منسلک چینل ’نیشنل پلس‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ تارکین وطن ’ہمارے ملک کے خون میں زہر گھول رہے ہیں، اس انٹرویو میں ٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا اگر وہ دوبارہ صدر منتخب ہوتے ہیں تو وہ ایسے تمام لوگوں کا تعاقب کریں گے جو اُن کی مخالفت کرتے ہیں اور امریکہ سے ’کیڑوں‘ کا صفایا کر دیں گے، کیڑوں سے مراد غیر ملکی اور مسلم ہیں، مسلمانوں کو کافی نقصان ہو سکتا ہے – اسی طرح انھوں نے انتخابی مہم کے دوران عورتوں سے ووٹ کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ کہ اٹھو! اپنے شوہروں کو تھپڑ مارو، اٹھو! سُور جیسے موٹے لوگوں کو صوفے سے اتارو….. ان سے کہو کہ نکلو! اور ٹرمپ کو ووٹ کرو، وہ ہمارے ملک کو بچانے والا ہے – مجلس اتحاد المسلمین کی جارحیت کیوں؟یہ ساری تمہید اس لیے ہے کہ ہمارے لوگوں کو بھی سمجھ آئے کہ آخر مجلس جارحانہ رویہ کیوں اختیار کرتی ہے؟ یہ ایک کامیاب اسٹریٹجی ہے جو انسان پر بڑی سٹیک بیٹھتی ہے، جارحیت کا رنگ، مذہب، قومیت، رنگ و نسل، سرحدی حدود کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن یہ نسخہ حکومتوں کے لیے اکسیر ہے، نازی جرمنی نے اپنایا کامیاب ہوے اور پھر تباہ، یہ نسخہ جتنا زود اثر ہے اتنا ہی خطرناک اور محدود مدت کا حامل ہے، لیکن ہے تیر بہدف یعنی سَٹیک، ہوشیار لوگ اسے اپنا کر سیاست میں آتے ہیں اور پھر ٹھنڈے ہو کر سالوں سیاست کرتے ہیں، جب سیاسی نقصان دیکھتے ہیں پھر یہی سیاست کرتے ہیں اور سالوں کو فرصت، اگر اس نسخے کا درست استعمال کیا جائے تو فائدہ یقینی ہے – جن لوگوں نے اسے سمجھ لیا ہے وہ کامیاب ہیں اور اپنی اپنی قوم کو بھی کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچاتے رہتے ہیں، عوام جارحیت پسند ہے یہ ساری دنیا کے حالات سے ظاہر ہے، عوام پرسکون تبھی تک رہتی ہے جب تک اسے کوئی اکسانے والا نہ ہو، تھوڑا سا اکساوا ملے تو عوام کو انعام ( جانور) بننے میں دیر نہیں لگتی، ( فسادات اس کی بہترین مثال ہیں) بہت سے لوگ مجلس پر سخت بیان بازی کا الزام لگاتے ہیں اور اس چیز سے کنارہ کشی کی امید رکھتے ہیں لیکن اسد الدین اویسی صاحب بخوبی جانتے ہیں کہ یہ جارحانہ تیور کیوں ضروری ہیں اور کب تک ضروری ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ مہاراشٹر الیکشن میں سالوں بعد چھوٹے بھائی جان یعنی اکبر الدین کی انٹری ہوئی ہے اکبر الدین اویسی صاحب اپنے جارحانہ تیوروں کے لیے جانے جاتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ مجلس کا یہ فیصلہ نہایت دیدہ وری پر مشتمل ہے، نتیجے کیا ہوں گے یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن مہاراشٹر الیکشن میں اگر مجلس 5 سے 10 سیٹ جیت جاتی ہے تو پورے ہندوستان کی سیاست کا رخ بدل جائے گا، سیکولر ازم کے علم برداروں کے چورن سے پرہیز کریں اور مسلم قیادت پر توجہ دیں، بھارتی مسلمانوں کے لئے یہی بہتر ہے، جب تک سیکولر جماعتوں کو مسلم ووٹ ملتا رہے گا ہمارے حالات یہی رہیں گے، جب کہ مسلم ووٹ مسلم قیادت کو پانچ دس فیصد ہی مل جائے تو ساری سیکولر پارٹیاں ہمارے دروازوں پر ہوں گی، ہمارے بغیر کسی بھی صوبے میں حکومت مشکل ہو جائے گی – مہاراشٹر کے مسلمانوں سے اپیلبہار کے مسلمانوں نے بیداری کا ثبوت دیتے ہوئے پانچ ودھایک بنا دیے تھے لیکن ان ودھایکوں کو آزادی راس نہ آئی اور عوام کے بھروسے کا خون کرتے ہوئے پھر وہیں پہنچ گئے جہاں تھے، اگر تھوڑے دن صبر رکھتے تو بہار میں جب حکومت پلٹی تھی ہر ایک ودھایک منتری ہوتا ۔ مہاراشٹر کے مسلمانوں کو بھی سوچنا چاہیے کے آپ کے ہمارے حالات پر کوئی ترس کھانے والا نہیں ہے اس لیے مجلس کو ووٹ کریں تاکہ مسلم قیادت کھڑی ہو سکے، سیکولر کہلانے والی پارٹیاں مسلمانوں سے اتحاد نہیں کرنا چاہتیں، چندر شیکھر جو ابھی مسلم ووٹوں سے پارلیمنٹ پہنچے ہیں وہ بھی مجلس کو گٹھ بندھن میں 9 میں سے صرف ایک سیٹ دینا چاہتے ہیں، سیکولر پارٹیاں مسلم علاقوں سے اپنے پسندیدہ غیر مسلم امیدوار اتار رہی ہیں، آپ کے معاملات میں بالکل خاموش ہیں، بتائیے ایسے میں اگر مسلم، مسلم کے ساتھ نہ جانے گا تو غیر کیوں جائے گا؟ وہ تو آپ کو دیکھنا بھی نہیں چاہتے، پارلیمنٹ سے لے کر سڑک تک مسلم لیڈروں کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش ہو رہی ہے – ایسے میں ضروری ہے کہ جہاں بھی مجلس یا مسلم قیادت ہو وہاں سب سے پہلے انھیں ہی سپورٹ کریں بعد میں کسی اور کو، مجلس کہاں ساری نشستوں پر امید وار کھڑے کر رہی ہے ؟ تو پھر ہم کیوں ایسا نہ کریں کہ چند سیٹوں میں مجلس کو کامیاب کریں، بقیہ میں اپنی مرضی کی پارٹی کو ووٹ کرنے کا آپ کو اختیار ہے -7/11/20244/5/1446