وادی تری پورہ کی جانب شیر اسلام کا قافلہ

Spread the love

از قلم: نازش مدنی مرادآبادی وادی تری پورہ کی جانب شیر اسلام کا قافلہ

وادی تری پورہ کی جانب شیر اسلام کا قافلہ

اللہ جل شانہ نے امت مسلمہ کے اندر کچھ ایسے جیالوں کو بھی پیدا فرمایا ہے
جن کے سینوں میں دینی غیرت و حمیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے
اور وہ دین پر کیے جانے والے حملوں کو قطعاً برداشت نہیں کرتے…اور ایمانی غیرت ان کو خاموش نہیں ہونے دیتی اور وہ باطل کے آگے برسر پیکار نظر آتے ہی

انہیں جاں گسل افراد میں محافظ ناموس رسالت، بانی تحریک فروغ اسلام، اولاد سیدنا عثمان غنی، پیر طریقت ،رہبر ملت، حضرت الشاہ قبلہ قمر عثمانی چشتی دامت فیوضم الجاریہ بھی ہیں۔ آپ کی ذات بیک وقت متعد اوصاف وکمالات کی جامع ہے…آپ کے اندر عثمانی غیرت وحیا کے جلوہ بھی ہیں… تو فاروقی جلال کے تیور بھی

آپ دین اسلام اور بالخصوص ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کے سامنے بر سر پیکار رہتے ہیں…اور اسلام پر پہرہ داری کو آپ نے اپنی زندگی کا مقصد اصلی بنا لیا ہے… اس لئے آپ حضرات، اگر حضرت کے ماضی کا ڈیٹا اٹھا کر دیکھیں گے، تو معلوم ہوگا کہ آپ ہر میدان ہر محاذ پر سرفہرست نظر آتے ہیں

چاہے وہ تین طلاق کا مسئلہ ہو یا این آر سی کا کالا قانون یا پھر ناموسِ رسالت پر بدترین حملے یا مسلمانوں پر بیجا تشدّد ہر طرح آپ دام ظلہ نے مد مقابل سے پنجہ آزمائی کی اور باطل کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کیا…ابھی گزشتہ چند ماہ قبل ناموسِ رسالت اور مسلمانوں پر کفار کی جانب سے کئے جانے والے مظالم کے سلسلہ میں آپ نے جیل بھرو! تحریک چلائی… بھلے ہی اس میں خاظر خواہ لوگوں نے شرکت نہیں کی مگر آپ نے ہار نہ مانی بلکہ تن تنہا اس مرد قلندر نے جنتر منتر دہلی میں حق کی آواز بلند کی۔

قصہ مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے سینے میں اس قدر جوش وجذبہ اور ولولہ رکھا ہے…کہ آپ حق کے لئے بولنے میں قطعاً عار محسوس نہیں کرتے… اور نہ ہی یہ پرواہ کرتے کے میری جان چلی جاے گی…بلکہ خود ہی فرماتے ہیں… ہمیں ایسی بے غیرت زندگی ہر گز نہیں جی سکتے کہ جس میں ناموسِ رسالت کو کھلے عام پامال کیا جا رہا ہو اور مسلم ماؤں بہنوں کی عزت وعصمت محفوظ نہ ہو۔

ابھی 20 اکتوبر 2021 کو ہندوستان کے شمالی صوبہ تری پورہ میں مسلموں پر کفار ناہنجار کی جانب سے انتہائی سخت تشدد ہوا جس مساجد اور مسلمانوں کے گھرون کو نذر آتش کیا گیا…اور بے قصور مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ ڈھاے گیے اور کئی مسلمان جام شہادت نوش کر گیے

اور ظلم بالاے ظلم یہ کہ خود نبی پاک صاحب لوکاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ہفتوات وبکواسات بکے گئے…یقینا اس سے ہر مسلمان کا دل چھلنی ہوا…سب نے الگ الگ تدبیریں اپنائیں کسی نے دعا وختم غوثیہ محفل کی تو کسی نے شہداء کے لئے ایصالِ ثواب کیا۔بہر حال ہر ایک نے اپنی استطاعت وطاقت کے مطابق جو کرنا تھا کیا

مگر کھل کر میدان میں جو شخصیت سامنے آئی وہ یہی حضرت قمر عثمانی صاحب کی ذات ہے…آپ نے چار روز قبل ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں آپ نے تری پورہ میں جاکر مظلوموں سے تعزیت وعیادت اور ظالموں کے خلاف قانونی کارروائی کے لیےتحریک فروغ اسلام کی جانب سے وفد لے جانے کا ارادہ ظاہر کیا

اس کے میں کافی احباب نے آپ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلنے کا ارادہ ظاہر کیا.. اس طرح چار نفری وفد 2 نومبر کو دہلی سے روانہ ہوا

وادی تری پورہ کی جانب شیر اسلام کا قافلہ

باقی روداد نیچے دی ہوئی مولانا آصف صاحب کی تحریر میں ملاحظہ فرمائیں۔

بتاریخ 2 نومبر تریپورہ کی راجدھانی اگرتلا ایئرپورٹ صبح 8 بجے جب راقم الحروف بھیونڈی سے جناب مدثر صاحب اور ہمارے ہمراہ دہلی سے تحریک کے نیشنل سیکریٹری و لیگل ایڈوائزر جناب احسان الحق رضوی صاحب اگرتلا ایئرپورٹ پہنچے

تو بانئ تحریک فروغ اسلام پیر طریقت اولاد حضرت عثمان غنی خلیفۂ حضور تاج الشریعہ حضرت قمر غنی عثمانی قادری چشتی صاحب قبلہ* سے ایئرپورٹ پر ملاقات ہوئی جو جھارکھنڈ و بنگال کے دوروں کو ملتوی کرکے کولکاتہ سے تشریف لائے تھے۔اگرتلا کے ایک سنی صحیح العقیدہ امام صاحب سے بانئ تحریک نے پہلے ہی رابطہ کیا تھا

جن سے بانئ تحریک کی پہلی ملاقات بریلی شریف میں 2017میں عرس رضوی کے موقع پر ہوئی تھی۔ جن کا مختصر تعارف پیش کرنا ضروری ہے اس خطہ کے لیے حضرت مولانانذرالاسلام قادری رضوی جو حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کے دامن سے ۲ض2016 میں دوسری مرتبہ عرس رضوی میں وابستہ ہوئے۔

موصوف کے بنگلہ دیش کے مشفق استاذ گرامی کے حکم پر اعلیٰ حضرت کی بارگاہ میں حاضری کیلئے پہلی بار 2013 میں حاضر ہوئے۔اور دوسری مرتبہ حاضری میں دامن اختر رضا مل گیا۔

بہر حال حضرت نے جو گاڑی بک کی تھی اس کے ذریعے اگرتلا میں ایک ہوٹل میں پہنچے اور فریش ہوکر اپنے مقصد کیلئے روانہ ہوگئے۔ سب سے پہلے ہم لوگ اودے پور ضلع ٹاؤن میں مولانا نذرالاسلام صاحب کے قریبی رشتہ دار کے گھر پہنچے اور اودے پور کے حالات دریافت کیے تو انھوں نے کہا الحمدللہ ہمارے اودے پور شہر میں کوئی ناخوشگوار معاملہ پیش نہیں آیا مگر ریلی یہاں بھی نکالی گئی۔

پھر انہوں نے بتایا یہاں سے 15 کلومیٹر کی دوری پر ایک جگہ درگاہ بازار کے قریب میں ایک گاؤں کی مسجد جلائی گئی ہے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ وہ مسجد گاؤں کے ایک مالدار شخص کے احاطے میں قائم تھی۔ جس کی تعمیر مکمل ٹین کے پترے پر تھی جسے نا معلوم افراد نے غالبا پیٹرول ڈال کر آگ لگایا تھا رات کے 1 بجے سے 2 بجے کے درمیان آگ کے شعلے جب بلند ہوئے تو لوگ اپنے گھروں سے باہر آئے۔

اور آگ بجھانے کی کوشش کی جن کے احاطے میں مسجد تھی ان کے گھر بیٹھ کر تفصیلی حالات معلوم کیے گئے تو انہوں نے بتایا کہ رات میں ہمیں پتہ ہی نہیں چلا کہ کس نے آگ لگایا اور کب لگایا۔ ہم نے ان سے ان کا نام پوچھا تو انہوں نے اپنا نام رحمت علی بتایا اور اپنے بڑے بیٹے کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ اس کا نام راکیش میاں ہے۔

اتنا سننے کے بعد ہم سب ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھتے رہے۔ بہرحال پھر احسان الحق رضوی نے کہا کہ بھارت میں بہت سے ایسے علاقے موجود ہیں جہاں پر خوف اور دہشت کی وجہ سے اس طرح نام لوگ رکھتے ہیں۔ رحمت علی صاحب نے ایک کام یہ اچھا کیا تھا کہ انہوں نے پر تھانہ ککرآبان میں ایف ،آئی ،آر حادثے کے دوسرے دن ہی درج کروائی تھی جس میں نا معلوم افراد کے خلاف ایف ، آئی، آر، درج کی گئی تھی۔

ایف ،آئی، آر کی ایک کاپی ہم نے لے لی اور رحمت علی صاحب کی حوصلہ افزائی کی گئی کہ ہر حال میں آگے بڑھنا ہے کسی طرح بھی پولیس کے دباؤ میں نہیں آنا ہے۔

ہم نے انہیں کے گھر پر ظہر ادا کی بعد نماز ظہر ککرابان پولیس اسٹیشن پہنچے اور وہاں کے آفیسر انچارج سے اس کیس کے تعلق سے تفصیلی گفتگو کی انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ ہم اپنی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔اور اس پر نتیجہ نکال کر جلد ہی کچھ کریں گے، اس کیس کو تب تک ہم کلوز نہیں کرینگے جب تک کسی لوجکل کنکلوزن تک نہیں پہنچا دیتے۔

اس پر احسان الحق رضوی صاحب نے آفیسر سے ایک سوال کیا کہ کیا یہاں پر بھی ویشوہندو پریشد، بجرنگ دل سنگھٹن کے لوگ ہیں۔؟ آفیسر نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہاں ان سنگٹھن کے لوگ نہیں ہیں۔

واضح رہے کہ یہ کیس تریپورہ کا سب سے پہلا کیس 20 اکتوبر کی رات کا ہے۔ باقی جگہوں پر جو حادثات ہوئے وہ ۲۱ اکتوبر کو متعدد شہروں میں آرگنائز ریلی کے ذریعے کرائے گئے۔

بعدۂ نماز عصر ایک ستر سالہ قدیم مسجد میں ادا کی گئی جو دیکھنے سے اہل سنت کی مسجد لگ رہی تھی مگر وہاں بھی وہابیوں کا قبضہ تھا۔ یہاں کی عوام اکثروبیشتر معمولات اہل سنت پر ہے جیسا کے اب تک جن لوگوں سے ملاقات ہوئی ان کےبیانات سے یہی ظاہر ہے۔

مگر ۹۰ فیصد مساجد میں وہابیہ، دیابنہ، کے امام ہیں۔ سنی علما و مشائخ کا دورہ آن علاقوں میں نہ ہونے کی وجہ سے سنیت کا کوئی کام نہ ہو سکا۔ اگرتلا قیام گاہ پر واپسی کے وقت راستے پر مغرب ادا کرنے کیلئے ایک مسجد دکھی، گاڑی روک کر ہم لوگ اترے ہی تھے دیکھا چند نوجوان بائکوں سے کفریہ نعرے لگاتے ہوے مسجد کے سامنے سے گزرے جب کہ مسجد کے باہر ہی پیراملٹری و پولیس کے جوان تعینات تھے، جلدی جلدی ہم سبھی نے نماز مغرب ادا کی۔

اس مسجد کا نام نوشر مسجد تھا۔ ایک بوڑھا شخص مسجد میں تنہا تلاوت کر رہا تھا۔ بانئ تحریک فروغ اسلام نے اس سے پوچھا کے کیا اس مسجد میں بھی کچھ ہوا تھا۔ تو اس بوڑھے نے بتایا ہاں یہاں بھی صحن میں گھس کر اندرونی حصے میں آگ لگایا تھا جس سے چٹایاں وغیرہ جل گئیں تھیں۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ پولیس والوں نے مجھے پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا کہ یہاں ایسا ہوگا۔

اس لیےمجھے مسجد کے ارکان اپنے گھر لے گیےتھے۔ ان واقعات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دہشت گردوں کی ہمتیں کتنی بڑھی ہوئی ہیں۔

آج تاخیر سے نکلنے کی وجہ سے ایک ضلع کے علاقوں کا ہی دورہ ہو سکا کا ان شاء اللہ کل صبح ضلع پانی ساگر کے علاقے کا دورہ کیا جائے گا۔ آپ حضرات سے دعاؤں کی درخواست ہے۔
دعا ہے مولی تعالیٰ تمام مسلمانوں کے جان ومال، عزت وآبرو ا، ایمان وعقیدے کی حفاظت فرمائے۔اور ہم تمام کے حامی ومدگار پیدا فرمائے

ان مضامین کو بھی پڑھیں

ہندوستان کی آزادی اور علامہ فضل حق خیر آبادی 

 مذہبی مخلوط کلچر غیرت دین کا غارت گر

ایک مظلوم مجاہد آزادی

عورتوں کی تعلیم اور روشن کے خیالوں کے الزامات

سیاسی پارٹیاں یا مسلمان کون ہیں محسن

شوسل میڈیا بلیک مینگ 

ہمارے لیے آئیڈیل کون ہیں ؟ 

 اتحاد کی بات کرتے ہو مسلک کیا ہے

خطرے میں کون ہے ؟

افغانستان سے لوگ کیوں بھاگ رہے ہیں 

 مہنگی ہوتی دٓاوا ئیاںلوٹ کھسوٹ میں مصروف کمپنیاں اور ڈاکٹرز

۔ 1979 سے 2021 تک کی  آسام کے مختصر روداد

ہندی میں مضامین کے لیے کلک کریں 

हिन्दी में पढ़ने क्लिक करें 

27 thoughts on “وادی تری پورہ کی جانب شیر اسلام کا قافلہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *