اپوزیشن اتحاد وزیر اعظم کی بوکھلاہٹ

Spread the love

اپوزیشن اتحاد وزیر اعظم کی بوکھلاہٹ کیوں

پٹنہ میں گزشتہ 23 جون کو وزیر اعلی بہار نتیش کمار کی دعوت پر ملک کے لگ بھگ تمام چھوٹے بڑے لیڈر مٹنگ میں حاضر ہوئے۔

سبھوں نے وزیر اعظم مودی کی عوام مخالف پالیسیوں کی مخالفت کی اور آئندہ 2024 میں ہونے والے عام انتخاب میں ایک ساتھ مل کر چناؤ لڑنے کا فیصلہ کیا۔

نریندرمودی اپوزیشن کے اتحاد سے نہیں بلکہ نتیش کمار سے گھبڑائے ہوئے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ نتیش کمار وہی چانکیہ ہیں جنہوں نے این ڈی اے کی انجینئرنگ کی تھی اور اس کے بعد بی جے پی اقتدار میں آئی تھی۔

اب جب کہ نتیش کمار بی جے پی کے خلاف تمام اپوزیشن جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے میں کامیاب ہوئے ہیں تو مودی کو اپنے پیروں تلے سے زمین کھسکتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔

محمد رفیع 9931011524

rafimfp@gmail.com

1990 کی دہائی میں ملک کا سیاسی منظرنامہ بڑی تیزی سے بدل رہا تھا۔ سال 1992 میں راجیو گاندھی کے قتل کے بعد کانگریس میں نئی جان تو پیدا ہوئی

لیکن کانگریس پارٹی میں غلط رہنمائی نے پارٹی کی شبیہ خراب کر دی۔ اس کے بعد ملک میں پارٹیوں کے اتحاد کا دور شروع ہوا۔

کانگریس پارٹی کی جڑ ہندوستان کی مٹی پکڑ چکی تھی جسے ہلانے کی کوشش تو ہوتی تھی لیکن اسے جڑ سے اکھاڑنے کی کبھی بھی کسی اکیلے نے اپنے دم پر کوشش نہیں کی تھی بلکہ سب نے مل کر مقابلہ کیا تھا۔

چھوٹا چھوٹا الائنس جو اب بڑا shape لینا شروع کیا، بھاجپا کی رہ نمائی میں 1998 میں نیشنل ڈیموکریٹک اتحاد (NDA) قائم ہوا۔

اس کے کنوینرجارج فرنانڈس بنائے گئے۔ اتحاد میں کل تیرہ پارٹیاں شامل تھیں۔ اتحاد کو کامیابی ہاتھ لگی اور باجپئی جی کی 13 دنوں کی حکومت بنی۔

یعنی تیرہ پارٹی کی محنتوں سے تیرہ دنوں کی سرکار وجود میں آئی، اے آئی اے ڈی ایم کے نے جب این ڈی اے سے رشتہ توڑ لیا تو سال 1999 میں پھر سے اتحاد کو منظم کر پورے پانچ سال کے لیے باجپئی جی کی حکومت قائم ہوئی۔

ادھر کانگریس نے بھی یونین پروگریسو الائنس (UPA) اتحاد قائم کیا۔

دراصل میں آپ کے گوش گزار یہ کرنا چاہتا ہوں کہ این ڈی اے کا قیام بھاجپا کی رہنمائی میں ہوا تھا، کنوینر جارج فرنانڈس تھے لیکن اصل ذمہ داری نتیش کمار ادا کر رہے تھے۔

غیر بھاجپائی جماعتوں کو نتیش کمار نے ہی کانگریس کے خلاف ایک جٹ کیا تھا۔ تبھی بھاجپا کا کانگریس مکت بھارت کا مشن کامیاب ہوا تھا۔

ایک مرتبہ پھر سے نتیش کمار کی دعوت پر سترہ سیاسی جماعتیں پٹنہ واقع ان کی رہائش پر جمع ہوئیں۔

اس مرتبہ نشانہ پر کانگریس نہیں، بلکہ پاور کے نشہ میں چور بھاجپا ہے، ہٹلر کا خطاب پا رہے وزیر اعظم ہند نریندر مودی ہیں۔ حالانکہ یہ کوشش کافی پہلے سے کی جارہی تھی لیکن نتیش کمار جب این ڈی اے سے الگ ہو کر عظیم اتحاد کا حصہ بنے تب سے انہوں نے بھاجپا کے خلاف مہم تیز کر دی اور گھوم گھوم کر تمام چھوٹے بڑے رہ نماؤں سے ملاقات کی اور ان کو بہار میں پٹنہ واقع اپنی رہائش پر منعقد ہونے والی اپوزت کی مٹنگ میں شرکت کی دعوت دی، نتیجتاً ایک کام یاب مٹنگ منعقد ہو پائی۔

کانگریس نے اس اتحاد کو Patriotic democratic Alliance یعنی PDA کا نام دیا ہے۔

مٹنگ میں موجود تمام رہنماؤں نے اپنے اپنے خیالات رکھے۔ بی جے پی حکومت کی غلط رہنمائی، ملک کے عوام کی ناقدری اور مودی حکومت کی dictatorship کا ذکر ہوا۔

تمام موجود رہ نماؤں نے اس مٹنگ میں ایک ساتھ مل کر بی جے پی کا مقابلہ کرنے کی رضامندی ظاہر کی۔ ممتا بنرجی نے جس طرح اپنے خیالات کا اظہار کیا اس سے پورا سین کلیر ہو گیا

ان کی باتوں میں اپوزیشن کا درد، ملک کا اور ملک کے عوام کے لئے فکر کی صحیح عکاسی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔

ملک میں تاناشاہی، بےشرمی اور dictatorship نے جو جگہ بنا لی ہے ویسے حالات میں حزب اختلاف کا ایک ساتھ مل کر مقابلہ کرنا ہی ایک راستہ ہے جس سے ملک کی ساکھ بچے گی۔

ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ اکیلے ہم ایک پیڑ کی ٹہنی نہیں توڑ سکتے لیکن سب ساتھ آجائیں تو ٹہنی کی بات تو دور ہم پورا کا پورا پیڑ ہی جڑ سے اکھار دیں گے۔

وزیر اعلی مغربی بنگال ممتا بنرجی نے اپوزیشن کی متحدہ مٹنگ میں بی جے پی کو کٹہرے میں کھڑا کیا

انہوں نے کہا ” ہم لوگ ایک ہیں، ہم لوگ ایک ساتھ لڑینگے، ہم کو اپوزیشن مت بولو، ہم لوگ بھی دیش کا citizen ہیں، ہم لوگ بھی patriotic ہیں، ہم بھی بھارت ماتا کہتے ہیں، منی پور جلنے سے ہمارا بھی آگ جلتا ہے

اس لیے ہم لوگوں نے یہ desition لیا ہے بی جے پی کا تاناشاہی جو گورنمنٹ ہے، جو dictatorship چلا رہا ہے، جو atrocities چلا رہا ہے، atrocrible، کیا نہیں کیا، ہم لوگوں کو جو elected government ہے ہم لوگوں کو ادھر میں پورا راجبھون کو alternative government بنا دیا، ہمرا state کا معلوم نہیں آپ کو فاؤنڈیشن ڈے ہے

انہوں نے فاؤنڈیشن ڈے کردیا ہم لوگوں کو کنسلٹ بھی نہیں کر کے، جو مرضی ہے کرتا ہے جو آواز کچھ بولتا ہے تو اس کے خلاف میں ای ڈی لگا دیتا ہے، سی بی آئی لگا دیتا ہے، میڈیا کو تو پورا کنٹرول کیا ہے

ہم کیا چلاکی کرتا ہے چھپے رستم کے مافک، بہت سارے lawyer کو کورٹ میں بھیج کر کوئی نہ کوئی کیس کر کر ہم لوگوں کے خلاف میں کوئی نہ کوئی سی بی آئی ہوتا ہے نہیں تو ای ڈی ہوتا ہے نہیں تو پنچایتی سی بی آئی میں ہوگا

ایسے سب ہوتا ہے جو کہ نہیں ہونا چاہئے لیکن بے روزگاری کے بارے میں چنتا نہیں کرتے ہیں، عام جنتا کے لئے چنتا نہیں کرتے ہیں، economy totaly distroy کے بارے میں چنتا نہیں کرتا ہے، مہیلا کا عزت لوٹتا ہے چنتا نہیں کرتا ہے

دلتوں کے خلاف میں ہے چنتا نہیں کرتا ہے، ایک سو دن کا روپیہ نہیں دیتا ہے، گاؤں کا راستہ کا روپیہ نہیں دیتا ہے، آواس یوجنا کا روپیہ نہیں دیتا ہے، یونیورسٹی میں مرضی کے موافک وی سی depute کرتا ہے، کیا نہیں کیا ہے؟

اس لیے جتنا بھی تاناشاہی بی جے پی گورنمنٹ قانون لے آئیں گے، جو کالا قانون، ہم لوگ ایک ساتھ مل کے او کالا قانون کے خلاف لڑائی کریں گے، ہمارا خون بہتا ہے بہنے دو

لیکن ہم دیش کی جنتا کو رکچھا کرے گا نہیں تو انڈیا نہیں رہے گا، اگر اے چناؤ میں پھر وو لوگ آجائے تاناشاہی گورنمنٹ تو نیکسٹ دیش میں چناؤ ہی نہیں ہوگا ایسا لوگوں کا کہنا ہے اسی کے لیے ہم لوگوں نے تین چیز پر زور دیا ہے ایک we are United دوسرا we will fight together تیسرا next meeting شملہ میں ہوگا اور چوتھا جو بھی political agenda بی جے پی لے آئے گا

ہم سب اکٹھا لڑائی کرے گا۔ آخر میں انہوں نے میڈیا کا co-operate کرنے کے لئے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا آج کا میٹنگ بہت مہتوپرن مٹننگ ہے

I think the history strated from here, BJP wants to history should be change and we want history should be saved from the Bihar. ”

