بابا رام دیو کےنام

Spread the love

کچھ تبسم زیر لب بابا رام دیو کے نام

انس مسرورانصاری

گزشتہ دنوں راجستھان میں منعقدہ ایک مذہبی تقریب میں بابا نام دیو مہراج اپنے بھاشن میں اسلام اورمسلمانوں کے خلاف خوب گرجے برسے۔یہاں تک کہ پسینے سے ان کا سارا بدن بھیگ گیا۔

تمام تر مذہبی اخلاقیات کو ہوا میں اڑاتے ہوئے انھوں نے شعائراسلام کا مذاق اڑایا۔روزہ، نماز ، داڑھی ،ٹوپی وغیرہ کے تعلق سے بدترین بکواس کی اور اپنی جہالت کا بھرپور مظاہرہ کیا۔

ہمارے یہاں ایک مثل مشہور ہے۔۔سوف تو سوف ،چھلنی بھی ہنسے جس کے بہتر(72)چھید۔ بابا جی ۔!آپ کی سیوامیں یہ پروچن پیش کرتا ہوں کہ آپ پرلے درجہ کے بیوقوف اور نادان ہیں۔جس یوگا کےبل بوتے پر آپ نے شہرت حاصل کی،آئیے ہم بتاتے ہیں کہ یوگا کیاہے۔؟

آپ کو خود اپنے دھرم کےبارےمیں کچھ نہیں معلوم تودوسرےدھرموں کےبارے میں اپنی رائے اور وچار دھارائیں اپنے پاس رکھیں۔اسے بہنے سے روکیں۔آپ تو ایک ڈھونگی سادھوہیں۔آرایس ایس کے ایجنٹ۔جس کے موجودہ سربراہ موہن بھاگوت ہیں۔

انھوں نے بھی اپنےایک حالیہ بیان میں کہا تھا کہ دنیا میں سناتن دھرم سب سے اچھا دھرم ہے۔،، آپ ان کےچیلاہوتے ہوئے بھی ان سے چار قدم آگے نکل گئے۔واہ۔۔۔ واہ۔۔ جواب نھیں اس جہالت کا۔

یہ تو نریندر مودی اور امت شاہ کے اقتدار کی مہربانیاں ہیں(اندھوں کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی)کہ آج آپ اربوں میں کھیلنےلگے اور بڑی بڑی باتیں کرنے لگے۔

ورنہ ماضی کی طرح حال میں بھی آپ سائکل ٹیوب کےپنکچر بنا رہے ہوتے۔۔خفانہ ہوں۔بریکٹ بند محاورہ انجانے میں زبان پر آ گیا۔

اگر ہم سناتن دھرم کی حقیقت بیان کرنے لگیں تو آپ کوپسینے چھوٹ جائیں۔لیکن ہم بدتمیز ہیں نہ غیرمھذب اور نہ بےغیرت۔۔ہمارا دین اسلام ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتا۔

گروجی !شایدآپ کو معلوم نہ ہو کہ اسلام دھرم ایک تبلیغی دھرم ہے۔اس لیے اس کے پھیلاؤ کو روکا نہیں جاسکتا۔ سناتن دھرم ایک غیر تبلیغی مذہب ہےاوراسے پھیلایا نہیں جاسکتا۔

البتہ ذاتی طور پر ہم آپ سےچند سوالات ضرور کریں گے ۔سب سے پہلے ہم آپ کو یہ گیان دینا چاہتے ہیں کہ آپ کا دھرم، ویدک دھرم،ہرگز نہیں ہے۔

یہ تو کوئی اور ہی دھرم ہےجس کے آپ اپاسک اورپرچارک ہیں۔ذرا اپنی دھارمک پستکوں اور ویدوں کادھیان پوروک ادھن کرلیں،پھر ہم آپ سے تفصیلی گفت گو کریں گے۔

پہلے آپ یہ بتائیں کہ کیا کوئی دھرم ایسا بھی ہے جس نےاسلام دھرم سے بغاوت کر کے ایک نئے مذہب کی صورت اختیارکی ہو۔؟

چودہ صدیوں میں ایک بھی مسلمان ایسا ظاہر نہ ہوا جس نے اسلام سے بغاوت کر کے کسی اور نئے مذہب کا اعلان کی اہو۔ میرا دعوی ہے کہ آپ ایک مثال بھی نھیں دے سکتے۔کیوں کہ پوری دنیا میں ایسا کوئی دھرم ہے ہی نہیں ۔

پھر یہ بتائیں کہ مہاتما گوتم بدھ نے سناتن دھرم سے بغاوت کر کے ایک نئے دھرم کی استھاپنا کیوں کی۔؟ آپ کے دھرم میں انھوں نے کیا خرابی پائی ۔؟؟

آپ جانتے ہوں گے،اس میں بھی ہمیں شک ہے۔آپ کو اپنے دھرم کا اتھاس تک نھیں معلوم۔

کیاہم بتائیں کہ مہاتما گوتم بدھ،مھاویرسوامی اورگرونانک جی کے علاوہ بھی بہت سارے رشیوں، منیوں نے سناتن دھرم سےبغاوت اورتیاگ کے بعد نئے نئے دھرموں کی بنیاد کیوں رکھی۔۔؟

اگر آپ نے تاریخ پڑھی ہوتی تو اسلام مخالف بیانات سےگریز کرتے۔کیوں کہ آپ کی چھلنی میں خود72/چھید ہیں۔باباجی۔!پہلے اپنے گریبان میں منھ ڈال کر دیکھو پھرکسی دوسرے دھرم کےبارے میں کچھ کہو۔ آپ کی تاریخ اور اصلیت بتاتی ہےکہ ویدک دھرم سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

اس پرتوبرہمنوں نےنا جائز قبض جمالیاتھا۔ویدوں کےخلاف بھگوان اوربھگتوں کےدرمیان دیوار بن کر کھڑےہو گیے تھے۔انھوں نےاپنے حلوے پوری کے لیے۔۔منو سمرتی،کاسہارالیا۔اس کومضبوتی سے پکڑ لیا اور ویدوں کوچھوڑ دیا۔اس کے پڑھنے لکھنے اور دیکھنےتک پر پابندی لگادی۔

یہ تومسلمانوں کا احسان ہےکہ یہاں آنے کے بعد انھوں نے صدیوں سےبند پڑے ویدوں اوربنیادی مذہبی کتابوں کےعلوم کوعام کیا۔

دوسرے مذاہب کی بنیادی کتابوں کے ترجمےکیے۔۔منوسمرتی،، ہی ایک ایسی دھارمک پستک ہے جو بلا شرکت غیرے برہمنوں کو مذہبی اور سیاسی اقتدارحاصل کرنے میں بھر پور مدد کرتی ہے۔

برہمنیت نےاس سے خوب خوب فائدے اٹھائے۔انسانوں کوچار ورنوں میں بانٹ دیا۔چار طبقوں میں تقسیم کردیااورتین طبقوں کو اپنی خدمت کاپابند بنادیا۔

برہمنوں کی سازش کام یاب رہی۔اس آکاش کے نیچے اور اس دھرتی کےاوپر بھگوان کے بعد انسان سے بڑا کوئی نہیں۔وہ بھگوان جونرنکارہے۔لیکن آپ انسانوں سے نفرت کرتےہیں اور جانوروں کی پوجا کراتے ہیں۔۔

ذات پات چھوت چھات اونچ نیچ اورسماج کے کمزور طبقوں کےساتھ ظالمانہ سلوک،شدت پسند برہمنیت کی بے رحمی اور خودغرضی نے انسانوں کوحیوانوں میں تبدیل کردیا۔ انسانوں پر ہونے والے مظالم اور برہمنی استحصال مہاتما گوتم بدھ سے دیکھا نہ گیا۔

انھوں نے برہمنی دھرم سے کنارہ کشی اختیارکی اوراپدیش دیا کہ مانو جاتی ایک سمان۔بھگوان نرنکارہے۔وہ ایک ہے۔تریسٹھ ہزاردیوتانہیں ہوسکتے۔ دیو یا دیوتا بس وہی ایک ہے۔ مانواور بھگوان کےبیچ کوئی دوسرا نھیں۔۔یعنی خدا اوربندوں میں تعلق براہ راست ہے۔

کسی واسطہ اور وسیلہ کی ضرورت نھیں۔بھگوان سے مانگنےاورپانے کےدرمیان کوئی تیسرا نہیں۔۔بنرجنم کوئی چیز نہیں۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔اس کےہزاروں سال بعد گرو
نانک جی نے گوتم بدھ کےان اقول کی تصدیق کی۔

برہمنیت پر یہ ایسی کاری ضرب تھی جس سے وہ بلبلا اٹھی۔گوتم بدھ کے اس نظریہ کو برہمنیت نے سختی کےساتھ مسترد کردیا۔

اس کی بھرپور مخالفت کی۔چالاک برہمنوں کو لگاکہ اگر یہ نظریہ مقبول ہو گیا تو مذہبی اورسیاسی اقتدار ان کے ہاتھو ں سے جاتا رہے گا۔برہمنوں نے اس نظریہ کی شدت کےساتھ مخالفت اور مذمت کی اوربودھ دھرم کے ماننے والوں پر اتنے مظالم توڑے کہ خدا کی زمین ان پرتنگ ہو گئی۔ بودھ دھرم کے ماننے والوں کے خلاف نفرت انگیز فتوے جاری کیے کہ کسی بدھسٹ کے برتن میں کھاناپینا،ایسا ہی ناپاک ہےجیسےکسی کتے کی کھال میں کھانا، پینا۔وغیرہ۔

لیکن زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھاکہ زمانہ نے کروٹ بدلی۔ کئی راجوں مہاراجوں اور کالنگاکی لڑائی میں ایک لاکھ انسانوں کی لاشوں کو دیکھ کر اشوک اعظم نے اپنے آبائی دھرم کو تیاگ دیا اور گوتم بدھ کے امن واہنسا وادی دھرم کواپنا لیا۔۔
ذرا اپنی تاریخ پڑھ لیجیے باباجی! کہ جب تک بودھ دھرم کومقتدرطبقہ کی سرپرستی حاصل رہی،برہمنیت کا کیسابراحال رہا۔

اپنے ہی زخموں کوچاٹنےاورفرضی تبسم زیرلب کے سیواکوئی چارہ ء کار نہ تھا۔زخم کھا کر مسکرانا کوئی برہمنیت سے سیکھے۔پھر اشوک اعظم اوراس کے وارثین کےبعدآپ نے بودھ دھرم کے ماننے والوں کےساتھ کیسا سلوک کیا۔؟

ان کو اتنا ستایا اور ان کےخلاف اتنی نفرت پھیلائی کہ آخرکار انھیں د یش نکالا دے د یا۔بدھسٹ اپنی رہائش گاہیں،اپنی عبادت گاہیں چھوڑ کرمختلف ملکوں کی طرف ہجرت پر مجبور ہوگئے جہاں آج وہ آبادہیں۔

انھیں یہ ملک چھوڑناپڑا۔برہمنیت!یعنی آپ کو سکون مل گیا۔
مہاویر سوامی کےماننےوالےجینیوں کے ساتھ بھی آپ نےکچھ اچھاسلوک نہیں کیا۔اس کی تفصیل الگ ہے۔ان کےساتھ بھی وہی کچھ کیاجوبدھسٹوں کےساتھ کیاتھا۔۔
کیا آپ تاریخ کودہراناچاہتے ہیں۔؟اور اب وہی کچھ مسلمانوں کے ساتھ کرناچاہتے ہیں جو آپ کی مذہبی روایت رہی ہے۔وہی مظالم، نا انصافیاں ،نفرت انگیزیاں،جو آپ کی دھارمک پرم پراہے۔۔۔حقیقت یہ ہےکہ ہمیشہ کی بھوکی برہمنیت کبھی اتنی کشادہ ظرف اور کشادہ قلب نہیں رہی کہ اپنے آس پاس کسی اور مذہب کو برداشت کرپاتی۔اسے ہمیشہ خوف رہتا ہے کہ جب بھی کوئی اصلاحی مذہبی تحریک کھڑی ہوگی تواس کے اپاسک بھاگ کھڑے ہوں گے۔
یہ لوجہاد۔تبدیلیءمذہب۔نکاح،طلاق، نقاب،یکساںسول کوڈوغیرہ کے مسائل جو کھڑے کیےگئےہیں،ان کی حقیقت کو ہم خوب جانتےہیں۔یہ کوئی اور چیزنھیں بلکہ پرانا برہمن وادی خوف ہے۔۔مگربابارام دیوجی۔!آپ یہ کبھی نہ بھولیں کہ آپ تاریخ کودہرانہیں سکتے۔ نہ اسے ختم کرسکتےہیں۔البتہ اس حقیقت کو تسلیم کرلیں کہ یہ مسلمان قوم ہے۔گری پڑی حالت میں بھی اپنے وطن اور قوم کی حفاظت کرناخوب جانتی ہے۔ذرا مذہبی پابندیاں اٹھاکرتودیکھو۔سناتن دھرم کے تنگ دائروں میں جکڑے ہوئے برادران وطن اسلام کی آغوش میں پناہ لینے کےلیےبےتاب ہیں۔۔۔۔۔۔۔ بات بہت آگےتک نجائے گی ورنہ ہم آپ سے اوربہت ساری باتیں کرتےگروجی۔!


اک ذراچھیڑیئےپھردیکھئیےکیاہوتاہے،، آخیرمیں علامہ شفیق جون پوری کا ایک شعرسنئے اورسردھنیے۔عبرت بھی حاصل کیجیے


نکالیں سیکڑوں نہریں کہ پانی کچھ تو کم ہوگا
مگر پھر بھی مرےدریاکی طغیانی نہیں جاتی

آپ کا شبھ چنتک

انس مسرورانصاری

قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن

سکراول،اردوبازار،ٹانڈہ۔امبیڈکرنگر (یو،پی)
رابطہ/ 9453347784


One thought on “بابا رام دیو کےنام

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *