اگر آپ فلسطین کی مدد اور اسرائیل کو ہزیمت دینا چاہتے ہیں تو
اگر آپ فلسطین کی مدد اور اسرائیل کو ہزیمت دینا چاہتے ہیں تو
دنیا شناس لوگ کہتے ہیں کہ کسی کی ترقی کی کمر توڑنی اور اس کی شرح ترقی کو روکنا اور اس کے کبر ونخوت کا قلع قمع کرنا ہے تو اس کی معیشت و آمدنی کے ذرائع کو ختم کردو وہ گھٹنا ٹیکنے پر مجبور ہوجائےگا ۔ ایک چھوٹی سی مثال دوں ۔ غالبا سنہ ۱۹۹۴ یا اس کے آس پاس کا واقعہ ہے۔ مبارکپور قصبہ میں ویسے تو خورد ونوش کے کئی ہوٹل ہیں لیکن درمیان قصبہ ایک ایسا ہوٹل تھا کہ جامعہ اشرفیہ کے طلبہ چائے ناشتہ اور جاڑوں میں گاجر کا حلوہ کھانے کے لیے اس میں برابر آتے تھے دن کے تین چار بجے سے لے کر مغرب کے بعد تک طلبائے کرام کا چائے ناشتہ وغیرہ کے لیے آنے جانے کا سلسلہ جاری رہتاتھا ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ ہوٹل اشرفیہ کے طلباء کے لیے مخصوص ہو ۔ اس لئے کہ دوسرے لوگوں کو اس میں کم چانس ملتا تھا ، طلباءِ اشرفیہ کی وجہ سے ہوٹل سرعت کے ساتھ ترقی کرنے لگا ، اس کی آمدنی کا گراف بڑھنے لگا اور اس ترقی کا اثر ہوٹل کے مالک پر دکھنے بھی لگا ،اس کے اڑھنے پہننے کے انداز میں تبدیلی دکھنے لگی ، انداز گفتگو میں بھی فرق آگیا جو پہلے میٹھے اور پیار بھرے انداز سے طلباء سے باتیں کرتاتھا اور آئیے آئیے بیٹھئے بیٹھئے سے استقبال کرتاتھا اب انداز بدلتا جارہاتھا اور طلباء کی نزاکتوں سے چڑھنے لگا تھا ایک دن کسی طالب علم کے ساتھ وہ یا اس کا کوئی کارندہ الجھ گیا اور طالب علم کے ساتھ گستاخانہ ، بے ادبانہ انداز سے پیش آیا جس سے اس طالب علم کو دلی رنج پہنچا لیکن وہ اپنے رنج و تکلیف کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرلیا اور خاموشی کے ساتھ اپنی اقامت گاہ آگیا لیکن کچھ ہوشیار اور اونچی جماعتوں کے طلباء کو اس واقعہ کی خبر لگی تو انہوں نے اس کا نوٹس لیا اور اس ہوٹل کے بائیکاٹ پر ایک تحریر دیوار اشرفیہ پر چسپادیا ۔ اس تحریر کا یہ اثر ہواکہ طلباء اشرفیہ نے اس ہوٹل میں جانا تو درکنار جھانکنا بھی بند کردیا ایسا لگتاتھا کہ اس ہوٹل کو طلاق مغلظہ دے دیا گیا ہے ۔ طلباء کی اس بے رخی سے ہوٹل کے مالک کو اپنی غلطی کا احساس ہونے لگا اور اس کی انانیت دم توڑنے لگی ایک ہفتہ نہ گزرا تھا کہ وہ جامعہ اشرفیہ میں آکر طلباء سے معافی تلافی مانگنے لگا ۔ گاندھی جی نے بھی تحریک آزادی ہند کے وقت انگریزوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا تھا جس سے انگریز تنگ آکر ہندوستان کو آزاد کرنے پر مجبور ہوگیا ۔اور ہمارے لئے سب سے زیادہ قابل عمل حضور سیدنا و سندنا تاج الشریعہ علامہ اختر رضا خان علیہ الرحمة والرضوان کا یہ قول ہے کہ” *مجھے جب سے یہ معلوم ہواکہ کوکاکولا ،پیپسی کولڈرنکس کمپنی نام نہاد اسرائیل کی ہے میں نے اسے ہاتھ نہیں لگایا وہ اس لئے کہ ہمارے پیسے کو وہ ہمارے ہی خلاف استعمال کرتے ہیں* ۔ ( نقوش تاج الشریعہ) اگر آپ فلسطین کی مدد اور اسرائیل کو شکست دینا چاہتے ہیں یا کمزور کرنا چاہتے ہیں تو اے مسلمانوں ! اسرائیل کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرو ۔ تھمس ، کوکاکولا اور دوسری مشروبات کی جگہ لیموں کی شربت پیو، دیسی چیزوں کا استعمال کرو ۔ اگر یکلخت مسلمان دکاندار اور خریدار اسرائیل کے پروڈکٹ کو مسترد کردیں تو اس کی ساری ہیکڑی نکل جائے گی ، اس کی مٹی پلید ہوجائے گی ۔( ان شاءاللہ )اس لئے سارے مسلمانوں سے گزارش ہے کہ اس جیسی تحریروں پر عمل کریں اور ائمہ مساجد بھی اپنے مقتدیوں کو جمعہ کی تقریروں میں سمجھائیں کہ اسرائیل کی مصنوعات کا ہرگز استعمال نہ کریں ۔
✍🏿 *محمد منصور عالم نوری مصباحی ۔
مدرس دارالعلوم عظمت غریب نواز پوسد مہاراشٹر