یہ بانگی دیکھا، یہ آواز صرف ممتا کی نہیں ہے بلکہ یہ آواز اپوزیشن کی ہے، لیکن اپوزیشن کے رہ نماؤں میں لیڈرشپ کو لے کر ایک رائے نہیں ہے۔

لیڈرشپ کو لے کر دو باتیں تو صاف ہیں، پہلا یہ کہ ہر کوئی وزیر اعظم کی کرسی پر خود بیٹھنا چاہتا ہے تو دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی بھی لیڈر کسی دوسرے لیڈر کو وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھا دیکھنا نہیں چاہتا ہے۔ یعنی اپوزیشن کا ہر لیڈر پی ایم میٹریل ہے۔

بی جے پی والے کہتے ہیں نہ کہ اپوزیشن کے پاس وزیر اعظم کے عہدہ کے لیے رہ نما ہے ہی نہیں جب کہ بی جے پی کے پاس صرف ایک امیدوار ہے نریندر مودی، تو اپوزیشن کے پاس امیدواروں کی کمی نہیں ہے۔ کچھ کو یہ لگ رہا ہے کہ اپوزیشن بن دولہا کہ باراتی ہے جبکہ یہ سوچ غلط ہے۔

راجد کے قومی صدر، سابق وزیر ریل حکومت بہار لالو پرساد یادو نے راہل گاندھی سے صاف لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ آپ شادی کیجئے ہم لوگ باراتی جائیں گے۔

لالو پرساد یادو نے اشارے میں ہی اپوزیشن کے رہنما کا اعلان کر دیا شاید یہی بات کچھ رہنماؤں کو ہضم نہیں ہو رہی ہے۔

ویسے بھی کانگریس آج بھی بھاجپا کے بعد دیش کی سب سے بڑی پارٹی ہے اور راہل گاندھی نے بھارت جوڑو یاترا کے ذریعہ اپنے اسٹیٹس کو بڑھایا ہے۔ ملک کے عوام میں ان سے امیدیں جگی ہیں۔

لیکن ابھی عظیم اتحاد یا PDA کے رہنما صاف صاف کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم کے عہدہ کو لے کر ہمارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ہے۔

ہم لوگ ساتھ ہیں، ساتھ رہیں گے، ساتھ لڑیں گے اور انتخاب کے بعد وزیر اعظم کے امیدوار کا انتخاب کرلیں گے۔

دراصل ان کے درمیان جھگڑے کی ایک بڑی وجہ ہے اپنے – اپنے ریاستوں میں پارٹی کے وجود کو بچانا۔ اپوزیشن کی پارٹیوں میں بی جے پی سے کم ان کے اپنے حریف بھی خطرناک نہیں ہیں۔

اس لیے قومی مفاد پر ذاتی مفاد حاوی ہے۔ مودی حکومت سے پریشان ملک کا عوام اپوزیشن کی جانب امید بھری نظروں سے دیکھ رہا ہے۔

وہ سامانوں کی بڑھتی قیمت، لا اینڈ آرڈر کی بگڑتی صورتحال اور غیر یقینی کے ماحول سے ملک کو نکالنا چاہتا ہے۔

چند غلط لوگوں کی وجہ سے جو صورت حال بنی ہے وہ ملک کوغلامی کے راستے پر لے جا سکتی ہے اسی لیے عام عوام، امن پسند ہندوستانی اپوزیشن کے رہ نما راہل گاندھی، نتیش کمار ، تیجسوی پرساد یادو، کیجریوال، اکھلیش یادو اور ممتا بنرجی جیسے بڑے رہ نماؤں سے امید لگائے ہوئے ہیں کہ شاید یہ لوگ کوئی بہتر متبادل دیں اور ملک میں امن امان کا ماحول قائم ہو سکے۔

ادھر بی جے پی اپوزیشن کی اس مٹنگ سے چراغ پا ہو گئی ہے۔ اسے خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔

خصوصاً نتیش کمار کی حکمت عملی کا اسے بہتر تجربہ ہے۔ تبھی تو نریندر مودی نے اسٹیج سے اپوزیشن اتحاد کو گھوٹالے بازوں کی جماعت قرار دیا اور کھلے عام ان سب کو سزا دینے کی دھمکی دے ڈالی۔

وزیر اعظم ہند نریندر مودی نے کہا ایک ایک کے گناہوں کا حساب ہوگا، گھوٹالے بازوں کو چھوڑوں گا نہیں۔

کہتے ہیں کہ جب سب ہتھیار بیکار ثابت ہو جاتے ہیں تو آخری ہتھیار کی شکل میں لوگ اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہیں، مخالفین کو ڈراتے ہیں اور دھمکاتے ہیں۔

لیکن مودی جی نے شروعات ہی دھمکی سے کی ہے۔ یہ اپوزیشن کے اتحاد کا ہی نتیجہ ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مرکز سے بی جے پی کی حکومت کو ہٹانا ناممکن نہیں، ممکن ہے۔

اس بات کو اپوزیشن کے رہنما اور عوام اچھی طرح سمجھ لیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *