دعوت و تبلیغ کی راہ میں پیش آنے والے چند واقعات پہلی قسط
دعوت و تبلیغ کی راہ میں پیش آنے والے چند واقعات پہلی قسط
از: محمد امثل حسین گلاب فیض پور سیتامڑھی
الحمد للہ بچپن ہی سے نماز باجماعت وہ بھی مسجد میں جا کر ادا کرنے کے ہم پابند ہیں۔ و للہ الحمد علی ذلک و منہ التوفیق و الھدایۃ فی البدایۃ و النھایۃ۔ اور اوائل عمری سے ہی لوگوں کو نماز کی دعوت دینے کا دل میں بہت شوق اور حتی المقدور ہم اس کے تقاضوں پر عامل بھی ہیں۔ جب ہم مدرسہ یوسفیہ رحیمیہ باتھ اصلی میں زیر تعلیم تھے تو اس وقت اپنے گھر سے مدرسہ جاتے آتے تھے, اس وقت قریباً اپنی عمر کے دس بچوں کو ساتھ لے ہم اپنے گاؤں کی مسجد میں جاتے تھے, اس کے بعد جس جس مدرسے میں ہم نے تعلیم حاصل کی, اس میں پابندی نماز کے ساتھ وسعت بھر لوگوں کو نماز کی دعوت بھی دی۔ اب تک دو درجن سے کچھ زائد افراد ہماری محنت سے اور ہماری محنت سے کیا توفیق رب سے نمازی بن چکے ہیں۔ ان دنوں چاہے ہم شہر کلکتہ میں رہیں یا شہر ممبئی میں یا پھر اپنے گاؤں میں دعوت نماز کا کام جاری رہتا ہے۔ یہ چیزیں ہم محض تحدیث نعمت اور ترغیب امت کے لیے ذکر کر رہے ہیں اور اس لیے بھی کہ ہم نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ وقتاً فوقتاً ترغیباً و تحدیثاً اپنی تبلیغی سرگرمیوں کی خبر آپ تک پہنچاتے رہیں گے, ورنہ نہ حسرت شہرت نہ خواہش ناموری۔ تو دعوت نماز کی راہ میں پیش آمدہ چند واقعات ذیلی تحریروں میں ملاحظہ فرمائیں۔
ایک صاحب کو ہم نے نماز کی دعوت دی۔ اوائل میں تو اس آدمی نے اپنی ہزاروں مصروفیات کا چرچا کیا, پھر جہد مسلسل اور متعدد بار کی ملاقات اور بات چیت سے الحمد للہ اس نے نماز پڑھنا شروع کر دیا۔ وہ صاحب کہنے لگے کہ حضرت میں فجر میں خود سے نہیں اٹھ پاؤں گا, آپ فون کر کے اٹھا دیجیے گا۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے۔ ہم فجر میں فون کر کے اٹھا دیتے, وہ مسجد میں آکر نماز پڑھ لیتے۔ دیگر نماز بھی وہ پابندی سے پڑھ رہے تھے۔
تقریباً دس دنوں تک انھوں نے بڑی پابندی سے نمازیں پڑھیں۔ پھر سستی اور غفلت نے انھیں گھیر لیا, شیطان اس کو بھٹکانے میں کامیاب ہوگیا, اس نے نماز پڑھنا چھوڑ دیا۔
ایک دو دن تو اس نے اپنی مصروفیت کا بہانہ کیا پھر جب ہم نے اس سے ملاقات کی اور سوال کرنے پر اس نے جو جواب دیا, اسے پڑھ کر آپ کا کلیجہ دہل جائے گا اور آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ ایک مسلمان اس طرح کی بات کر سکتا ہے۔
ہم نے کہا کہ ماشاء اللہ بڑی پابندی سے آپ نماز پڑھ رہے تھے, کیا ہوا کہ دو تین دن سے آپ نماز نہیں پڑھ رہے ہیں؟
اس نے کہا کہ حضرت جب سے میں نماز شروع کیا ہوں میرا کام بالکل ٹھپ ہوگیا ہے, بالکل بند ہو گیا ہے۔
ہم نے کلمہ توبہ و استغفار پڑھ کر کہا کہ دیکھیے ایک مسلمان کو اس طرح کا جملہ ہرگز ہرگز نہیں بولنا چاہیے۔ کام ہوگا ان شاء اللہ ضرور ہوگا۔
کبھی کام کا ہونا اور کبھی نہ ہونا یہ تو ہر کسی کے ساتھ ہوتا رہتا ہے, اس سے گھبرانا نہیں چاہیے اور اس طرح کی بات نہیں بولنا چاہیے۔
اس نے کہا کہ کیسی بات آپ کر رہے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے زمانے میں بھی میرا کام نہیں رکا, لاک ڈاؤن میں سب کا کام بند تھا مگر میرا کام ایک دن بھی نہیں رکا, جب سے میں نماز شروع کیا ہوں میرا کام بالکل بند ہوگیا ہے۔۔۔
پھر اس سے اور بھی باتيں ہوئیں, ہم نے بہت سمجھانے کی کوشش کی مگر دوبارہ نماز پنچ وقتہ کے لیے وہ تیار نہ ہوا۔
چند ماہ بعد اتفاق سے موٹر سائیکل اکسیڈینٹ میں اسی آدمی کا پاؤں ٹوٹ گیا۔ ہمیں تو نہیں مگر ایک دوسرے شخص سے وہ کہہ رہا تھا کہ میں جو جمعہ کی نماز پڑھنے چلا جاتا ہوں, اسی وجہ سے یہ سب ہوا ہے۔ معاذ اللہ رب العالیمن۔
اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو علم دین سیکھنے اور نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔ (جاری