مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ

Spread the love

از قلم : وزیر احمد مصباحی [بانکا] مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ [دار العلوم سیدنا ابو بکر صدیق کی رودادِ سفر سے چند حقیقت افروز باتیں]۔

مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ

واقعی یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اللہ رب العزت اپنے بندوں میں سے جسے خدمت دین کے لیے منتخب فرما لیتا ہے تو پھر وہ حوادث زمانہ کے بے رحم تھپیڑوں کو بھی مات دے دیتا ہے۔

ہاں! زمانے کی ہزارہا مخالفتوں کے آگے بسا اوقات وہ کچھ لمحوں کے لیے رک تو ضرور سکتا ہے مگر اپنی ہار تسلیم کرکے بڑھتے ہوئے قدم کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹا سکتا

اور میں سمجھتا ہوں کہ ایک مجاہد کی سرخروئی کے سارے رنگ اسی ایک عمل میں پنہا ہیں۔ لیکن اگر کسی سے رب راضی نہ ہو، رحمتِ خداوندی سایہ فگن نہ ہو تو وہ جلد ہی اپنے کاموں سے اوب کر “سپر انداختم” کا راگ الاپنے لگتا ہے۔

در اصل آج میں یہ ساری باتیں اس لیے لکھ رہا ہوں کہ ابھی چند مہینے قبل میری ملاقات ایک ایسے ہی مجاہد آدمی سے ہوئی جو ایک دار العلوم میں بیٹھ کر قوم مسلم کے نو نہالوں کی دینی تعلیم و تربیت کے خاطر دن رات محنت کر رہے ہیں۔

یوں تو بارہا ان سے ٹیلیفونک رابطہ رہا۔ مگر ان سے روبرو ہونے، چند گھنٹوں کے لیے ان کے ادارے میں مہمان بننے اور ان کی محنت و لگن کے گر و راز کو قریب سے جاننے و سمجھنے کا حسین ترین لمحہ پہلی بار میسر آیا۔

جی ہاں! حضرت مولانا محمد شمشیر علی رضوی خلوص و للہیت کے پیکر، حسن اخلاق و کردار کی مورت اور جہد مسلسل کے باب میں راقم الحروف کے نزدیک توانا مشین کی حیثیت رکھتے ہیں۔

میں نے یہ اکثر مشاہدہ کیا ہے کہ کسی شخص میں اگرچہ لاکھ خوبیاں ہوں، مگر کہیں نہ کہیں وہ معاصرانہ چشمک کی بیماریوں سے باہر نہیں نکل پاتا، نامعلوم طور پر اندر ہی اندر نفرت و حسد کی بھٹی میں تپتا رہتا ہے اور یہی وہ واحد وجہ ہوتی ہے کہ وہ ہم نواؤں اور ہر لمحہ اپنے پاس پھڑکنے والوں کو بھی وقتاً فوقتاً اسی خصلت بد کی بورسی سے سرفراز کرتا رہتا ہے۔

میں نے محترم مولانا مناظر حسین مصباحی کی زبانی مولانا موصوف کے تعلق سے یہ سن رکھا تھا کہ “آپ اہل علم و ادب کی دل و جان سے عزت و محبت کرتے ہیں” اور اس زبانی کو حقیقت کے روپ میں میں نے اس دن اپنے ماتھے کی آنکھوں سے دیکھ بھی لیا

واقعی! اپنے چھوٹوں کے لیے شفقت و محبت کا قلندر بننے کا ہنر تو کوئی آپ سے سیکھے۔ اے کاش! کہ اس دن وقت کے دامن میں اتنی وسعت ہوتی کہ میں اخلاق کے اس دھنی کے سارے رنگ و روپ اپنی آنکھوں کی کٹوری میں قید میں کر لیا ہوتا تو آج سچ مچ صفحۂ قرطاس پہ اس مرد قلندر کی ایک مکمل اور سچی تصویر اتار کر اسے دھنک کے سارے رنگوں سے سزا لیتا۔

مگر پھر بھی ذہن میں موجود رودادِ سفر کی چند جھلکیوں کی معیت میں آدھی ادھوری ہی تصویر سہی، اتارنے کی کوشش اپنے لیے سعادت مندی سمجھتا ہوں۔

محترم قارئین! آدمی نما یہ دو ہاتھ پیر والی مخلوق بھی اپنے آپ میں کتنا عجیب ہوتی ہے نا کہ وہ کبھی کسی شئی سے متعلق ذہنی دریچے میں کوئی غائبانہ تصور جما لیتی ہے اور کوسوں دور بیٹھ کر اس کی مدح و ذم کے سکے اچھالتی رہتی ہے۔

ہاں! اب یہ صاحب تصور پہ منحصر ہوتا ہے کہ وہ مدحیہ پہلو اختیار کرکے اپنے اچھالے گیے اس سکہ کو رَوزن سے اوپر کر دے یا ذم کے جذبے میں اسے فرش پہ گرا دے۔

بہت پہلے دار العلوم سیدنا ابو بکر صدیق[ رضا نگر، دھواٹانر، دودھاری، بانکا بہار] سے متعلق ٹیلی فونک گفتگو پر مولانا موصوف کی زبانی سننے کے بعد میں نے بھی ذہنی دریچے میں مدح کی جس بلندی تک تصور کا سکہ اچھالا تھا

آج [۱۰،۱۱،۲۰۲۱] اس کی اصل حقیقت دیکھ کر اندازہ ہوا کہ نہیں! یہ تو تصور میں اچھالے گیے سکے کی بلندی سے بہت اعلیٰ و ارفع ہے۔ نظامِ تعلیم و تربیت، اساتذہ کا انتخاب، طلبا میں وقت کی پابندی اور صفائی ستھرائی وغیرہ ان سارے امور کی نفاست نے مجھے بہت متاثر کیا۔

پہاڑی علاقے میں اپنی محنت و مشقت کے بل بوتے اتنا بڑا ادارہ چلا لینا واقعی ایک بڑی کامیابی ہے۔ میری معلومات میں اب تک ضلع، بانکا میں دو ہی تین ادارے تھے

لیکن دار العلوم سیدنا ابو بکر صدیق کو دیکھنے کے بعد پتہ چلا کہ مولانا موصوف نام و نمود اور جھوٹی نمائش سے کوسوں دور رہ کر کس قدر سر سبز و شاداب علمی گلستاں آباد کیے ہوئے ہیں۔

شاید دن کے بارے بج رہے تھے، جب میں دارالعلوم پہنچا تو طلبا دوپہر کے کھانے کے بعد قیلولہ کی تیاری میں مصروف تھے، مجھ پر نظر پڑتے ہی چند طلبا برآمدے میں آ گیے

میں نے پہل کرتے ہوئے سب کو سلام کیا اور ابھی باری باری سب سے مصافحہ ہی کر رہا تھا کہ اچانک دائیں جانب سے ایک مسکراتا ہوا کتابی چہرہ نمودار ہوا اور جلدی جلدی میری طرف بڑھنے لگا، میں نے دیکھتے ہی پہچان لیا کہ۔

اوہ! یہ تو وہی شخص ہیں جن کی علما نوازی کی شہرت اب تک دوسروں کی زبانی سنتا آیا ہوں اور جن سے میں اب تک غائبانہ متعارف تھا۔ واقعی! میں اس پر شاداں تھا کہ آج اس مرد مجاہد سے شرف ملاقات حاصل ہو رہا تھا۔

میں نے بہت پہلے سے ہی جس تعلیم گاہ کے تئیں اپنے ذہن میں محض ایک مکتب کا تصور پال رکھا تھا، آج اس کی تعبیر “دار العلوم” کی شکل میں ہو رہی تھی۔ شب سے پہلے مولانا موصوف مجھے اپنے کمرے میں لے گیے

مزاج و گلے کی خشکی کو دور کرنے کے لیے انھوں نے ٹھنڈے پانی کا ایک گلاس میری جانب بڑھایا، خبر خیریت دریافت کی اور پھر پل بھر میں ہی طویل باتوں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔

شفقت و محبت کے سائے میں کب تین چار گھنٹے کا طویل وقفہ گزر گیا کچھ پتہ ہی نہیں چلا، عصر کی آذان ہوئی تو دیکھا کہ موبائل کی گھڑی چار بجا رہی ہے۔

شاید آج ان لمحوں میں وقت کا پہیہ تیزی سے گزر گیا تھا یا پھر کسی نے دیوار سے لٹکی ہوئی گھڑی کی تینوں چھوٹی بڑی سوئیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تھی۔ دوران گفتگو مولانا موصوف نے یہاں کے نظام تعلیم و تربیت سے متعلق تفصیل سے بتائی۔

ادارہ ہذا کا قیام بہت پہلے ہی مکتب کی صورت میں عمل میں آیا تھا لیکن سن ۲۰۰۸ء/ میں تقریباً سوا بیگھا زمین پہ قیام جدید کے ساتھ بہترین تعلیم و تعلم کا نظام نافذ ہوا اور اب تک وہی اصول و ضوابط اور نظام درس و تدریس بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ چل رہے ہیں۔

نصف درجن ماہر اور بہترین حفاظ و قراء کی نگرانی میں حفظ و قرأت کی تعلیم کے ساتھ درس نظامی [اعدادیہ تا ثالثہ] کی بھی تعلیم رائج ہے۔ سچ بتاؤں تو آج پہاڑوں کے درمیان ۱۵/ کمرے اور ایک ہال روم پر مشتمل یہ خوب صورت ادارہ دیکھ کر جہاں میں پھولے نہیں سما رہا تھا

وہیں برابر یہ سوچ سوچ کر تجسس کے بھنور میں ڈوبتا چلا جا رہا تھا کہ آخر کوئی ایک ہی شخص کسی مدرسہ کے عہدۂ صدارت پہ مسلسل اتنے سالوں تک متمکن کیسے رہ سکتا ہے؟۔

کیا اتنے دنوں میں ان کی کوئی بھی ٹانگ کھینچنے والا پیدا نہیں ہوا؟

کیا یہاں کے ارکان و ممبران ان کی کامیابی سے بدظن نہیں ہوئے ہوں گے؟ کیا انھیں شک جیسی مہلک بیماری لاحق نہیں ہوئی ہوگی کہ یہ شخص مدرسے کے چندوں سے اپنا گھر چلاتا ہے اور گھپلہ بازی بھی کرتا ہے وغیرہ

طرح طرح کے خیالات دریچہ ذہن میں پنپ رہے تھے اور دل کا مفتی اس معمہ کو جاننے کے لیے بے چین و مضطرب ہو رہا تھا، آخر کار پیمانۂ صبر چھلکتے ہی میں نے مولانا کی بارگاہ میں یہ سوال داغ دیا اور وہ بھی بغیر کسی خرد برد کے جواباً دو ٹوک الفاظ میں گویا ہوئے کہ:۔

“حضرت! میں اپنا سارا حساب و کتاب کلیر رکھتا ہوں، مطبخ کے سارے لوازمات اور اساتذۂ کرام کے ناشتے پانی میں جتنے بھی روپیے کی لاگت ہوتی ہے

ان کا حساب و کتاب میں دار العلوم کے کسی باشعور طالب علم کے سپرد کر دیتا ہوں اور اطراف و اکناف و باہری چندوں کی تفصیلات میری ڈائری میں ہمیشہ تیار رہتی ہیں تا کہ انتظامیہ جس وقت بھی مجھ سے طلب کرے تو میں فوراً بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اسے پیش کر سکوں”۔

اس کے علاوہ میں نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ موصوف اگرچہ عہدۂ صدارت کی باگ ڈور کے مالک ہیں، لیکن وہ اپنے اساتذہ کے ہمراہ کبھی بھی مالکانہ رویہ اختیار نہیں کرتے ہیں، بلکہ سب کے ساتھ حسن اخلاق و کردار کے ساتھ پیش آتے ہیں۔

اچھا! اس رخ سے بھی موصوف کا منصفانہ رویہ خوب توانا ہے کہ انھوں نے لاک ڈاؤن جیسے سخت حالات میں بھی اپنے ادارے کے کسی استاذ کی تنخواہ موقوف نہیں کی، ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ اساتذہ خوش رہیں تا کہ طلبا کا تعلیمی سلسلہ تھمنے نہ پائے۔ شاید جذبۂ صادقہ کا یہی وہ خوشگوار نتیجہ ہے کہ ادارہ ہذا سے اب تک ۷۰/۶۰ حفاظ کرام بہترین تربیت کے ساتھ سند فراغت پا چکے ہیں۔

یہاں یہ بات یاد رہے کہ زیادہ تر طلبا اطراف و جوانب کے ہی ہوتے ہیں جو ہاسٹل میں رہ کر محنت و لگن کے ساتھ علمی تشنگی سے سیرابی حاصل کرتے ہیں۔ ادارہ کا محل وقوع دل و دماغ کو خوب بھانے والا ہے۔

شہر کے شور و غل سے دور پہاڑوں کے دامن اور کھلی فضا کے سینے میں یہ ادارہ واقعی جنگل کو منگل بنا دینے کی طاقت رکھتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ سب بزرگانِ دین کی نیک دعاؤں اور روشِ اسلاف پہ مستعدی کے ساتھ گامزن رہنے کی ہی برکت ہے کہ دار العلوم کی فضا میں روحانیت کی تاثیر پیدا ہو گئی ہے۔

ہاں! یہ بالکل سچ ہے کہ جب دینی و شرعی کام کے تئیں اخلاص و وفا کا عنصر کسی بندے کے اندر سے عشق کا لبادہ زیب تن کر کے نمودار ہوتا ہے تو پھر اس میں تکمیل کے سارے رنگ و روپ خود بخود چڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں

اور مجھے امید ہے کہ مولانا کا یہی خلوص ایک دن دار العلوم کو ترقیوں کے ساتویں آسمان پر لے جائے گا۔ انشاءاللہ

یقیناً دار العلوم کا تعلیمی انتظام و انصرام دیکھنے کے بعد راقم الحروف کو اس حقیقت کا اندازہ ہوا کہ اللہ کریم نے مولانا موصوف کو بہترین انتظامی صلاحیتوں سے بھی خوب نوازا ہے

آپ دوسروں کی ضرورت کے وقت بھی ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ ایک صاف گو انسان ہیں، جو کہتے ہیں وہ حتی الامکان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

رب کی رحمت سے مجھے یقین کامل ہے کہ موصوف کی یہی عادتیں اور نیک خصلتیں مسیحا بن کر آنے والے دنوں میں دار العلوم کو عروج و ارتقا فراہم کریں گی، اس کی تعلیمی معیار کی بلندی کے لیے آپ نے سنسان راتوں میں جو سنہرے خواب دیکھے ہیں وہ ایک دن ضرور شرمندۂ تعبیر ہوں گے۔

یہ بالکل اٹل حقیقت ہے کہ جن کے ساتھ رب کی رحمتیں شامل حال ہو جائیں تو وہ اپنے خواب ضرور پورے کر لیتے ہیں، اور وہ بھی ایسے سنہرے خواب جو کہ اعلاے کلمۃ اللہ اور دین حق کی سرفرازی سے متعلق ہوں۔ [سبحان اللہ]

اللہ کریم سے دعا ہے کہ مولیٰ اس علمی چمن کو ہمیشہ شاداب رکھے، ادارہ کے ارکان و ممبران اور معاونین کو سلامت رکھے، تمام متحرک و فعال اساتذہ کو صحت و سلامتی کے ساتھ عمر خضر دے تاکہ یہ علمی کارواں ہمیشہ پھلتا پھولتا رہے

ہماری قوم کے بچے یہاں داخل ہو کر علم و ہنر کا آفتاب و ماہتاب بنتے رہیں اور وہ اپنی دودھیا روشنی سے پورے عالم کو منور کرتے رہیں کہ۔

یہ مال و دولت دنیا، یہ رشتۂ و پیوند

بتان وہم و گماں لا الہ الااللہ

یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند

بہار ہو کہ خزاں، لا الہ الا اللہ

اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں

مجھے ہے حکمِ اذاں، لا الہ الا اللہ

از قلم : وزیر احمد مصباحی [بانکا]

ان مضامین کوبھی پڑھیں

اسلام ہی سچا مذہب کیوں ؟ 

ہندوستان کی آزادی اور علامہ فضل حق خیر آبادی 

 مذہبی مخلوط کلچر غیرت دین کا غارت گر

عورتوں کی تعلیم اور روشن کے خیالوں کے الزامات

شوسل میڈیا بلیک مینگ 

ہمارے لیے آئیڈیل کون ہیں ؟ 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *